ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہن روکا نہیں جا سکتا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: زمانہ جاہلیت سے یہ دستور چلا آ رہا تھا کہ راہن اگر وقت مقررہ پر قرض کی ادائیگی سے قاصر رہا، تو اس کا گروی مال ڈوب جاتا تھا، اسلام نے اس ظالمانہ نظام کی تردید کی، اور اسے مرتہن کے پاس امانت قرار دے کر راہن کی ملکیت میں برقرار رکھا، اور راہن کو حکم دیا کہ قرض کی ادائیگی کے لئے بھر پور کوشش کرے، کوشش کے باوجود اگر وہ قرض ادا نہ کر سکے تو مرہون (رہن میں رکھی چیز کو) بیچ کر قرض پورا کرنے اور بقیہ مال راہن کو لوٹا دینے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13113، ومصباح الزجاجة: 859)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 10 (13) (ضعیف)» (سند میں محمد بن حمید الرازی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 5/ 242 و 1408)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن الدارقطني (3/ 32 ح 2897) وقال: ”وھذا إسناد حسن متصل“ الزھري عنعن فالسند غير متصل انوار الصحيفه، صفحه نمبر 467
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2441
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: زمانہ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر مقروض مقررہ وقت پر قرض ادا نہ کرتا تو رہن رکھی ہوئی چیز قرض خواہ کی ملکیت بن جاتی تھی اوربعد میں وہ قرض ادا کرنے کے باوجود اس چیز کو حاصل نہیں کرسکتا تھا حالانکہ مقررہ وقت کے بعد بھی قرض ادا کردیا گیا تورہن رکھی گئی چیز کو واپس نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2441