سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: دیت (خون بہا) کے احکام و مسائل
The Chapters on Blood Money
7. بَابُ: الدِّيَةِ عَلَى الْعَاقِلَةِ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ عَاقِلَةٌ فَفِي بَيْتِ الْمَالِ
7. باب: دیت عاقلہ (قاتل اور اس کے خاندان والوں) پر ہے ورنہ بیت المال سے دی جائے گی۔
Chapter: The Blood Money Must Be Paid By The 'Aqilah; If there Is No 'Aqilah, Then It Must Be Paid From the Treasury
حدیث نمبر: 2633
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا ابي ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن عبيد بن نضلة ، عن المغيرة بن شعبة ، قال:" قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالدية على العاقلة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نَضْلَةَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدِّيَةِ عَلَى الْعَاقِلَةِ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: دیت عاقلہ (قاتل اور اس کے خاندان والوں) کے ذمہ ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القسامة 11 (1682)، سنن ابی داود/الدیات 21 (4568)، سنن الترمذی/الدیات 15 (1411)، سنن النسائی/القسامة، 33 (4825)، (تحفة الأشراف: 11510)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الدیات 25 (6910)، الاعتصام 13 (7317)، مسند احمد (4/224، 245، 246، 249)، سنن الدارمی/الدیات 20 (2425) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 2634
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن درست ، حدثنا حماد بن زيد ، عن بديل بن ميسرة ، عن علي بن ابي طلحة ، عن راشد بن سعد ، عن ابي عامر الهوزني ، عن المقدام الشامي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انا وارث من لا وارث له اعقل عنه وارثه والخال وارث من لا وارث له يعقل عنه ويرثه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ ، عَنِ الْمِقْدَامِ الشَّامِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَا وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ أَعْقِلُ عَنْهُ وَأَرِثُهُ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ يَعْقِلُ عَنْهُ وَيَرِثُهُ".
مقدام شامی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث میں ہوں، اس کی طرف سے دیت بھی ادا کروں گا اور اس کا ترکہ بھی لوں گا، اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو، وہ اس کی دیت بھی ادا کرے گا، اور ترکہ بھی پائے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الفرائض 8 (2899، 2900)، (تحفة الأشراف: 11569)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/131، 133) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
8. بَابُ: مَنْ حَالَ بَيْنَ وَلِيِّ الْمَقْتُولِ وَبَيْنَ الْقَوَدِ أَوِ الدِّيَةِ
8. باب: قصاص یا دیت لینے میں جو مقتول کے ورثاء کے آڑے آئے اس کے گناہ کا بیان۔
Chapter: One Who Prevents The Next Of The Kin Of The Slain From Exacting Retaliation Or Taking The Blood Money
حدیث نمبر: 2635
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن معمر ، حدثنا محمد بن كثير ، حدثنا سليمان بن كثير ، عن عمرو بن دينار ، عن طاوس ، عن ابن عباس رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من قتل في عمية او عصبية بحجر او سوط او عصا، فعليه عقل الخطإ، ومن قتل عمدا فهو قود ومن حال بينه وبينه فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ قَتَلَ فِي عِمِّيَّةٍ أَوْ عَصَبِيَّةٍ بِحَجَرٍ أَوْ سَوْطٍ أَوْ عَصًا، فَعَلَيْهِ عَقْلُ الْخَطَإِ، وَمَنْ قَتَلَ عَمْدًا فَهُوَ قَوَدٌ وَمَنْ حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اندھا دھند فساد (بلوہ) میں یا تعصب کی وجہ سے پتھر، کوڑے یا ڈنڈے سے مار دیا