(مرفوع) حدثنا محمد بن خلف العسقلاني ، حدثنا الفريابي ، عن ابان بن ابي حازم ، عن ابي بكر بن حفص ، عن ابن عمر ، قال: لما ولي عمر بن الخطاب خطب الناس، فقال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اذن لنا في المتعة ثلاثا، ثم حرمها، والله لا اعلم احدا تمتع وهو محصن إلا رجمته بالحجارة، إلا ان ياتيني باربعة يشهدون ان رسول الله احلها بعد إذ حرمها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: لَمَّا وَلِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لَنَا فِي الْمُتْعَةِ ثَلَاثًا، ثُمَّ حَرَّمَهَا، وَاللَّهِ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا تَمَتَّعَ وَهُوَ مُحْصَنٌ إِلَّا رَجَمْتُهُ بِالْحِجَارَةِ، إِلَّا أَنْ يَأْتِيَنِي بِأَرْبَعَةٍ يَشْهَدُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ أَحَلَّهَا بَعْدَ إِذْ حَرَّمَهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، تو انہوں نے خطبہ دیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو تین بار متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام قرار دیا، قسم ہے اللہ کی اگر میں کسی کے بارے میں جانوں گا کہ وہ شادی شدہ ہوتے ہوئے متعہ کرتا ہے تو میں اسے پتھروں سے رجم کر دوں گا، مگر یہ کہ وہ چار گواہ لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دینے کے بعد حلال کیا تھا۔
It was narrated that Ibn 'Umar said:
"When 'Umar bin Khattab was appointed caliph, he addressed the people and said: 'The Messenger of Allah permitted temporary marriage for us three times, then he forbade it. By Allah, If I hear of any married person entering a temporary marriage, I will stone him to death, unless he can bring me four witnesses who will testify that the Messenger of Allah, allowed it after he forbade it'."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1963
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حضرت عمر ؓ نے اس بات کا انکار نہیں فرمایا کہ ایک وقت متعہ جائز رہا ہے بلکہ یہ واضح فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری فیصلہ متعہ حرام ہونے کا ہے۔
(2) اگر عالم کو یقین ہو جائے کہ کسی مسئلہ میں اس کا موقف غلط تھا تو اسے رجوع کر لینا چاہیے۔
(3) حضرت عمر ؓ کے سامنے کسی نے اس بات کی گواہی نہیں دی کہ آخری حکم جواز کا ہے۔ گویا صحابہ کا بالاتفاق یہ موقف تھا کہ متعہ جائز نہیں۔ اس کے بعد کسی ایک صحابی کا قول قابل عمل نہیں رہتا۔
(4) جاہلیت میں جو نکاح جائز سمجھے جاتے تھے اور اسلام میں حرام ہو گئے ان نکاحوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ اب اگر کوئی شخص اس قسم کا نکا ح کرتا ہے تو اسے نکاح نہیں بلکہ بدکاری قرار دیا جائے گا اور اسے مجرم قرار دے کر حد لگائی جائے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1963