عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کے مطابق دے دیا جائے، تو لوگ دوسروں کی جان اور مال کا (ناحق) دعویٰ کر بیٹھیں گے، لیکن مدعیٰ علیہ کو قسم کھانا چاہیئے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جب مدعی کے پاس گواہ نہ ہو اور مدعی علیہ قسم کھا لے تو وہ دعویٰ سے بری ہو گیا، اگر مدعی علیہ قسم اٹھانے پر تیار نہ ہو تو وہ دعویٰ کے مطابق مدعی کا حق ادا کرے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2321
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ گواہی پر ہوتا ہے۔ اس میں گواہ کا قابل اعتماد ہونا ضروری ہے اس لیے خرید وفروخت کے موقع پر گواہ بنا لینا ضروری ہے خاص طور پر جب کہ سودا قیمتی ہو یا ادھار کی رقم اتنی زیادہ ہو جس کےادا ہونے یا نہ ہونے کےبارے میں جھگڑا ہونے کا امکان ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاستَشهِدوا شَهيدَينِ مِن رِجالِكُم ۖ فَإِن لَم يَكونا رَجُلَينِ فَرَجُلٌ وَامرَأَتانِ مِمَّن تَرضَونَ مِنَ الشُّهَداءِ﴾(البقرہ 2: 282) ”اور اپنے مردوں میں سے دو مرد گواہ مقرر کر لو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کیاکرو۔
(2) جب کسی مقدمے میں مدعی گواہ پیش نہ کر سکے تو مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی اور وہ اللہ کی قسم کھا کر اپنے موقف کے برحق ہونے کی گواہی دے گا۔
(3) مدعی کی قسم پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے گواہ پیش کرنا ہی ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2321
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1210
´دعویٰ اور دلائل کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اگر لوگوں کو محض ان کے دعوے کرنے سے حق دے دیا جائے تو لوگ دوسرے لوگوں کے خون اور ان کے اموال کا دعویٰ کریں گے لیکن مدعا علیہ کے ذمہ قسم لازم ہے۔“(بخاری و مسلم) اور بیہقی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ گواہی (یا دلیل) مدعی کے ذمہ اور قسم اس کے ذمہ جو اس کا انکار کرے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1210»
تخریج: «أخرجه البخاري، التفسير، باب: ﴿إن الذين يشترون بعهد الله وأيما نهم ثمنًا قليلًا...﴾ ، حديث:4552، ومسلم، الأقضية، باب اليمين علي المدعي عليه، حديث:1711، وحديث البيهقي:8 /123، في سنده مسلم بن خالد الزنجي، وللحديث شواهدفهو حسن.»
تشریح: اس حدیث میں قضا کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے کہ مدعی اپنا دعویٰ دلائل سے ثابت کرے اور دو گواہ پیش کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو پھر مدعا علیہ قسم دے گا۔ جمہور کا یہی مذہب ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1210
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4470
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کا دعویٰ قبول کر لیا جائے تو بہت سے لوگ دوسرے لوگوں کے خونوں اور مالوں کے خلاف دعویٰ کر بیٹھیں گے، لیکن مدعی علیہ کو قسم اٹھانا ہو گی۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4470]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان کا قول صرف اس کے دعویٰ کی بنیاد پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے وہ اپنے دعویٰ پر دلیل یعنی گواہ پیش کرے یا مدعی علیہ اس کے دعویٰ کو تسلیم کرے، کیونکہ اگر محض کسی کے دعویٰ کرنے پر اس کا مطالبہ مان لیا جائے اور اس کا حق تسلیم کر لیا جائے تو بہت سے لوگ، دوسروں کی جان اور مال کے خلاف دعویٰ کرنا شروع کر دیں گے اور لوگوں کی جان و مال غیر محفوظ ہو جائے گی، جبکہ مدعی کے پاس جان و مال کی حفاظت کے لیے، شہادت کا ذریعہ موجود ہے۔ اليمين علي المدعي عليه: سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ دعویٰ کی صورت میں اگر مدعی، شہادت نہ پیش کر سکے تو مدعی علیہ کو ہر حالت میں قسم اٹھانا ہو گی، جبکہ امام مالک کا موقف یہ ہے کہ مدعی علیہ پر قسم اس صورت میں لازم ہو گی، جب اس کا مدعی (دعویٰ کرنے والا) کے ساتھ اختلاط اور میل ملاپ ہے، وگرنہ اوباش لوگ، شرفاء کو تنگ کرنے کے لیے، ان کے خلاف دعویٰ کریں گے اور ان کو بار بار بلاوجہ قسم اٹھانا ہو گی، گویا دعویٰ کی صحت کے لیے یہ شرط ہے کہ مدعی اور مدعی علیہ میں کسی قسم کا ربط و تعلق ہو تاکہ اس کو مدعی مانا جا سکے، اگر دعویٰ کی صحت کا قرینہ موجود نہیں ہے تو وہ مدعی کیسے بن سکے گا کہ مدعی علیہ پر قسم پڑے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4470
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4552
4552. حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ دو عورتیں کسی گھر یا حجرے میں موزے سیا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک عورت باہر نکلی تو اس کے ہاتھ میں موزے سینے والا سوآ چبھا ہوا تھا۔ اس نے دوسری عورت پر الزام لگایا۔ مقدمہ حضرت ابن عباس ؓ کے ہاں پیش ہوا تو آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”اگر صرف دعویٰ کی بنیاد پر لوگوں کے مطالبات تسلیم کیے جانے لگیں تو بہت لوگوں کا خون اور مال برباد ہو جائے۔“ اس عورت کو اللہ کی یاد دلاؤ اور اس کے سامنے یہ آیت پڑھو: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ۔۔۔﴾ چنانچہ لوگوں نے اسے وعظ و نصیحت کی تو اس نے (اپنے جرم کا) اعتراف کر لیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”قسم مدعا علیہ پر ہوتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4552]
حدیث حاشیہ: 1۔ معاملات میں قانون یہ ہے کہ دعویٰ کرنے والا گواہ پیش کرتاہے اور اگروہ گواہ پیش نہ کرسکے تو جس کے خلاف دعویٰ ہو وہ قسم دے کر اس الزام سے بری ہوسکتا ہے۔ بعض خاص حالات میں مدعی سے بھی قسم لے کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ قسامہ میں ہوتا ہے۔ 2۔ قاعدہ یہ ہے کہ کسی آیت کی خاص شانِ نزول سے قطع نظر آیت کے عمومی معنی پر عمل کیا جاتا ہے چنانچہ اسی قاعدے پر عمل کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ نے اس عورت کے سامنے مذکورہ بالا آیت کی تلاوت کا حکم دیا۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: اس حدیث میں اسی قاعدے کی طرف اشارہ ہے اور جس سے قسم لینا مقصود ہو اس آیت کو بنیاد بنا کر اسے وعظ ونصیحت کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 269/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4552