Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
45. بَابُ : الْمُحْرِمِ يَتَزَوَّجُ
باب: حالت احرام میں نکاح کا حکم۔
حدیث نمبر: 1965
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيِّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ :" أَنِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكَحَ وَهُوَ مُحْرِمٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (میمونہ رضی اللہ عنہا سے) حالت احرام میں نکاح کیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/جزاء الصید 12 (1837)، المغازي 43 (4258)، النکاح 30 (5114)، صحیح مسلم/النکاح 5 (1410)، سنن ابی داود/الحج 39 (1844)، سنن الترمذی/الحج 24 (843)، سنن النسائی/الحج 90 (2843)، النکاح 37 (3273)، (تحفة الأشراف: 5376)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/22، 245، 266، 270، 283، 285، 286، 324، 330، 333، 336، 346، 351، 354، 360، 361)، سنن الدارمی/المناسک 21 (1863) (صحیح)» ‏‏‏‏ (لیکن یہ شاذ ہے، اس لیے کہ اوپر کی میمونہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ یہ شادی احرام سے باہر حلت کے ایام میں ہوئی تھی، اور یہ صاحب معاملہ کا بیان ہے، تو ان کی بات زیادہ لائق اعتماد ہے، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے علم کی بناء پر ایسا کہا تھا، جو خلاف واقعہ بات ہے)

وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کی سابقہ حدیث کی معارض ہے، اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہم ہوا ہے کیونکہ یہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایت کی مخالف ہے، فرد واحد کی طرف وہم کی نسبت جماعت کی طرف وہم کی نسبت سے زیادہ قریب ہے، خود صاحب قصہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کا اور ان کے وکیل ابورافع رضی اللہ عنہ جو ان کے اور نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان سفارت کے فرائض انجام دے رہے تھے کا بیان اس کے خلاف ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول: «وهو محرم» کی ایک تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدود حرم میں تھے، اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، تو پھر اسے آپ کی خصوصیت پر محمول کیا جائے گا، عثمان رضی اللہ عنہ کی آگے آنے والی حدیث میں ایک کلی قانون کا بیان ہے، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی حکایت ہے جس میں بہت سارے احتمالات موجود ہیں۔

قال الشيخ الألباني: شاذ

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1965 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1965  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو شاذ قرار دیا ہے، یعنی صحیح بات یہ ہےکہ نبی ﷺ نکاح کے وقت احرام کی حالت میں نہیں تھے۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: (إرواء الغلیل: 4: 227، 228، رقم: 1037)
علاوہ ازیں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا خود بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سےمقام سرف میں نکاح کیا تھا اور ہم دونوں حلال تھا۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 1411، وسنن أبي داؤد، المناسک، حدیث: 1843)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1965   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 846  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں تھے۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا اپنا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال تھے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 846»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب نكاح المحرم، حديث:1837، ومسلم، النكاح، باب تحريم نكاح المحرم.....، حديث:1410، حديث ميمونة أخرجه مسلم، النكاح، حديث:1411.»
