ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے تم میں کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، تو جس کے لیے میں اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی ٹکڑا کاٹوں تو گویا میں اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15095، ومصباح الزجاجة: 814)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/332، 6/307) (حسن صحیح)»
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو کسی ایسی چیز پر دعویٰ کرے جو اس کی نہیں ہے، تو وہ ہم میں سے نہیں، اور اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لینا چاہیئے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11933)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المناقب 5 (3508)، صحیح مسلم/الإیمان 27 (61)، مسند احمد (5/166) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی جھگڑے میں کسی کی ناحق مدد کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض رہے گا یہاں تک کہ وہ (اس سے) باز آ جائے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأقضیة 14 (3598)، (تحفة الأشراف: 8445) (صحیح)» (سند میں مطر الوارق ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث متابعات کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 7/ 350 و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 437، 1021)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کام سے توبہ کر لے اور اس کو چھوڑ دے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کے مطابق دے دیا جائے، تو لوگ دوسروں کی جان اور مال کا (ناحق) دعویٰ کر بیٹھیں گے، لیکن مدعیٰ علیہ کو قسم کھانا چاہیئے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جب مدعی کے پاس گواہ نہ ہو اور مدعی علیہ قسم کھا لے تو وہ دعویٰ سے بری ہو گیا، اگر مدعی علیہ قسم اٹھانے پر تیار نہ ہو تو وہ دعویٰ کے مطابق مدعی کا حق ادا کرے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا وكيع ، وابو معاوية ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن الاشعث بن قيس ، قال: كان بيني وبين رجل من اليهود ارض فجحدني فقدمته إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل لك بينة؟ قلت: لا، قال لليهودي:" احلف"، قلت: إذا يحلف فيه فيذهب بمالي، فانزل الله سبحانه إن الذين يشترون بعهد الله وايمانهم ثمنا قليلا سورة آل عمران آية 77 إلى آخر الآية". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ لَكَ بَيِّنَةٌ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ لِلْيَهُودِيِّ:" احْلِفْ"، قُلْتُ: إِذًا يَحْلِفَ فِيهِ فَيَذْهَبَ بِمَالِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ".
اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین مشترک تھی، اس نے میرے حصہ کا انکار کر دیا، تو میں اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس گواہ ہیں“؟ میں نے عرض کیا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے کہا: ”تم قسم کھاؤ“، میں نے عرض کیا: تب تو وہ قسم کھا لے گا اور میرا مال ہڑپ کر جائے گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا»(سورة آل عمران: 77)”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑا مال لیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے بات تک نہیں کرے گا، نہ قیامت کے دن ان پر رحمت کی نگاہ ڈالے گا، نہ گناہوں سے ان کو پاک کرے گا، اور ان کو نہایت درد ناک عذاب ہوتا رہے گا“۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی چیز کے لیے قسم کھائے اور وہ اس قسم میں جھوٹا ہو، اور اس کے ذریعہ وہ کسی مسلمان کا مال ہڑپ کر لے، تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا“۔
ابوامامہ حارثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو شخص بھی قسم کے ذریعہ کسی مسلمان آدمی کا حق مارے گا، تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دے گا، اور جہنم کو اس کے لیے واجب کر دے گا، لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! اگرچہ وہ معمولی چیز ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، خواہ وہ پیلو کی ایک مسواک ہی ہو“۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میرے اس منبر کے پاس جھوٹی قسم کھائے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے، خواہ وہ ایک ہری مسواک ہی کے لیے ہو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأیمان 3 (2346)، (تحفة الأشراف: 2376)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 8 (10)، مسند احمد (3/344) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھوٹی قسم متبرک مقام میں کھانا اور زیادہ سخت گناہ ہے، اگرچہ ہر جگہ جھوٹی قسم کھانا خود ایک سخت گناہ ہے،بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ مدعی کو اختیار ہے جہاں پر چاہے اور جن الفاظ سے چاہے مدعی علیہ سے قسم لے سکتا ہے، اور بعضوں نے کہا: صرف عدالت میں قسم ہے وہ بھی اللہ تعالی کے نام کی قسم کھانا کافی ہے، اس سے زیادہ کے لئے مدعی جبر نہیں کر سکتا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس منبر کے پاس کوئی غلام یا لونڈی جھوٹی قسم نہیں کھاتا، اگرچہ وہ قسم ایک تازہ مسواک ہی کے لیے ہو، مگر جہنم کی آگ اس پر واجب ہو جاتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14949، ومصباح الزجاجة: 815)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/518) (صحیح)»
براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی عالم کو بلایا، اور فرمایا: ”میں تم کو اس ذات کی قسم دلاتا ہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات اتاری“۱؎۔