سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ دیت (خون بہا) قاتل کے خاندان والوں کے ذمہ ہے، اور عورت کو اپنے شوہر کی دیت میں سے کچھ نہیں ملے گا، یہاں تک کہ ضحاک بن سفیان نے ان کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشیم ضبابی رضی اللہ عنہ کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت میں سے ترکہ دلایا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: پہلے عمر رضی اللہ عنہ کی رائے حدیث کے خلاف تھی، جب حدیث پہنچی تو اسی وقت اپنی رائے سے رجوع کر لیا، یہی حال تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور تمام علمائے صالحین کا تھا، لیکن اس زمانہ میں بعض نام کے مسلمان ایسے نکلے ہیں کہ اگر ایک حدیث نہیں دس صحیح حدیثیں بھی ان کو پہنچاؤ تب بھی قیاس اور رائے کی تقلید نہیں چھوڑتے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الفرائض 18 (2927)، سنن الترمذی/الدیات 19 (1415)، الفرائض 18 (2110)، (تحفة الأشراف: 4973)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العقول 17 (10)، مسند احمد (3/452) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2642
اردو حاشہ: فوائد مسائل:
(1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ رائے غالباً اس بنا پر بھی کہ دیت قاتل کے عصبہ ادا کرتے ہیں، لہٰذا و ہ مقتول کے عصبہ رشتے داروں کو ملنی چاہیے اور بیوی عصبہ میں شامل نہیں۔
(2) صحیح مسئلہ یہ ہے کہ دیت کی رقم بھی دوسرے ترکے کے حکم میں ہے، لہٰذا جن جن وارثوں کو عام ترکہ ملتا ہے، انہیں اسی حساب سے دیت کی رقم بھی بطور ترکہ ملے گی۔
(3) صحابۂ کرام ؓ سے بھی اجتہاد غلطی ممکن ہے، اس لیے بعد کے علماء وائمہ سے بالاولیٰ غلطی صادر ہوسکتی ہے۔
(4) صحابۂ کرام ؓ حدیث معلوم ہو جانے پر اجتہادی رائے سے رجوع کر لیا کرتےتھے۔ علماء کو یہی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2642