تشریح:
1. اس حدیث سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ مُحرِم نکاح کر سکتا ہے‘ حالانکہ اس حدیث میں ان کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ اکثر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی روایت کے مخالف ہے۔
فرد واحد کو وہم ہو جانا جماعت کو وہم ہو جانے سے زیادہ قریب ہے۔
اور خود حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے ‘ نیز یہ رشتہ کرانے میں سفیر کے فرائض سر انجام دینے والے حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حالت احرام میں نہیں تھے۔
حضرت میمونہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہما دوسروں کی بہ نسبت زیادہ خبر رکھتے ہیں اور صورت واقعہ سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں‘ لہٰذا ان دونوں سے مروی روایت دوسروں کی روایت سے زیادہ لائق اعتبار ہے۔
2.علاوہ ازیں ان دنوں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نو دس برس کے بچے ہی تھے‘ اس لیے ان دونوں کے مقابلے میں اس کا واقعاتی صورت کو محفوظ نہ رکھ سکنا زیادہ قرین قیاس ہے۔
اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ہے تو پھر اسے آپ کی خصوصیت پر محمول کیا جا سکتا ہے۔
3.محدث جلیل علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ تحفۃ الأحوذي (۲ /۸۹) میں فرماتے ہیں: اس مسئلے میں جانبین (طرفین) کا طویل کلام ہے اور قابل ترجیح بہرحال جمہور کا قول ہے۔
4. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں قانونِ کلی کا بیان ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی حکایت ہے جس میں بہت سے احتمالات کی گنجائش ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 846   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2840  
´محرم کے نکاح کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور آپ محرم تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2840]
اردو حاشہ:
اس روایت سے استدلال کیا گیا ہے کہ محرم نکاح کر سکتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ روایت سنداً بالکل صحیح ہے مگر اس کا مضمون دوسری صحیح احادیث کے خلاف ہے، (دیکھیے، روایت: 2845) (اسی لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ان تمام روایات کو، جن میں حالت احرام میں نکاح کرنے کا بیان ہے، شاذ قرار دیا ہے۔) نیز حضرت میمونہؓ کا اپنا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے نکاح حلال حالت میں کیا ہے۔ نکاح کے سفیر حضرت رافع رضی اللہ عنہ کا لہٰذا معلوم یوں ہوتا ہے کہ انھیں غلط فہمی ہوگئی، نیز منع والی روایت (2845) قولی ہے، یہ فعلی۔ قولی اور فعلی کے تعارض کے وقت قولی راجح ہوتی ہے۔ اسی طرح نہی اور اباحت میں تعارض ہو تو نہی کو ترجیح ہوتی ہے، نیز فعلی روایات تو متعارض ہیں۔ قولی صریح ہے اور اس کے مقابل کوئی قولی روایت نہیں، لہٰذا قولی روایت پر عمل ہوگا۔ تاویل کر لی جائے تاکہ یہ محتمل روایت دوسری صریح روایات کے مطابق ہو جائے، مثلاً: محرم کے معنیٰ حرم میں یا حرمت والے مہینوں میں کیے جائیں، یعنی نبیﷺ نے حضرت میمونہؓ سے نکاح حرم میں یا حرمت کے مہینے میں کیا۔ عربی زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ عقلاً بھی نکاح احرام کے منافی ہے۔ اگر خوشبو لگانا، حجامت بنوانا، زینت والے کپڑے پہننا اور شکار وغیرہ کرنا احرام کے خلاف ہیں تو نکاح جو ہر لحاظ سے ان سے بڑھ کر ہے، کیونکر احرام میں درست ہو سکتا ہے؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2840   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2842  
´محرم کے نکاح کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور دونوں محرم تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2842]
اردو حاشہ:
رسول اللہﷺ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ آپ احرام باندھ کر گئے تھے، مگر حضرت میمونہؓ تو مکے میں تھیں وہ کیسے محرم ہوگئیں، نیز رسول اللہﷺ نے مکے پہنچ کر عمرے سے فارغ ہونے تک کچھ نہیں کیا تھا اور عمرے سے فارغ ہوگئے تو احرام بھی ختم ہو چکا تھا، پھر حالت احرام میں نکاح کب کیا؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2842   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2844  
´محرم کے نکاح کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2844]
اردو حاشہ:
یہ ایک ہی روایت کی مختلف اسانید ہیں۔ روایت پر بحث ہو چکی ہے کہ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی اور وہم ہے۔ یہ روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔ (صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: 1837)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2844   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3276  
´حالت احرام میں نکاح کی رخصت و اجازت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3276]
اردو حاشہ:
