عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نذر مانی، اور اس کی تعیین نہ کی تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9923)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/النذر 5 (1645)، سنن ابی داود/الأیمان 31 (3323)، سنن الترمذی/الأیمان 4 (1528)، سنن النسائی/الأیمان 40 (3863)، مسند احمد (4/144، 146، 147) (صحیح) دون قولہ ''اذا لم یسمّہ'' من غیر ھذا السند وأما ھذا السند فضعیف لأجل إسماعیل بن رافع (ملاحظہ ہو: إلارواء: 2586)»
It was narrated from 'Uqbah bin 'Amit Al-Juhani that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
"Whoever makes a vow and does not state it specifically, the expiation (for such a vow) is the expiation for breaking an oath. "
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نذر مانی اور اس کی تعیین نہ کی، تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے، اور جس نے ایسی نذر مانی جس کے پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے، اور جس نے ایسی نذر مانی جس کے پورا کرنے کی طاقت ہو تو اس کو پورا کرے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأیمان والنذور 30 (3322)، (تحفة الأشراف: 6341) (ضعیف جدا)» (سند میں خارجہ بن مصعب متروک راوی ہے جو کذابین سے تدلیس کرتا تھا، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 8/ 211)
lt was narrated from Ibn 'Abbas that the Prophet (ﷺ) said:
"Whoever makes a vow and does not state it specifically, the expiation (for such a vow) is the expiation for breaking an oath. Whoever makes a vow and is not able to fulfill it, the expiation for that is the expiation for breaking an oath. Whoever makes a vow and is able to fulfill it, let him do so."
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی، پھر اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی نذر پوری کرنے کا حکم دیا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کافر یا مشرک حالت شرک و کفر میں کسی نیک کام کی نذر مانے جیسے اعتکاف یا صدقہ وغیرہ اور پھر اس کے بعد اسلام لے آئے تو اس نذر کا پورا کرنا واجب ہے۔
It was narrated that 'Umar bin Khattab said:
"I made a vow during the Ignorance period and I asked the Prophet (ﷺ) (about it) after I became Muslim. He told me to fulfill my vow."
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے مقام بوانہ میں قربانی کرنے کی نذر مانی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے دل میں جاہلیت کا کوئی اعتقاد باقی ہے“؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی مکہ کے نشیب میں یا ینبوع کے پیچھے ایک جگہ ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بت یا قبر جس کی لوگ پوجا کریں، اس پر ذبح کرنا جائز نہیں، اور جو جانور اولیاء اللہ کی قبروں پر ذبح کئے جاتے ہیں اور انہی کے نام پر پالے جاتے ہیں ان کا کھانا حرام ہے، اگرچہ ذبح کے وقت اللہ تعالی کا نام لیا جائے، کیونکہ مقصود ان کے ذبح کرنے سے غیر اللہ کی تعظیم ہے، تو وہ «وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ»(سورة البقرة: 173) میں سے ہوا۔
It was narrated from Ibn Abbas that a man came to the Prophet (ﷺ) and said:
"O Messenger of Allah, I vowed to offer a sacrifice at Buwanah." He said: "Do you intend any action of Ignorance period?" He said: "No." He said: "Then fulfill your vow."
میمونہ بنت کردم یساریہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، وہ اس وقت اپنے والد کے پیچھے ایک اونٹ پر بیٹھی تھیں، والد نے کہا: میں نے مقام بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہاں کوئی بت ہے“؟ کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18092، ومصباح الزجاجة: 751)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأیمان 27 (3314)، مسند احمد (6/366) (صحیح)»
It was narrated from Maimunah bint Kardam Al-Yasariyyah that :
her father met the Prophet (ﷺ) when she was riding behind him. He said: "I vowed to offer a sacrifice at Buwanah." The Messenger of Allah (ﷺ) said: "Is there any idol there?" He said: "No." He said: " Fulfill your vow." (Hasan)Another chain with similar wording.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف لانقطاعه وقال البوصيري: ”أنه منقطع،يزيد بن مقسم لم يسمع من ميمونة بنت كردم“ و له شاهد ضعيف عند أبي داود (3314) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 455
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کے ذمہ ایک نذر تھی وہ مر گئیں، اور اس کو ادا نہ کر سکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کی جانب سے اسے پوری کر دو“۔
It was narrated from Ibn 'Abbas' that :
Sa'd bin 'Ubadah asked the Messenger of Allah (ﷺ) about a vow which his mother had made, but she had died without fulfilling it. The Messenger of Allah (ﷺ) said: "Fulfill it on her behalf ."
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے کہا: میری ماں کا انتقال ہو گیا، اور ان کے ذمہ روزوں کی نذر تھی، اور وہ اس کی ادائیگی سے پہلے وفات پا گئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا ولی ان کی جانب سے روزے رکھے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2554) (صحیح)» (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 2077)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ ہو یا نماز اس کا ولی رکھ سکتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک عورت کو جس کی ماں نے قبا میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی اور وہ مر گئی تھی، حکم دیا کہ تم اس کی طرف سے پڑھ لو۔
It was narrated from Jabir bin 'Abdullsh that :
a woman came to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: "My mother has died, and she had made a vow to fast, but she died before she could fulfill it. The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Let her guardian fast on her behalf ."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن لھيعة ضعيف مدلس وحديث ”من مات وعليه صيام صام عنه وليه“ (البخاري:1952،مسلم: 1147) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 455
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی بہن نے نذر مانی کہ ننگے پاؤں، ننگے سر اور پیدل چل کر حج کے لیے جائیں گی، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے حکم دو کہ سوار ہو جائے، دوپٹہ اوڑھ لے، اور تین دن کے روزے رکھے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأیمان 23 (3293، 3294)، سنن الترمذی/الأیمان 16 (1544)، سنن النسائی/الأیمان 32 (3846)، (تحفة الأشراف: 9930)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/143، 4/ 145، 149، 151)، سنن الدارمی/النذور 2 (2379) (ضعیف)» (سند میں عبید اللہ بن زحر ضعیف راوی ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی قسم کو توڑ دے، اور بطور کفارہ تین دن کے روزے رکھے۔
It was narrated from Abu Sa'eed Ar-Ru'aini that 'Abdullah bin Malik told him, that :
'Uqbah bin 'Amir told him, that his sister vowed to walk, barefoot and bareheaded, and he mentioned that to the Messenger of Allah (ﷺ) He said: "Order her to ride and to cover her head, and to fast for three days."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3293) ترمذي (1544) نسائي (3846) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 455
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے کو دیکھا کہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان چل رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اس کا کیا معاملہ ہے“؟ اس کے بیٹوں نے کہا: اس نے نذر مانی ہے، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بوڑھے سوار ہو جاؤ، اللہ تم سے اور تمہاری نذر سے بے نیاز ہے“۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
"The Prophet (ﷺ) saw an old man walking between his two sons, and he said: What is the matter with him?' His sons said: 'A vow, O Messenger of Allah.' He said: 'Let this old man ride, for Allah has no need of you or your vow."'