(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبدة بن سليمان ، عن عبد العزيز بن عمر ، عن الربيع بن سبرة ، عن ابيه ، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، فقالوا: يا رسول الله، إن العزبة قد اشتدت علينا، قال: فاستمتعوا من هذه النساء فاتيناهن فابين ان ينكحننا، إلا ان نجعل بيننا وبينهن اجلا، فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال:" اجعلوا بينكم وبينهن اجلا"، فخرجت انا وابن عم لي معه برد ومعي برد وبرده اجود من بردي، وانا اشب منه، فاتينا على امراة، فقالت: برد كبرد، فتزوجتها فمكثت عندها تلك الليلة، ثم غدوت ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم بين الركن والباب، وهو يقول:" ايها الناس، إني قد كنت اذنت لكم في الاستمتاع الا، وإن الله قد حرمها إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهن شيء، فليخل سبيلها ولا تاخذوا مما آتيتموهن شيئا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْعُزْبَةَ قَدِ اشْتَدَّتْ عَلَيْنَا، قَالَ: فَاسْتَمْتِعُوا مِنْ هَذِهِ النِّسَاءِ فَأَتَيْنَاهُنَّ فَأَبَيْنَ أَنْ يَنْكِحْنَنَا، إِلَّا أَنْ نَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُنَّ أَجَلًا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" اجْعَلُوا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُنَّ أَجَلًا"، فَخَرَجْتُ أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي مَعَهُ بُرْدٌ وَمَعِي بُرْدٌ وَبُرْدُهُ أَجْوَدُ مِنْ بُرْدِي، وَأَنَا أَشَبُّ مِنْهُ، فَأَتَيْنَا عَلَى امْرَأَةٍ، فَقَالَتْ: بُرْدٌ كَبُرْدٍ، فَتَزَوَّجْتُهَا فَمَكَثْتُ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ غَدَوْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْبَابِ، وَهُوَ يَقُولُ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ أَلَا، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُنَّ شَيْءٌ، فَلْيُخْلِ سَبِيلَهَا وَلَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا".
سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلے، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! عورت کے بغیر رہنا ہمیں گراں گزر رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان عورتوں سے متعہ کر لو“، ہم ان عورتوں کے پاس گئے وہ نہیں مانیں، اور کہنے لگیں کہ ہم سے ایک معین مدت تک کے لیے نکاح کرو، لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اور ان کے درمیان ایک مدت مقرر کر لو“ چنانچہ میں اور میرا ایک چچا زاد بھائی دونوں چلے، اس کے پاس ایک چادر تھی، اور میرے پاس بھی ایک چادر تھی، لیکن اس کی چادر میری چادر سے اچھی تھی، اور میں اس کی نسبت زیادہ جوان تھا، پھر ہم دونوں ایک عورت کے پاس آئے تو اس نے کہا: چادر تو چادر کی ہی طرح ہے (پھر وہ میری طرف مائل ہو گئی) چنانچہ میں نے اس سے نکاح (متعہ) کر لیا، اور اس رات اسی کے پاس رہا، صبح کو میں آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکن (حجر اسود) اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے فرما رہے تھے: ”اے لوگو! میں نے تم کو متعہ کی اجازت دی تھی لیکن سن لو! اللہ نے اس کو قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا ہے، اب جس کے پاس متعہ والی عورتوں میں سے کوئی عورت ہو تو اس کو چھوڑ دے، اور جو کچھ اس کو دے چکا ہے اسے واپس نہ لے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 3 (1406)، سنن ابی داود/النکاح 14 (2072)، سنن النسائی/النکاح 71 (3370)، (تحفة الأشراف: 3809)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/404، 405)، سنن الدارمی/النکاح 16 (2242) (صحیح)» (حجة الوداع کا لفظ صحیح نہیں ہے، صحیح یوم الفتح ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے)
It was narrated from Rabi'bin Sabrah that his father said :
"We went out with the Messenger of Allah on the Farewell pilgrimage, and they said : 'O Messenger of Allah, (ﷺ) celibacy has become too difficult for us'. He said : 'Then make temporary marriages with these women'. So we went to them, but they insisted on setting a fixed time between us and them. They mentioned that to the Prophet and he said : 'Set a fixed time between you and them.' So I went out with a cousin of mine. He had a cloak and I had a cloak, but his cloak was finer than mine, and I was younger than him. We came to a women and she said: 'One cloak is like another.' So I married her and stayed with her that night. Then the next day I saw the Messenger of Allah standing between the Rukn (corner) and the door (of the Ka'bah), saying : 'O people, I had permitted temporary marriage for you, but Allah has forbidden it until the Day of Resurrection. however had any temporary wives, he should let them go, and do not take back anything that you had given to them.' "