یہ بات صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جبکہ صاحبِ واقعہ حضرت میمونہؓ اور دیگر حضرات سے اس کے خلاف آتا ہے، یعنی رسول اللہﷺ نے جب نکاح فرمایا تو آپ محرم نہ تھے بلکہ حلال تھے۔ یا پھر مطلب ہوگا کہ حرم میں یا حرمت والے مہینے میں نکاح فرمایا لیکن صریح دلیل کے مقابلے میں اس قسم کی تاویل کی ضرورت نہیں۔ (تفصیل دیکھیے، حدیث: 2840، 2845)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3276   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 842  
´محرم کے لیے شادی کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 842]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(یہ روایت سنداً صحیح ہے،
لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس واقعہ کے نقل کرنے میں وہم ہو گیا تھا،
اس لیے یہ شاذ کے حکم میں ہے،
اور صحیح یہ ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی شادی حلال ہونے کے بعد ہوئی جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 842   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 843  
´محرم کے لیے شادی کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 843]
اردو حاشہ:
1؎:
سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ ابن عباس کو اس سلسلہ میں وہم ہوا ہے کیونکہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کا خود بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی کی تو ہم دونوں حلال تھے،
اسی طرح ان کے وکیل ابو رافع کا بیان بھی جیسا کہ گزرا یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میمونہ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے،
اس سلسلہ میں صاحب معاملہ کا بیان زیادہ معتبر ہو گا۔
نوٹ:
(سنداََ صحیح ہے،
لیکن متن شاذ ہے،
کما تقدم)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 843   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 844  
´محرم کے لیے شادی کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی تو آپ محرم تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 844]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سندََا صحیح ہے،
لیکن متن شاذ ہے،
کما تقدم)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 844   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:513  
513- عمرو نامی راوی کہتے ہیں: شیخ ابوشعثاء نے ہمیں یہ بات بتائی کہ انہوں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں نکاح کیا تھا۔ پھر ابوشعثاء نے دریافت کیا: اے عمرو! تمہارے خیال میں وہ کون سی زوجہ محترمہ تھیں؟ میں نے جواب دیا: لوگ یہ کہتے ہیں: وہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ تو ابوشعثاء بولے: مجھے تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بات بتائی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نکاح یا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حالت احرام میں تھے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:513]
فائدہ:
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا ينكح المحرم ولا ينكح» (محرم نہ خود نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے) [صحيح مسلم: 1409]
بعض احادیث میں «ولا يخطب» (نہ وہ منگنی کا پیغام بھیجے) [سنن ابي داود: 1841 صحيح] کے الفاظ ہیں۔ اس حدیث کے مخالف سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا خود بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا اور ہم اس وقت مقامسرف میں حلال تھے (یعنی احرام نہیں باندھے ہوئے تھے) [صحيح مسلم: 1411] اور یہی راجح ہے، مزید مذکورہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 513   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1837  
1837. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بحالت احرام حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1837]
حدیث حاشیہ:
شاید امام بخاری ؒ اس مسئلہ میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور اہل کوفہ سے متفق ہیں کہ محرم کے لیے عقد نکاح کرنا درست ہے، لیکن مجامعت بالاتفاق درست نہیں ہے۔
اور جمہور علماءکے نزدیک نکاح بھی احرام میں جائز نہیں۔
امام مسلم نے حضرت عثمان ؓ سے مرفوعاً نکالا ہے کہ محرم نہ نکاح کرے اپنا نہ دوسرا کوئی اس کا نکاح کرے نہ نکاح کا پیام دے۔
امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ محرم کو جماع کے لیے لونڈی خریدنا درست ہے تو نکاح بھی درست ہوگا۔
حافظ نے کہا یہ قیاس بھی جو خلاف نص کے ہے قابل قبول نہیں۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1837   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5114  
5114. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5114]
حدیث حاشیہ:
سعید بن مسیب نے کہا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے غلطی کی۔
ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے خود مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جس وقت نکاح کیا آپ احرام باندھے ہوئے نہ تھے اور ابو رافع اس نکاح میں وکیل تھے۔