جائے، تو قاتل پر قتل خطا کی دیت لازم ہو گی، اور اگر قصداً مارا جائے، تو اس میں قصاص ہے، جو شخص قصاص یا دیت میں حائل ہو تو اس پر لعنت اللہ کی ہے، اس کے فرشتوں کی، اور سب لوگوں کی، اس کا نہ فرض قبول ہو گا نہ نفل ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 17 (4539مرسلاً)، 28 (4591)، سنن النسائی/القسامة 26 (4793)، (تحفة الأشراف: 5739) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہی حکم ہے ہر اس شخص کا جو انصاف اور شرع کی بات سے روکے اور اس میں خلل ڈالے، وہ ملعون ہے، اس کا نماز روزہ سب بے فائدہ ہے، اور اندھا دھند فساد کا مطلب یہ ہے کہ اس کا قاتل معلوم نہ ہو یا قتل کی کوئی وجہ نہ ہو یا کوئی اپنے لوگوں کی طرفداری کرتا ہو تو اس میں مارا جائے، یہ عصبیت ہے، تعصب بھی اسی سے نکلا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہتھیار سے عمداً نہ مارا جائے بلکہ چھوٹے پتھر یا چھڑی یا کوڑے سے مارا جائے تو اس میں دیت ہو گی قصاص نہ ہو گا جیسے اوپر گزرا۔

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
9. بَابُ: مَا لاَ قَوَدَ فِيهِ
9. باب: جن چیزوں میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے ان کا بیان۔
Chapter: Actions For Which There Is No Retaliation
حدیث نمبر: 2636
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، وعمار بن خالد الواسطي ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن دهثم بن قران ، حدثني نمران بن جارية ، عن ابيه ، ان رجلا ضرب رجلا على ساعده بالسيف فقطعها من غير مفصل، فاستعدى عليه النبي صلى الله عليه وسلم فامر له بالدية فقال: يا رسول الله، إني اريد القصاص، قال:" خذ الدية بارك الله لك فيها" ولم يقض له بالقصاص.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَعَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ دَهْثَمِ بْنِ قُرَّانَ ، حَدَّثَنِي نِمْرَانُ بْنُ جَارِيَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا ضَرَبَ رَجُلًا عَلَى سَاعِدِهِ بِالسَّيْفِ فَقَطَعَهَا مِنْ غَيْرِ مَفْصِلٍ، فَاسْتَعْدَى عَلَيْهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ لَهُ بِالدِّيَةِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُرِيدُ الْقِصَاصَ، قَالَ:" خُذْ الدِّيَةَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا" وَلَمْ يَقْضِ لَهُ بِالْقِصَاصِ.
جاریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کی کلائی پر تلوار ماری جس سے وہ کٹ گئی، لیکن جوڑ پر سے نہیں، پھر زخمی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دیت (خون بہا) دینے کا حکم فرمایا، وہ بولا: اللہ کے رسول! میں قصاص لینا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیت لے لو، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اس میں برکت دے، اور اس کے لیے قصاص کا فیصلہ نہیں فرمایا ۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3180، ومصباح الزجاجة: 930) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں دھثم بن قرّان الیمامی متروک ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإ رواء: 2235)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
دهثم: ضعيف جدًا
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 473
حدیث نمبر: 2637
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب ، حدثنا رشدين بن سعد ، عن معاوية بن صالح ، عن معاذ بن محمد الانصاري ، عن ابن صهبان ، عن العباس بن عبد المطلب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا قود في المامومة ولا الجائفة ولا المنقلة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنِ ابْنِ صُهْبَانَ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا قَوَدَ فِي الْمَأْمُومَةِ وَلَا الْجَائِفَةِ وَلَا الْمُنَقِّلَةِ".
عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو زخم دماغ یا پیٹ تک پہنچ جائے، یا ہڈی ٹوٹ کر اپنی جگہ سے ہٹ جائے، تو اس میں قصاص نہ ہو گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5139، ومصباح الزجاجة: 931) (حسن)» ‏‏‏‏ (تراجع الألبانی: رقم: (390)

وضاحت:
۱؎: جن زخموں کی دیت میں برابری ہو سکے ان میں قصاص کا حکم دیا جائے گا، مثلاً کوئی عضو جوڑ سے کاٹ ڈالے تو کاٹنے والے کا بھی وہی عضو جوڑ پر سے کاٹا جائے گا، اور جن زخموں میں برابری نہ ہو سکے تو ان میں قصاص کا حکم نہ ہو گا بلکہ دیت دلائی جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
رشدين بن سعد: ضعيف
وللحديث شاهد ضعيف وأخرج البيهقي (65/8) بإسناد حسن عن طلحة رضي اللّٰه عنه أن النبي ﷺ قال: ((ليس في المأمومة قود))
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 473
10. بَابُ: الْجَارِحِ يَفْتَدِي بِالْقَوَدِ
10. باب: زخمی کرنے والا بدلے میں فدیہ دے تو اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: One Who Inflicts A Wound May Ransom Himself By Paying The Compensatory Money
حدیث نمبر: 2638
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث ابا جهم بن حذيفة مصدقا فلاجه رجل في صدقته فضربه ابو جهم فشجه، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: القود يا رسول الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لكم كذا وكذا" فلم يرضوا، فقال:" لكم كذا وكذا" فرضوا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم"، قالوا: نعم، فخطب النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" إن هؤلاء الليثيين اتوني يريدون القود، فعرضت عليهم كذا وكذا ارضيتم"، قالوا: لا، فهم بهم المهاجرون فامر النبي صلى الله عليه وسلم ان يكفوا فكفوا ثم دعاهم فزادهم، فقال:" ارضيتم؟" قالوا: نعم، قال:" إني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم"، قالوا: نعم، فخطب النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" ارضيتم"، قالوا: نعم. قال ابن ماجة: سمعت محمد بن يحيى يقول: تفرد بهذا معمر لا اعلم رواه غيره.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا فَلَاجَّهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ فَشَجَّهُ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: الْقَوَدَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَكُمْ كَذَا وَكَذَا" فَلَمْ يَرْضَوْا، فَقَالَ:" لَكُمْ كَذَا وَكَذَا" فَرَضُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ"، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنَّ هَؤُلَاءِ اللَّيْثِيِّينَ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا أَرَضِيتُمْ"، قَالُوا: لَا، فَهَمَّ بِهِمْ الْمُهَاجِرُونَ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا فَكَفُّوا ثُمَّ دَعَاهُمْ فَزَادَهُمْ، فَقَالَ:" أَرَضِيتُمْ؟" قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ"، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" أَرَضِيتُمْ"، قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ ابْن مَاجَةَ: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى يَقُولُ: تَفَرَّدَ بِهَذَا مَعْمَرٌ لَا أَعْلَمُ رَوَاهُ غَيْرُهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو مصدق (عامل صدقہ) بنا کر بھیجا، زکاۃ کے سلسلے میں ان کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا، ابوجہم رضی اللہ عنہ نے اسے مارا تو اس کا سر پھٹ گیا، وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور قصاص کا مطالبہ کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تم اتنا اتنا مال لے لو، وہ راضی نہیں ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اتنا اتنا مال (اور) لے لو، تو وہ راضی ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں لوگوں کے سامنے خطبہ دوں، اور تم لوگوں کی رضا مندی کی خبر سناؤں؟ کہنے لگے: ٹھیک ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: یہ لیث کے لوگ میرے پاس آئے اور قصاص لینا چاہتے تھے، میں نے ان سے اتنا اتنا مال لینے کی پیشکش کی اور پوچھا: کیا وہ اس پر راضی ہیں؟ کہنے لگے: نہیں، (ان کے اس رویہ پر) مہاجرین نے ان کو مارنے پیٹنے کا ارادہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باز رہنے کو کہا، تو وہ رک گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور کچھ اضافہ کر دیا، اور پوچھا: کیا اب راضی ہیں؟ انہوں نے اقرار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: کیا میں خطبہ دوں اور لوگوں کو تمہاری رضا مندی کی اطلاع دے دوں؟ جواب دیا: ٹھیک ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اور پھر کہا: تم راضی ہو؟ جواب دیا: جی ہاں ۱؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن یحییٰ کو کہتے سنا کہ معمر اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہیں، میں نہیں جانتا کہ ان کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 13 (4534)، سنن النسائی/القسامة 20 (4782)، (تحفة الأشراف: 16636)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/232) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: آپ ﷺ خطبہ میں ان کی رضا مندی کی بات اس لئے کہتے تھے تاکہ لوگ گواہ ہو جائیں اور پھر وہ اپنے اقرار سے مکر نہ سکیں چونکہ آپ کو ان کی صداقت پر بھروسہ نہ تھا، اور ایسا ہوا بھی، پہلی بار راضی ہو کر گئے، مگر خطبہ کے وقت کہنے لگے کہ ہم راضی نہیں ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (4534) نسائي (4782)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 474
11. بَابُ: دِيَةِ الْجَنِينِ
11. باب: «جنین» (پیٹ کے بچے) کی دیت کا بیان۔
Chapter: The Blood Money For A Fetus
حدیث نمبر: 2639
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن بشر ، عن محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في الجنين بغرة عبد او امة، فقال الذي قضي عليه: انعقل من لا شرب ولا اكل ولا صاح ولا استهل ومثل ذلك يطل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن هذا ليقول بقول شاعر فيه غرة عبد او امة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، فَقَالَ الَّذِي قُضِيَ عَلَيْهِ: أَنَعْقِلُ مَنْ لَا شَرِبَ وَلَا أَكَلَ وَلَا صَاحَ وَلَا اسْتَهَلَّ وَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذَا لَيَقُولُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ فِيهِ غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین (پیٹ کے بچے کی دیت) میں ایک غلام یا ایک لونڈی کا فیصلہ فرمایا، تو جس کے خلاف فیصلہ ہوا وہ بولا: کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے نہ پیا ہو نہ کھایا ہو، نہ چیخا ہو نہ چلایا ہو، ایسے کی دیت کو تو لغو مانا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو شاعروں جیسی بات کرتا ہے؟ پیٹ کے بچہ میں ایک غلام یا لونڈی (دیت) ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15096)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الطب 46 (5758)، الفرائض 11 (5759)، الدیات 25 (6909)، 26 (6910)، صحیح مسلم/القسامة 11 (1681)، سنن ابی داود/الدیات 21 (4576)، سنن الترمذی/الدیات 15 (1410)، الفرائض 19 (2111)، سنن النسائی/القسامة 33 (4822)، موطا امام مالک/العقول 7 (5)، مسند احمد (2/236، 274، 498، 539)، سنن الدارمی/الدیات 20 (2425) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 2640
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا وكيع ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن المسور بن مخرمة ، قال: استشار عمر بن الخطاب الناس في إملاص المراة يعني سقطها، فقال المغيرة بن شعبة :" شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى فيه بغرة عبد او امة"، فقال عمر: ائتني بمن يشهد معك، فشهد معه محمد بن مسلمة .
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، قَالَ: اسْتَشَارَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ النَّاسَ فِي إِمْلَاصِ الْمَرْأَةِ يَعْنِي سِقْطَهَا، فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ :" شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِيهِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ"، فَقَالَ عُمَرُ: ائْتِنِي بِمَنْ يَشْهَدُ مَعَكَ، فَشَهِدَ مَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ .
