Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الديات
کتاب: دیت (خون بہا) کے احکام و مسائل
7. بَابُ : الدِّيَةِ عَلَى الْعَاقِلَةِ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ عَاقِلَةٌ فَفِي بَيْتِ الْمَالِ
باب: دیت عاقلہ (قاتل اور اس کے خاندان والوں) پر ہے ورنہ بیت المال سے دی جائے گی۔
حدیث نمبر: 2634
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ ، عَنِ الْمِقْدَامِ الشَّامِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَا وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ أَعْقِلُ عَنْهُ وَأَرِثُهُ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ يَعْقِلُ عَنْهُ وَيَرِثُهُ".
مقدام شامی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث میں ہوں، اس کی طرف سے دیت بھی ادا کروں گا اور اس کا ترکہ بھی لوں گا، اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو، وہ اس کی دیت بھی ادا کرے گا، اور ترکہ بھی پائے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الفرائض 8 (2899، 2900)، (تحفة الأشراف: 11569)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/131، 133) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2634 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2634  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وارثوں میں سب سے پہلے ان کو حصہ دیا جاتا ہے جن کے حصے قرآن مجید اور احادیث میں مقرر کردیے گئے ہیں۔
انہیں اصحاب الفروض کہتے ہیں۔
ان کی عدم موجودگی میں، یا ان کو دے کر باقی بچنے والا مال عصبہ کو ملتا ہے، یعنی میت کے وہ رشتے دار جن کا تعلق میت سے عورت کے واسطے سے نہ ہو، مثلاً:
بھائی، بھتیجا، چچا اور تایا وغیرہ۔
اگر عصبہ موجود نہ ہوں تو پھراولوالارحام وارث ہوتےہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کا میت سے تعلق عورت کے واسطے سے ہوتا ہے، مثلاً:
ماموں (ماں کا بھائی)
، بھانجا(بہن کا بیٹا)
، نانا (ماں کا والد)
اور خالہ (ماں کی بہن)
وغیرہ۔

(2)
عصبہ کی عدم موجودگی میں اولو الارحام جس طرح ترکے کے حق دار ہوتے ہیں اسی طرح مالی ذمے داریوں کی ادائیگی بھی ان پر لازم ہوتی ہے، چنانچہ یہ رشتے دار اس صورت میں دیت کی ادائیگی کے بھی ذمے دار ہوتے ہیں۔
وراثت سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کے لیے دیکھئے: اسلامی قانون وراثت از مولانا ابونعمان بشیراحمد، طبع دارالسلام لاہور۔

(3)
لاوارث میت کی جائیداد بیت المال کےلیے ہوتی ہے۔
نبیﷺ اسلامی حکومت کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اس مال کا انتظام فرماتے تھے۔
خلیفۃ المسلمین بیت المال کے ذریعے سے یہ ذمے داری پوری کرتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2634   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2901  
´ذوی الارحام کی میراث کا بیان۔`
مقدام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث میں ہوں اس کے قیدیوں کو چھڑاؤں گا، اور اس کے مال کا وارث ہوں گا، اور ماموں اس کا وارث ہے ۱؎ جس کا کوئی وارث نہیں وہ اس کے قیدیوں کو چھڑائے گا، اور اس کے مال کا وارث ہو گا۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2901]
فوائد ومسائل:

ان احادیث میں حکومت اسلامیہ کی اقتصادی پالیسی کا ایک پہلو بیان ہواہے۔
کہ وہ اپنی رعیت کو معاشی فلاح وبہبود کی ہر طرح سے ذمہ دار ہوتی ہے۔
یہاں تک کہ اگر کوئی مقروض مرجائے تو ہو اس کا قرضہ ادا کرے گی۔
بے سہارا چھوٹے بچوں اور بیوائوں کی کفالت کرے گی۔
جبکہ وراثت رشتہ داروں میں تقسیم ہوگی۔


ماموں ذوی الارحام میں سے ہے۔
دوسرے وارثوں کے نہ ہونے کی صورت میں وہی وارث ہے۔
اور اسی طرح اگر بھانجے کے ذمے کوئی مالی حقوق آتے ہوں۔
تو وہ ان کی ادایئگی کا بھی پابند ہے۔
اس میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بحیثیت مسلمان انسان کو اپنے قریبی بعیدی سبھی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ مظبوط رکھنا چاہیے۔
جیسے جی یہی لوگ اس کے معاون و مددگار اور اس کے پیچھے اس کی اولاد کے کفیل بنتے ہیں۔


اگر کوئی شخص لاوارث ہوتو حکومت اسلامیہ (بیت المال) اس کی وارث ہوگی۔
اور ایسے شخص پر لازم آنے والے مالی حقوق بھی حکومت ادا کرے گی۔


یہ رفاحی اصول مسلمانوں اور مومنوں کے لئے ہیں۔
جو بلاجواز حکومت سے صدقات لینے کے روادار نہیں ہوسکتے۔
کیونکہ ایمان انسان کے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرتا ہے۔
اس لئے یہ نہ سمجھا جائے کہ ان رعایتوں کی وجہ سے لوگ محنت نہیں کریں گے اور حکومت ہی پر بوجھ بن کر رہ جایئں گے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2901