ان سے ابن حبان اور ابن خزیمہ اور ترمذی نے روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے جب نکاح کیا اس وقت آپ حلال تھے۔
اب بعض الناس کا یہ کہنا کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا، ابن عباس کی خالہ تھیں وہ ان کا حال زیادہ جانتے تھے کچھ مفید نہیں کیونکہ یزید بن اصم کی بھی وہ خالہ تھیں اور انہوں نے خود حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی زبانی نقل کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا اس وقت آپ حلال تھے اور ممکن ہے کہ ابن عباس کے نزدیک تقلید ھدی سے آدمی محرم ہو جاتا ہو۔
انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دیکھ کر کہ آپ نے ھدی کی تقلید سے قیاس کر لیا کہ آ پ محرم تھے حالانکہ آپ نے احرام نہیں باندھا تھا اور حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے ايک مرد کو ایک عورت سے جدا کر دیا تھاجس نے حالت احرام میں نکاح کیا تھا۔
(وحیدی)
اس مسئلہ میں اختلاف ہے شافعیہ اور اہلحدیث کا یہی قول ہے کہ محرم نہ اپنا نکاح کرے نہ کسی دوسرے کو نکاح کا پیغام بھیجے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5114   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4259  
4259. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: نبی ﷺ نے حضرت میمونہ‬ ؓ س‬ے عمرہ قضا میں نکاح کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4259]
حدیث حاشیہ:
حضرت میمو نہ ؓ ابن عباس ؓ کی خالہ تھیں جن کی بہن ام الفضل حضرت عباس ؓ کی بیوی تھیں۔
حضرت عباس ؓ نے ہی میمونہ ؓ کا نکاح آنحضرت ﷺ سے کیا۔
سرف مکہ دس میل کے فاصلہ پر ایک موضع ہے۔
سنہ 51 ھ میں حضرت میمونہ ؓ نے اسی جگہ انتقال فرمایا۔
احادیث مذکورہ بالا میں کسی نہ کسی پہلو سے عمرہ قضا کا ذکر ہوا ہے۔
باب سے یہی وجہ مطابقت ہے۔
رمل وغیرہ وقتی اعمال تھے مگر بعد میں ان کو بطور سنت بر قرار رکھا گیا تاکہ اس (وقت کے حالات مسلمانوں کے ذہن میں تازہ رہیں اور اسلام کے غالب آنے پر وہ خدا کا شکر ادا کر تے رہیں۔
عمرہ قضا کا ذکرپیچھے مفصل گزرچکا ہے۔
)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4259   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1837  
1837. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بحالت احرام حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1837]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں محرم کے نکاح کے متعلق فیصلہ نہیں کیا کہ جائز ہے یا ناجائز، البتہ پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم آدمی نکاح کر سکتا ہے اور امام بخاری کے نزدیک ممانعت کی احادیث ثابت نہیں ہیں اور نہ یہ رسول اللہ ﷺ کا خاصہ ہے لیکن اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ محرم آدمی نکاح کے بعد بیوی سے جماع نہیں کر سکتا جب تک وہ حلال نہیں ہو جاتا۔
حضرت عائشہ ؓ سے بھی احادیث مروی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت میمونہ ؓ سے بحالت احرام نکاح کیا تھا۔
(عمدةالقاري: 521/7)
واقعی امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ محرم نکاح کر سکتا ہے، چنانچہ انہوں نے کتاب النکاح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب نكاح المحرم)
محرم کے نکاح کا بیان اس سے مراد صرف عقد کرنا ہے کیونکہ دوران احرام میں مباشرت کرنے سے حج یا عمرہ فاسد ہو جاتا ہے۔
(فتح الباري: 68/4)
لیکن امام بخاری کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
محرم شخص نہ نکاح کرے نہ نکاح کرائے اور نہ نکاح کا پیغام ہی بھیجے۔
(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3446(1409)
حضرت میمونہ ؓ کا اپنا قول بھی اس کی تصدیق کرتا ہے، انہوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا تو اس وقت ہم دونوں مقام سرف پر حالت احرم میں نہیں تھے بلکہ حلال تھے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1843)
حضرت ابو رافع ؓ جو حضرت میمونہ ؓ کے غلام اور نکاح کے وقت قاصد تھے ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے اور میں ان دونوں کے درمیان قاصد تھا، یعنی ایک دوسرے کو پیغام رسانی میرے ذریعے سے ہوئی تھی۔
(جامع الترمذي، الحج، حدیث: 841)
حضرت ابن عباس ؓ کا مذکورہ بیان وہم پر مبنی ہے جیسا کہ حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں:
حضرت ابن عباس ؓ کو وہم ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حالت احرام میں حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا۔
(مسندأحمد: 332/6)
یا انہیں جب اس نکاح کا علم ہوا تو اس وقت آپ محرم تھے۔
انہوں نے اپنے علم کے مطابق یہ کہہ دیا کہ آپ نے حالت احرام میں نکاح کیا۔
(2)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ محرم کو جماع کے لیے لونڈی خریدنا جائز ہے تو نکاح بھی درست ہو گا۔
حافظ ابن حجر ؒ اس قیاس کے متعلق فرماتے ہیں:
یہ قیاس خلاف نص ہے، اس لیے قابل قبول نہیں۔
(فتح الباري: 68/4)
