عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ جب زمانہ زیادہ گزر جائے گا تو کہنے والا یہ کہے گا کہ میں کتاب اللہ میں رجم (کا حکم) نہیں پاتا، اور اس طرح لوگ اللہ تعالیٰ کے ایک فریضے کو ترک کر کے گمراہ ہو جائیں، واضح رہے کہ رجم حق ہے، جب کہ آدمی شادی شدہ ہو گواہی قائم ہو، یا حمل ٹھہر جائے، یا زنا کا اعتراف کر لے، اور میں نے رجم کی یہ آیت پڑھی ہے: «الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة»”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو ان دونوں کو ضرور رجم کرو ...“۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عباد بن العوام ، عن محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، قال: جاء ماعز بن مالك إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إني زنيت فاعرض عنه، ثم قال: إني قد زنيت، فاعرض عنه، ثم قال: إني زنيت فاعرض عنه، ثم قال: قد زنيت، فاعرض عنه، حتى اقر اربع مرات فامر به ان يرجم فلما اصابته الحجارة ادبر يشتد فلقيه رجل بيده لحي جمل فضربه فصرعه، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فراره حين مسته الحجارة فقال:" فهلا تركتموه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي زَنَيْتُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي زَنَيْتُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى أَقَرَّ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ فَلَمَّا أَصَابَتْهُ الْحِجَارَةُ أَدْبَرَ يَشْتَدُّ فَلَقِيَهُ رَجُلٌ بِيَدِهِ لَحْيُ جَمَلٍ فَضَرَبَهُ فَصَرَعَهُ، فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِرَارُهُ حِينَ مَسَّتْهُ الْحِجَارَةُ فَقَالَ:" فَهَلَّا تَرَكْتُمُوهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار زنا کا اقرار کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں رجم کر دیا جائے، چنانچہ جب ان پر پتھر پڑے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے، ایک شخص نے انہیں پا لیا، اس کے ہاتھ میں اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز کو مار کر گرا دیا، پتھر پڑتے وقت ان کے بھاگنے کا تذکرہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخر تم نے انہیں چھوڑ کیوں نہ دیا“؟۔
وضاحت: ۱؎: تاکہ ان سے پھر پوچھے شاید وہ اپنے اقرار سے پھر جاتے اور حد ساقط ہو جاتی، زنا کا اقرار ایک بار کرنا حد کے لئے کافی ہے، اور صحیح مسلم میں ہے کہ آپ ﷺ نے غامدیہ کو رجم کیا، اس نے ایک ہی بار اقرار کیا تھا، ایک یہودی اور یہودیہ کا رجم آگے مذکور ہو گا، اس میں بھی چار بار اقرار کا ذکر نہیں ہے۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر زنا کا اعتراف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دئیے گئے، پھر اس کو رجم کیا، اس کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے تاکہ بے پردگی نہ ہو، بعضوں نے اس کے حق میں کچھ برے الفاظ نکالے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ سارے مدینہ والوں میں بانٹ دی جائے تو ان کو کافی ہو جائے گی، بے شک یہ عورت اس زمانہ کے تمام عابدوں اور زاہدوں سے درجہ میں زیادہ تھی کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے گناہ کا اقرار کیا، سزا پائی، پھر نبی کریم ﷺ کی نماز جنازہ سے مشرف ہوئی، اللہ ان کے درجہ کو بلند کرے، آمین۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی جوڑے کو رجم کیا، میں بھی اس کو رجم کرنے والوں میں شامل تھا، میں نے دیکھا کہ یہودی مرد یہودیہ کو پتھروں سے بچانے کے لیے آڑے آ جاتا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8014)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحدود 24 (6148)، صحیح مسلم/الحدود 6 (1699)، سنن ابی داود/الحدود 26 (4446)، سنن الترمذی/االحدود 10 (1436)، موطا امام مالک/الحدود 1 (1)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/7، 63، 76)، سنن الدارمی/الحدود 15 (2367) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن البراء بن عازب ، قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بيهودي محمم مجلود، فدعاهم فقال:" هكذا تجدون في كتابكم حد الزاني"، قالوا: نعم، فدعا رجلا من علمائهم، فقال:" انشدك بالله الذي انزل التوراة على موسى اهكذا تجدون حد الزاني؟" قال: لا، ولولا انك نشدتني لم اخبرك، نجد حد الزاني في كتابنا الرجم، ولكنه كثر في اشرافنا الرجم، فكنا إذا اخذنا الشريف تركناه، وكنا إذا اخذنا الضعيف اقمنا عليه الحد، فقلنا: تعالوا فلنجتمع على شيء نقيمه على الشريف والوضيع، فاجتمعنا على التحميم والجلد مكان الرجم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اللهم إني اول من احيا امرك إذ اماتوه" وامر به فرجم. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَهُودِيٍّ مُحَمَّمٍ مَجْلُودٍ، فَدَعَاهُمْ فَقَالَ:" هَكَذَا تَجِدُونَ فِي كِتَابِكُمْ حَدَّ الزَّانِي"، قَالُوا: نَعَمْ، فَدَعَا رَجُلًا مِنْ عُلَمَائِهِمْ، فَقَالَ:" أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ عَلَى مُوسَى أَهَكَذَا تَجِدُونَ حَدَّ الزَّانِي؟" قَالَ: لَا، وَلَوْلَا أَنَّكَ نَشَدْتَنِي لَمْ أُخْبِرْكَ، نَجِدُ حَدَّ الزَّانِي فِي كِتَابِنَا الرَّجْمَ، وَلَكِنَّهُ كَثُرَ فِي أَشْرَافِنَا الرَّجْمُ، فَكُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الشَّرِيفَ تَرَكْنَاهُ، وَكُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الضَّعِيفَ أَقَمْنَا عَلَيْهِ الْحَدَّ، فَقُلْنَا: تَعَالَوْا فَلْنَجْتَمِعْ عَلَى شَيْءٍ نُقِيمُهُ عَلَى الشَّرِيفِ وَالْوَضِيعِ، فَاجْتَمَعْنَا عَلَى التَّحْمِيمِ وَالْجَلْدِ مَكَانَ الرَّجْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَكَ إِذْ أَمَاتُوهُ" وَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ.
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی کے پاس سے ہوا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور جس کو کوڑے لگائے گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو بلایا اور پوچھا: ”کیا تم لوگ اپنی کتاب توریت میں زانی کی یہی حد پاتے ہو“؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کو بلایا، اور اس سے پوچھا: ”میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جس نے موسیٰ پر توراۃ نازل فرمائی: کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد یہی پاتے ہو“؟ اس نے جواب دیا: نہیں، اور اگر آپ نے مجھے اللہ کی قسم نہ دی ہوتی تو میں آپ کو کبھی نہ بتاتا، ہماری کتاب میں زانی کی حد رجم ہے، لیکن ہمارے معزز لوگوں میں کثرت سے رجم کے واقعات پیش آئے، تو جب ہم کسی معزز آدمی کو زنا کے جرم میں پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر پکڑا جانے والا معمولی آدمی ہوتا تو ہم اس پر حد جاری کرتے، پھر ہم نے لوگوں سے کہا کہ آؤ ایسی حد پر اتفاق کریں کہ جو معزز اور معمولی دونوں قسم کے آدمیوں پر ہم یکساں طور پر قائم کر سکیں، چنانچہ ہم نے رجم کی جگہ منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کی سزا پر اتفاق کر لیا، یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم إني أول من أحيا أمرك إذ أماتوه» یعنی ”اے اللہ! میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو زندہ کیا ہے جسے ان لوگوں نے مردہ کر دیا تھا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ یہودی رجم کر دیا گیا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو رجم کرتا تو فلاں عورت کو کرتا، اس لیے کہ اس کی بات چیت سے اس کی شکل و صورت سے اور جو لوگ اس کے پاس آتے ہیں اس سے اس کا فاحشہ ہونا ظاہر ہو چکا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5877، ومصباح الزجاجة: 905)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الطلاق 31 (5310)، 36 (5316)، الحدود 43 (6856)، صحیح مسلم/اللعان 1 (1497)، سنن النسائی/الطلاق 36 (3497)، مسند احمد (1/335، 357، 365) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی عورت کا فاحشہ ہونا معلوم ہو، تو بھی اس کو زنا کی حد نہیں لگا سکتے جب تک کہ اس کی طرف سے جرم کا اعتراف و اقرار نہ ہو، یا چار آدمیوں کی گواہی کا ثبوت نہ ہو۔
قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دو لعان کرنے والوں کا تذکرہ کیا، تو ان سے ابن شداد نے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو رجم کرتا تو اس عورت کو کرتا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: وہ تو ایسی عورت تھی جو علانیہ بدکار تھی۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو تم پاؤ کہ وہ قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کر رہا ہے، تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم لوط کے عمل یعنی اغلام بازی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا: ”اوپر والا ہو کہ نیچے والا، دونوں کو رجم کر دو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12686، ومصباح الزجاجة: 906)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحدود 24، (1456 تعلیقاً) (حسن)» (سند میں عاصم بن عمر ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)