عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2439
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) رہن کا مطلب ہے کہ کسی کے پاس اپنی کوئی چیز بطورضمانت رکھ کر اس سے قرض یا ادھار لینا۔ ضرورت کے وقت اس طرح قرض لینا یا دینا جائز ہے۔
(2) قرآن مجید میں ارشاد ہے ﴿وَاِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا کَاتِباً فَرِهنٌ مَّقْبُوْضَة﴾(البقرۃ2: 283) اگر تم سفر میں ہو اورتمھیں (قرض کا لین دین) لکھنے والانہ ملے تو رہن قبضے میں رکھ لیاکرو۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہےکہ رہن کامعاملہ سفر کے ساتھ خاص ہے۔ حدیث سےواضح ہوگیا کہ حضر میں بھی گروی رکھنا جائز ہے۔
(3) غیر مسلموں سےلین دین کرنا جائز ہے۔ یہ ان سے دلی دوستی نہ رکھنے کےمنافی نہیں۔
(4) رسول اللہ ﷺ کےپاس غنائم وغیرہ کا جومال آتا تھا اس کا پانچواں حصہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی ضرورت پرخرچ کرنے کی اجازت تھی تاہم رسول اللہ یہ بھی عام مسلمانوں کی ضروریات میں خرچ فرما دیتےتھے اس لیے رہن شدہ زرہ واپس لینے کی طرف توجہ نہیں ہوئی۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2439