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پیٹ سے گر جانے والے بچے کے بارے میں مشورہ لیا، تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنی اس بات کے لیے گواہ لاؤ، تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ گواہی دی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القسامة 2 (1689)، سنن ابی داود/الدیات 21 (4570)، (تحفة الأشراف: 11233، 11529)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/253)، سنن الدارمی/المقدمة 54 (668)، الدیات 20 (2426) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: عمر رضی اللہ عنہ نے مزید توثیق کے لئے گواہ طلب کیا تھا ورنہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سچے صحابی رسول تھے، اور خبر واحد حجت ہے جب وہ ثقہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 2641
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن سعيد الدارمي ، حدثنا ابو عاصم ، اخبرني ابن جريج ، حدثني عمرو بن دينار انه سمع طاوسا ، عن ابن عباس ، عن عمر بن الخطاب انه نشد الناس قضاء النبي صلى الله عليه وسلم في ذلك يعني في الجنين، فقام حمل بن مالك بن النابغة فقال: كنت بين امراتين لي فضربت إحداهما الاخرى بمسطح فقتلتها وقتلت جنينها:" فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في الجنين بغرة عبد وان تقتل بها".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ نَشَدَ النَّاسَ قَضَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ يَعْنِي فِي الْجَنِينِ، فَقَامَ حَمَلُ بْنُ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ فَقَالَ: كُنْتُ بَيْنَ امْرَأَتَيْنِ لِي فَضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِمِسْطَحٍ فَقَتَلَتْهَا وَقَتَلَتْ جَنِينَهَا:" فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ وَأَنْ تُقْتَلَ بِهَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جنین (پیٹ کے بچے) کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تلاش کیا، تو حمل بن مالک رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: میری دو بیویاں تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو خیمے کی لکڑی سے مارا جس سے وہ اور اس کے پیٹ میں جو بچہ تھا دونوں مر گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین (پیٹ کے بچہ) میں ایک غلام یا ایک لونڈی دینے کا، اور عورت کو عورت کے قصاص میں قتل کا فیصلہ فرمایا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 21 (4572)، سنن النسائی/القسامة 33 (4820)، (تحفة الأشراف: 3444)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/364، 4/79، سنن الدارمی/الدیات 21 (2427) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کیونکہ جرم دو تھے ایک عورت کا قتل، دوسرا بچہ کا، ہر ایک کی سزا الگ الگ دلائی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
12. بَابُ: الْمِيرَاثِ مِنَ الدِّيَةِ
12. باب: دیت کی میراث کا بیان۔
Chapter: Inheritance From The Blood Money
حدیث نمبر: 2642
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، ان عمر كان يقول:" الدية للعاقلة، ولا ترث المراة من دية زوجها شيئا حتى كتب إليه الضحاك بن سفيان ان النبي صلى الله عليه وسلم ورث امراة اشيم الضبابي من دية زوجها".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ:" الدِّيَةُ لِلْعَاقِلَةِ، وَلَا تَرِثُ الْمَرْأَةُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا شَيْئًا حَتَّى كَتَبَ إِلَيْهِ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَّثَ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابِيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا".
سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ دیت (خون بہا) قاتل کے خاندان والوں کے ذمہ ہے، اور عورت کو اپنے شوہر کی دیت میں سے کچھ نہیں ملے گا، یہاں تک کہ ضحاک بن سفیان نے ان کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشیم ضبابی رضی اللہ عنہ کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت میں سے ترکہ دلایا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الفرائض 18 (2927)، سنن الترمذی/الدیات 19 (1415)، الفرائض 18 (2110)، (تحفة الأشراف: 4973)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العقول 17 (10)، مسند احمد (3/452) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: پہلے عمر رضی اللہ عنہ کی رائے حدیث کے خلاف تھی، جب حدیث پہنچی تو اسی وقت اپنی رائے سے رجوع کر لیا، یہی حال تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور تمام علمائے صالحین کا تھا، لیکن اس زمانہ میں بعض نام کے مسلمان ایسے نکلے ہیں کہ اگر ایک حدیث نہیں دس صحیح حدیثیں بھی ان کو پہنچاؤ تب بھی قیاس اور رائے کی تقلید نہیں چھوڑتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.