عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی جھگڑے میں کسی کی ناحق مدد کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض رہے گا یہاں تک کہ وہ (اس سے) باز آ جائے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کام سے توبہ کر لے اور اس کو چھوڑ دے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأقضیة 14 (3598)، (تحفة الأشراف: 8445) (صحیح)» (سند میں مطر الوارق ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث متابعات کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 7/ 350 و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 437، 1021)
من حالت شفاعته دون حد من حدود الله فقد ضاد الله من خاصم في باطل وهو يعلمه لم يزل في سخط الله حتى ينزع عنه من قال في مؤمن ما ليس فيه أسكنه الله ردغة الخبال حتى يخرج مما قال
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2320
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) لوگوں کےآپس کےاختلافات میں ہر شخص کو چاہیے کہ اس شخص کی حمایت کرے جس کا موقف درست ہو اور جو غلطی پر ہو اسے سمجھائے اور منع کرے۔
(2) ظالم کی حمایت اور مدد کرنا بڑا گناہ ہے۔
(3) حق کی حمایت میں دوستی یا رشتے داری کے تعلقات کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے: ﴿يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا كونوا قَوّامينَ بِالقِسطِ شُهَداءَ لِلَّـهِ وَلَو عَلىٰ أَنفُسِكُم أَوِ الوالِدَينِ وَالأَقرَبينَ ۚ إِن يَكُن غَنِيًّا أَو فَقيرًا فَاللَّـهُ أَولىٰ بِهِما ۖ فَلا تَتَّبِعُوا الهَوىٰ أَن تَعدِلوا ۚ وَإِن تَلووا أَو تُعرِضوا فَإِنَّ اللَّـهَ كانَ بِما تَعمَلونَ خَبيرًا ﴾(النساء 4: 135) ”اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی موﻻ کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وه خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے، وه شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیاده تعلق ہے، اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2320
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3597
´جھگڑے میں حقیقت جاننے سے پہلے کسی ایک فریق کی مدد کرنا بڑا گناہ ہے۔` یحییٰ بن راشد کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے انتظار میں بیٹھے تھے، وہ ہمارے پاس آ کر بیٹھے پھر کہنے لگے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جس نے اللہ کے حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی، اور جو جانتے ہوئے کسی باطل امر کے لیے جھگڑے تو وہ برابر اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کہ اس جھگڑے سے دستبردار ہو جائے، اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں تھی تو اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنائے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3597]
فوائد ومسائل: فائدہ: اس کا مطلب یہ بھی ہےکہ جب مقدمہ قاضی تک پہنچ جائے تو پھر تنفیذ حدود میں رکاوٹ بننا یا سفارش کرنا حرام ہے۔ اور اسی طرح جاہلی عصبیت کا شکار ہوجانا یا مسلمانوں پر تہمت لگانا بہت بڑے اور بُراے جرائم ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3597
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2414
´قرض کی شناعت اور اس پر وعید کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مر جائے اور اس کے ذمہ کسی کا کوئی دینار یا درہم ہو تو (قیامت میں) جہاں دینار اور درہم نہیں ہو گا، اس کی نیکیوں سے ادا کیا جائے گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2414]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر وارث قرض ادا نہ کریں تومیت پر اس کےذمے داری باقی رہتی ہے جس کی وجہ سے اسے قیامت کےدن مشکل پیش آئے گی۔
(2) حقوق العباد کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
(3) نیکیوں سے ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ جس قدر قرض ہوگا اس کے مطابق مقروض کی نیکیاں قرض خواہ کو دے دی جائیں گی اگر مقروض کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں یا اس کےقرض سےکم ہوئیں توقرض خواہ کےاس قدر گناہ مقروض کےسرڈال دیے جائیں گے۔
(4) نیکیاں کر لینے کےبعد ان کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے اورایسے اعمال سے پرہیز کرنا چاہیے جن سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں، مثلاً: ظلم، حسد، کسی کےساتھ نیکی کرکےاسے احسان جتلانا وغیرہ۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2414