بہرحال ہمارے نزدیک محرم آدمی کے لیے نکاح کرنا یا نکاح کرانا جائز نہیں جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے، اس بنا پر حضرت ابن عباس ؓ کی مذکورہ روایت مرجوح یا قابل تاویل ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1837   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4259  
4259. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: نبی ﷺ نے حضرت میمونہ‬ ؓ س‬ے عمرہ قضا میں نکاح کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4259]
حدیث حاشیہ:

حضرت میمونہ ؓ حضرت ابن عباس ؓ کی حقیقی خالہ تھیں۔
ان کی بہن حضرت اُم الفضل ؓ آپ کی والدہ تھیں۔

مکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلے پر صرف ایک مقام ہے وہیں حضرت میمونہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ نے نکاح کیا اور اتفاق سے وہیں ان کا انتقال ہوا۔
رسول اللہ ﷺ نے عمرہ قضا کے سفر میں حضرت جعفر بن ابو طالب ؓ کو حضرت میمونہ ؓ کے پاس پیغام نکاح دے کر روانہ کیا تو انھوں نے اپنا معاملہ حضرت عباس ؓ کے حوالے کر دیا کیونکہ ان کے گھر اُم الفضل ؓ ان کی حقیقی بہن تھیں۔
حضرت عباس ؓ ہی نے نکاح کا فریضہ سر انجام دیا۔
(فتح الباري: 639/7)

اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ قضا کے سفر میں حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا تھا اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
بحالت احرام نکاح کرنے کا مسئلہ آئندہ بیان ہوگا۔
البتہ خود حضرت میمونہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مجھ سے نکاح کیا تو آپ احرام کی پابندیوں سے آزاد تھے۔
(مسند أحمد: 332/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4259   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5114  
5114. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5114]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت احرام حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کیا اور شب زفاف کے وقت آپ احرام کی پابندیوں سے آزاد تھے اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کی وفات مقام سرف میں ہوئی۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4258)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ نکاح عمرۃ القضاء کے موقع پر ہوا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4259)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان جواز کی طرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے اس سلسلے میں منع کی کوئی حدیث ذکر نہیں کی صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت پر اکتفا کیا ہے جو جواز کے لیے واضح ہے۔
(فتح الباري: 207/9) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق احرام والا آدمی نہ تو خود نکاح کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے شخص ہی کا نکاح کرا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احرام والا آدمی خود اپنا نکاح کرے، نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے اور نہ پیغام نکاح ہی بھیجے۔
(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3449 (1409)
خود صاحب واقعہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے، انھوں نے فرمایا:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت ہم دونوں مقام سرف میں حلال تھے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1843)
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ جو ان دونوں کے درمیان قاصد تھے ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے، شب زفاف کے وقت بھی حلال تھے اور میں ان دونوں کے درمیان قاصد تھا۔
(جامع الترمذي، الحج، حدیث: 841)
ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کسی وجہ سے وہم ہو گیا ہو جیسا کہ حضرت سعید بن مسیّب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہم ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے حالت احرام میں شادی کی تھی۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1845)
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ تھیں، اس لیے وہ ان کا حال زیادہ جانتے تھے لیکن یزید بن اصم کی بھی خالہ تھیں، انھوں نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح بحالت حلال کیا تھا۔
(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3453 (1411) (3)
ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک تقلید ہدی سے آدمی محرم بن جاتا ہو، جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنی قربانیوں کو ہار پہنا دیے ہیں تو اس سے قیاس کر لیا کہ آپ محرم ہیں، حالانکہ اس وقت آپ نے احرام نہیں باندھا تھا، بہر حال اہل حدیث حضرات کا موقف ہے کہ احرام والا آدمی نہ اپنا نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرائے اور نہ کسی کو پیغام نکاح ہی بھیجے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے ایک مرد اور عورت کو الگ الگ کر دیا تھا جنھوں نے احرام کی حالت میں نکاح کیا تھا۔
(فتح الباري: 208/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5114