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله حجة الوداع والصواب يوم الفتح
(مرفوع) حدثنا محمد بن خلف العسقلاني ، حدثنا الفريابي ، عن ابان بن ابي حازم ، عن ابي بكر بن حفص ، عن ابن عمر ، قال: لما ولي عمر بن الخطاب خطب الناس، فقال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اذن لنا في المتعة ثلاثا، ثم حرمها، والله لا اعلم احدا تمتع وهو محصن إلا رجمته بالحجارة، إلا ان ياتيني باربعة يشهدون ان رسول الله احلها بعد إذ حرمها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: لَمَّا وَلِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لَنَا فِي الْمُتْعَةِ ثَلَاثًا، ثُمَّ حَرَّمَهَا، وَاللَّهِ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا تَمَتَّعَ وَهُوَ مُحْصَنٌ إِلَّا رَجَمْتُهُ بِالْحِجَارَةِ، إِلَّا أَنْ يَأْتِيَنِي بِأَرْبَعَةٍ يَشْهَدُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ أَحَلَّهَا بَعْدَ إِذْ حَرَّمَهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، تو انہوں نے خطبہ دیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو تین بار متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام قرار دیا، قسم ہے اللہ کی اگر میں کسی کے بارے میں جانوں گا کہ وہ شادی شدہ ہوتے ہوئے متعہ کرتا ہے تو میں اسے پتھروں سے رجم کر دوں گا، مگر یہ کہ وہ چار گواہ لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دینے کے بعد حلال کیا تھا۔
It was narrated that Ibn 'Umar said:
"When 'Umar bin Khattab was appointed caliph, he addressed the people and said: 'The Messenger of Allah permitted temporary marriage for us three times, then he forbade it. By Allah, If I hear of any married person entering a temporary marriage, I will stone him to death, unless he can bring me four witnesses who will testify that the Messenger of Allah, allowed it after he forbade it'."
ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی، اور آپ اس وقت حلال تھے۔ یزید بن اصم کہتے ہیں کہ میمونہ رضی اللہ عنہا میری بھی خالہ تھیں، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بھی۔
Maimunah bint Harith narrated:
that the Messenger of Allah married her when he was Halal (not in Ihram). (Sahih).He (one of the narrators-Yazid) said: "And she was my maternal aunt and the maternal aunt of Idn 'Abbas also."
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (میمونہ رضی اللہ عنہا سے) حالت احرام میں نکاح کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید 12 (1837)، المغازي 43 (4258)، النکاح 30 (5114)، صحیح مسلم/النکاح 5 (1410)، سنن ابی داود/الحج 39 (1844)، سنن الترمذی/الحج 24 (843)، سنن النسائی/الحج 90 (2843)، النکاح 37 (3273)، (تحفة الأشراف: 5376)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/22، 245، 266، 270، 283، 285، 286، 324، 330، 333، 336، 346، 351، 354، 360، 361)، سنن الدارمی/المناسک 21 (1863) (صحیح)» (لیکن یہ شاذ ہے، اس لیے کہ اوپر کی میمونہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ یہ شادی احرام سے باہر حلت کے ایام میں ہوئی تھی، اور یہ صاحب معاملہ کا بیان ہے، تو ان کی بات زیادہ لائق اعتماد ہے، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے علم کی بناء پر ایسا کہا تھا، جو خلاف واقعہ بات ہے)
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کی سابقہ حدیث کی معارض ہے، اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہم ہوا ہے کیونکہ یہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایت کی مخالف ہے، فرد واحد کی طرف وہم کی نسبت جماعت کی طرف وہم کی نسبت سے زیادہ قریب ہے، خود صاحب قصہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کا اور ان کے وکیل ابورافع رضی اللہ عنہ جو ان کے اور نبی اکرمﷺ کے درمیان سفارت کے فرائض انجام دے رہے تھے کا بیان اس کے خلاف ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول: «وهو محرم» کی ایک تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نبی اکرم ﷺ حدود حرم میں تھے، اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ نبی اکرم ﷺ نے احرام کی حالت میں ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، تو پھر اسے آپ کی خصوصیت پر محمول کیا جائے گا، عثمان رضی اللہ عنہ کی آگے آنے والی حدیث میں ایک کلی قانون کا بیان ہے، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول حدیث میں نبی اکرم ﷺ کے فعل کی حکایت ہے جس میں بہت سارے احتمالات موجود ہیں۔
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرم نہ تو اپنا نکاح کرے، اور نہ دوسرے کا نکاح کرائے، اور نہ ہی شادی کا پیغام دے“۔
It was narrated from Aban bin 'Uthman bin 'Affan' that his father said:
"The Messenger of Allah said: 'The one in lhram should not get married, nor arrange a marriage for anyone else, nor Propose marriage''
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کر دو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیلے گا اور بڑی خرابی ہو گی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/النکاح 3 (1084)، (تحفة الأشراف: 15485) (حسن)» (سند میں عبد الحمید ضعیف راوی ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1868، لیکن متابعت کی وجہ سے حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ «کفو» کا اعتبار صرف دین اور اخلاق میں کیا جائے گا، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ چار چیزوں (دین، نسب آزادی اور پیشہ و صنعت میں) معتبر ہے، لیکن پہلا قول راجح ہے،اور اس کے قابل ترجیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
It was narrated from Abu Hurairah:
that the Messenger of Allah said: "If there comes to you one with whose character and religious commitment you are pleased, then marry (your daughter or female relative under your care) to him, for if you do not do that there will be Fitnah in the land and widespread corruption.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1084) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 449
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے نطفوں کے لیے نیک عورت کا انتخاب کرو، اور اپنے برابر والوں سے نکاح کرو، اور انہیں کو اپنی بیٹیوں کے نکاح کا پیغام دو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16784، ومصباح الزجاجة: 696) (حسن)» (سند میں الحارث الجعفری ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 1067)
وضاحت: ۱؎: «اکفاء» «کفو» کی جمع ہے، کاف کے ضمہ اور خاء کے سکون کے ساتھ اس کے معنی مثل، نظیر اور ہمسر کے ہیں۔
It was narrated from 'Aishah:
that the Messenger of Allah said: "Choose the best for your sperm, and marry compatible women and propose marriage to them."'
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدا منكر انوار الصحيفه، صفحه نمبر 449
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف مائل رہے، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہو گا“۔
It was narrated from Abu Hurairah:
that the Messenger of Allah said: "Whoever has two wives and favors one of them over the other, he will come on the Day of Resurrection with one of his sides leaning."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2133) ترمذي (1141) نسائي (3394) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 449
وضاحت: ۱؎: جس عورت کا نام قرعہ میں نکلتا اس کو سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے، باقی عورتوں کو مدینہ میں چھوڑ جاتے اور یہ آپ ﷺ کا کمال انصاف تھا، ورنہ علماء نے کہا ہے کہ آپ ﷺ پر بیویوں کے درمیان تقسیم ایام واجب نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دے دیا تھا کہ جس عورت کے پاس چاہیں رہیں: «تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء»(سورة الأحزاب: 51)”ان میں سے جسے چاہیں دور رکھیں اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لیں“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان باری مقرر کرتے، اور باری میں انصاف کرتے، پھر فرماتے تھے: ”اے اللہ! یہ میرا کام ہے جس کا میں مالک ہوں، لہٰذا تو مجھے اس معاملہ (محبت کے معاملہ) میں ملامت نہ کر جس کا تو مالک ہے، اور میں مالک نہیں ہوں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 39 (2134)، سنن الترمذی/النکاح 41 (1140)، سنن النسائی/عشرة النکاح 2 (3395)، (تحفة الأشراف: 16290)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/144)، سنن الدارمی/النکاح 25 (2253) (ضعیف)» (لیکن رسول اکرم ﷺ کا بیویوں کے درمیان ایام کی تقسیم ثابت ہے، تراجع الألبانی: رقم: 346)
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم ﷺ کے اسوہ کے مطابق مرد کا اختیار جہاں تک ہے، وہاں تک بیویوں کے درمیان عدل کرے، ہر ایک عورت کے پاس باری باری رہنا یہ اختیاری معاملہ ہے جو ہو سکتا ہے، لیکن دل کی محبت اور جماع کی خواہش یہ اختیاری نہیں ہے، کسی عورت سے رغبت ہوتی ہے، کسی سے نہیں ہوتی، تو اس میں برابری کرنا یہ مرد سے نہیں ہو سکتا، بس اللہ تعالی اس کو معاف کر دے گا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ عورت کو اختیار ہے کہ اپنی باری کسی دوسری عورت کو ہبہ کر دے جیسے اس کا ذکر آگے آتا ہے، یا اپنی باری شوہر کو معاف کر دے۔
It was narrated that 'Aishah said:
"The Messenger of Allah used to divide his time equally among his wives, then he would say 'O Allah, this is what I am doing with regard to that which is within my control, so do not hold me accountable for that which is under Your control and is beyond my control.'"