سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Chapters Regarding Zakat
حدیث نمبر: 1813
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سهل بن ابي سهل ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" تجوزت لكم عن صدقة الخيل، والرقيق".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" تَجَوَّزْتُ لَكُمْ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ، وَالرَّقِيقِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے گھوڑوں، غلام اور لونڈیوں کی زکاۃ معاف کر دی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10055) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ali narrated that: the Messenger of Allah said: “I have exempted you from having to pay Sadaqah on horses and slaves.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
حارث الأعور ضعيف
و أبو إسحاق عنعن
وانظر الحديث السابق (1790)
قلت: الحديث السابق (الأصل: 1812) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 444
16. بَابُ: مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ مِنَ الأَمْوَالِ
16. باب: جن مالوں میں زکاۃ واجب ہے اس کا بیان۔
Chapter: Wealth on which Zakat is due
حدیث نمبر: 1814
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عمرو بن سواد المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني سليمان بن بلال ، عن شريك بن ابي نمر ، عن عطاء بن يسار ، عن معاذ بن جبل ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: بعثه إلى اليمن، وقال له:" خذ الحب من الحب، والشاة من الغنم، والبعير من الإبل، والبقرة من البقر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ، وَقَالَ لَهُ:" خُذْ الْحَبَّ مِنَ الْحَبِّ، وَالشَّاةَ مِنَ الْغَنَمِ، وَالْبَعِيرَ مِنَ الْإِبِلِ، وَالْبَقَرَةَ مِنَ الْبَقَرِ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا اور فرمایا: (زکاۃ میں) غلہ میں سے غلہ، بکریوں میں سے بکری، اونٹوں میں سے اونٹ، اور گایوں میں سے گائے لو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الزکاة 11 (1599)، (تحفة الأشراف: 11348) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (عطاء بن یسار اور معاذ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 3544)

Mu'adh bin Jabal narrated that: the Messenger of Allah sent him to Yemen and said to him: “Take grains from grains, sheep from sheep, camels from camels and cows from cows”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (1599)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 445
حدیث نمبر: 1815
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن محمد بن عبيد الله ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" إنما سن رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة في هذه الخمسة في الحنطة، والشعير، والتمر، والزبيب، والذرة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" إِنَّمَا سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ فِي هَذِهِ الْخَمْسَةِ فِي الْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ، وَالزَّبِيبِ، وَالذُّرَةِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچ چیزوں میں زکاۃ مقرر کی ہے: گیہوں، جو، کھجور، انگور اور مکئی میں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8795، ومصباح الزجاجة: 647) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (محمد بن عبید اللہ متروک ہے، لیکن لفظ «الأربعة» کے ساتھ یہ صحیح ہے، ہاں «الذُّرَةِ» کا ذکر منکر ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 801)

It was narrated from Amr bin: Shu'aib, form his father, that his grandfather said: “The Messenger of Allah only prescribed Zakat on these five things: wheat, barley, dates, raisins and corn.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا وصح نحوه بلفظ الأربعة فذكرها دون الذرة فهي منكرة

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
محمد بن عبيد اللّٰه العرزمي: متروك
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 445
17. بَابُ: صَدَقَةِ الزُّرُوعِ وَالثِّمَارِ
17. باب: غلوں اور پھلوں کی زکاۃ کا بیان۔
Chapter: Sadaqah due on crops and fruits
حدیث نمبر: 1816
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى ابو موسى الانصاري ، حدثنا عاصم بن عبد العزيز بن عاصم ، حدثنا الحارث بن عبد الرحمن بن عبد الله بن سعد بن ابي ذباب ، عن سليمان بن يسار ، وعن بسر بن سعيد ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فيما سقت السماء، والعيون العشر، وفيما سقي بالنضح نصف العشر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو غلہ بارش یا چشمہ کے پانی سے پیدا ہوتا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ کا ہے، اور جو غلہ پانی سینچ کر پیدا ہو اس میں بیسواں حصہ زکاۃ ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزکاة 14 (639)، (تحفة الأشراف: 12208، 13483) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اوپر کی حدیث میں آیا ہے کہ زکاۃ پانچ چیزوں میں ہے: گیہوں، جو، کھجور، انگور اور مکئی، اس میں مزید آسانی یہ ہے کہ یہ (عشر اور نصف عشر) دسواں اور بیسواں حصہ بھی صرف انہیں پانچ چیزوں سے لیا جائے گا جن کا ذکر اوپر ہوا، باقی تمام غلے اور میوہ جات،پھل پھول اور سبزیاں و ترکاریاں وغیرہ وغیرہ میں زکاۃ معاف ہے، اور ایک شرط یہ بھی ہے یہ پانچ چیزیں بھی پانچ وسق یعنی (۷۵۰) کلو گرام اور بقول شیخ عبداللہ البسام (۹۰۰ کلو گرام) سے کم نہ ہوں، ورنہ ان میں بھی زکاۃ معاف ہو گی، لیکن امام ابوحنیفہ اس حدیث سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ جملہ پیداوار میں دسواں اور بیسواں حصہ ہے کیونکہ «ماسقت السماء» کا لفظ عام ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں: احادیث میں تطبیق دینا ضروری ہے اور جب غور سے دیکھو تو کوئی تعارض نہیں ہے، اس حدیث میں مقصود یہ ہے کہ بارش سے ہونے والی زراعت (کھیتی) میں دسواں حصہ ہے، کنویں اور نہر سے سینچی جانے والی زراعت میں بیسواں حصہ، (اس لیے کہ اس میں آدمی کو پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور محنت بھی) لیکن اس میں اموال زکاۃ اور مقدار نصاب کی تصریح نہیں ہے، یہ تصریح دوسری احادیث میں وارد ہے کہ زکاۃ صرف پانچ چیزوں میں ہے اور پانچ وسق سے کم میں زکاۃ نہیں ہے تو یہ عام اسی خاص پر محمول ہو گا۔

