ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مقررہ مدت کے لیے غلہ قرض پر خریدا، اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھ دی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: رہن کہتے ہیں گروی رکھنے کو یعنی کوئی چیز کسی کے پاس بطور ضمانت رکھ کر اس سے قرض لینا، گروی رکھنے والے کو راہن اور گروی رکھ کر قرض دینے والے کو مرتہن اور جو چیز گروی رکھی جائے اس کو رہن یا مرہون کہتے ہیں۔
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس کچھ غلے کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15774، ومصباح الزجاجة: 858)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/453، 457) (صحیح)» (سند میں شہر بن حوشب ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن زكريا ، عن الشعبي ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الظهر يركب إذا كان مرهونا، ولبن الدر يشرب إذا كان مرهونا، وعلى الذي يركب ويشرب، نفقته". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ زَكَرِيَّا ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الظَّهْرُ يُرْكَبُ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ، نَفَقَتُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور پر سواری کی جائے گی جب وہ اس کے ذمہ گروی ہو، اور دودھ والے جانور کا دودھ پیا جائے گا جب وہ گروی ہو، اور جو سواری کرے یا دودھ پیئے اس جانور کی خوراک کا خرچ ہو گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ مرتہن کو شرعی طور پر گروی جانور کے دودھ پینے اور سواری کرنے کا حق حاصل ہے، راہن سے اس سلسلے میں اسے اجازت کی ضرورت نہیں، البتہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ جانور پر خرچ اور منافع کو سامنے رکھتے ہوئے انصاف سے کام لے، واضح رہے کہ اس قسم کے منافع کو سود سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک استثنائی شکل ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہن روکا نہیں جا سکتا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13113، ومصباح الزجاجة: 859)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 10 (13) (ضعیف)» (سند میں محمد بن حمید الرازی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 5/ 242 و 1408)
وضاحت: ۱؎: زمانہ جاہلیت سے یہ دستور چلا آ رہا تھا کہ راہن اگر وقت مقررہ پر قرض کی ادائیگی سے قاصر رہا، تو اس کا گروی مال ڈوب جاتا تھا، اسلام نے اس ظالمانہ نظام کی تردید کی، اور اسے مرتہن کے پاس امانت قرار دے کر راہن کی ملکیت میں برقرار رکھا، اور راہن کو حکم دیا کہ قرض کی ادائیگی کے لئے بھر پور کوشش کرے، کوشش کے باوجود اگر وہ قرض ادا نہ کر سکے تو مرہون (رہن میں رکھی چیز کو) بیچ کر قرض پورا کرنے اور بقیہ مال راہن کو لوٹا دینے کا حکم دیا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن الدارقطني (3/ 32 ح 2897) وقال: ”وھذا إسناد حسن متصل“ الزھري عنعن فالسند غير متصل انوار الصحيفه، صفحه نمبر 467
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن ان کا مدمقابل میں ہوں گا، اور جس کا میں قیامت کے دن مدمقابل ہوں گا اس پر غالب آؤں گا، ایک وہ جو مجھ سے عہد کرے پھر بدعہدی کرے، دوسرے وہ جو کسی آزاد کو پکڑ کر بیچ دے پھر اس کی قیمت کھائے، اور تیسرے وہ جو کسی کو مزدور رکھے اور اس سے پورا کام لے اور اس کی اجرت نہ دے“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6736، ومصباح الزجاجة: 860) (صحیح)» (سند میں عبد الرحمن بن زید ضعیف راوی ہیں، اور وہب بن سعید یہ عبد الوہاب بن سعید صدوق ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ کام ختم ہوتے ہی اس کی اجرت دے دو، یہ نہیں کہ اجرت دینے میں حیلہ کرو اور کام لے لو۔
عتبہ بن ندر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو آپ نے سورۃ «طسم» پڑھی، جب موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ پر پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ کو عفت و پاک دامنی اور خوراک کے عوض آٹھ یا دس سال تک مزدور بنایا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9759، ومصباح الزجاجة: 861) (ضعیف جدا)» (بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور مسلمہ بن علی منکرالحدیث ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1488)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث ضعیف ہے، اور یہ معلوم ہے کہ جب موسی علیہ السلام مصر سے بھاگ کر مدین میں پہنچے تو وہاں شعیب علیہ السلام کے نوکر ہوئے، اقرار یہ تھا کہ آٹھ یا دس برس تک عفت کے ساتھ ان کی خدمت کریں اور کھانا پیٹ بھر کھائیں، مدت کے بعد ایک بیٹی کا نکاح ان سے کر دیا جائے یہ قصہ قرآن شریف میں تفصیل سے مذکور ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا مسلمة بن علي:متروك والسند ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 467
(موقوف) حدثنا ابو عمر حفص بن عمرو ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سليم بن حيان ، سمعت ابي ، يقول: سمعت ابا هريرة ، يقول:" نشات يتيما وهاجرت مسكينا وكنت اجيرا لابنة غزوان بطعام بطني وعقبة رجلي، احطب لهم إذا نزلوا واحدو لهم إذا ركبوا، فالحمد لله الذي جعل الدين قواما وجعل ابا هريرة إماما". (موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ:" نَشَأْتُ يَتِيمًا وَهَاجَرْتُ مِسْكِينًا وَكُنْتُ أَجِيرًا لِابْنَةِ غَزْوَانَ بِطَعَامِ بَطْنِي وَعُقْبَةِ رِجْلِي، أَحْطِبُ لَهُمْ إِذَا نَزَلُوا وَأَحْدُو لَهُمْ إِذَا رَكِبُوا، فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ الدِّينَ قِوَامًا وَجَعَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ إِمَامًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری پرورش یتیمی کی حالت میں ہوئی، اور ہجرت کرنے کے وقت میں مسکین تھا، اور غزوان کی بیٹی کا صرف خوراک کی اور باری باری اونٹ پر چڑھنے کے عوض مزدور تھا، جب وہ لوگ ٹھہرتے تو میں ان کے لیے لکڑیاں چنتا، اور جب وہ سوار ہوتے تو میں ان کے اونٹوں کی حدی خوانی کرتا، تو شکر ہے اللہ کا جس نے دین کو مضبوط کیا، اور ابوہریرہ کو امام بنایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12295، ومصباح الزجاجة: 862) (ضعیف)» (حیان بن بسطام ضعیف راوی ہیں)