Abu Hurairah narrated that: the Messenger of Allah (ﷺ) said: “For crops that are irrigated by the sky (i.e. rain) and springs, one-tenth. For those that are irrigated by watering, one half of one-tenth.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 1817
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هارون بن سعيد المصري ابو جعفر ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" فيما سقت السماء، والانهار، والعيون، او كان بعلا العشر، وفيما سقي بالسواني نصف العشر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْمِصْرِيُّ أَبُو جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَالْأَنْهَارُ، وَالْعُيُونُ، أَوْ كَانَ بَعْلًا الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالسَّوَانِي نِصْفُ الْعُشْرِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو غلہ اور پھل بارش، نہر، چشمہ یا زمین کی تری (سیرابی) سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جسے جانوروں کے ذریعہ سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 55 (1483)، سنن ابی داود/الزکا ة 11 (1596)، سنن الترمذی/الزکاة 14 (640)، سنن النسائی/الزکاة 25 (2490)، (تحفة الأشراف: 6977) (صحیح)» ‏‏‏‏

Salim narrated that: that his Father said: “I heard the Messenger of Allah say: 'For whatever is irrigated by the sky, rivers and springs, or draws up water from deep roots, one-tenth. For whatever is irrigated by animals (i.e. by artificial means) one half of one-tenth.' ”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1818
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي بن عفان ، حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم بن ابي النجود ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، عن معاذ بن جبل ، قال:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، وامرني ان آخذ مما سقت السماء، وما سقي بعلا العشر، وما سقي بالدوالي نصف العشر"، قال يحيى بن آدم: البعل، والعثري، والعذي هو الذي يسقى بماء السماء، والعثري ما يزرع للسحاب، وللمطر خاصة ليس يصيبه إلا ماء المطر، والبعل ما كان من الكروم قد ذهبت عروقه في الارض إلى الماء، فلا يحتاج إلى السقي الخمس سنين، والست يحتمل ترك السقي فهذا البعل، والسيل ماء الوادي إذا سال، والغيل سيل دون سيل.
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِمَّا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَمَا سُقِيَ بَعْلًا الْعُشْرَ، وَمَا سُقِيَ بِالدَّوَالِي نِصْفَ الْعُشْرِ"، قَالَ يَحْيَى بْنُ آدَمَ: الْبَعْلُ، وَالْعَثَرِيُّ، وَالْعَذْيُ هُوَ الَّذِي يُسْقَى بِمَاءِ السَّمَاءِ، وَالْعَثَرِيُّ مَا يُزْرَعُ لِلسَّحَابِ، وَلِلمَطَرِ خَاصَّةً لَيْسَ يُصِيبُهُ إِلَّا مَاءُ الْمَطَرِ، وَالْبَعْلُ مَا كَانَ مِنَ الْكُرُومِ قَدْ ذَهَبَتْ عُرُوقُهُ فِي الْأَرْضِ إِلَى الْمَاءِ، فَلَا يَحْتَاجُ إِلَى السَّقْيِ الْخَمْسَ سِنِينَ، وَالسِّتَّ يَحْتَمِلُ تَرْكَ السَّقْيِ فَهَذَا الْبَعْلُ، وَالسَّيْلُ مَاءُ الْوَادِي إِذَا سَالَ، وَالْغَيْلُ سَيْلٌ دُونَ سَيْلٍ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا، اور حکم دیا کہ جو پیداوار بارش کے پانی سے ہو اور جو زمین کی تری سے ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ لوں، اور جو چرخی کے پانی سے ہو اس میں بیسواں حصہ لوں۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں: «بعل»، «عثری» اور «عذی» وہ زراعت (کھیتی) ہے جو بارش کے پانی سے سیراب کی جائے، اور «عثری» اس زراعت کو کہتے ہیں: جو خاص بارش کے پانی سے ہی بوئی جائے اور دوسرا پانی اسے نہ پہنچے، اور «بعل» وہ انگور ہے جس کی جڑیں زمین کے اندر پانی تک چلی گئی ہوں اور اوپر سے پانچ چھ سال تک پانی دینے کی حاجت نہ ہو، بغیر سینچائی کے کام چل جائے، اور «سیل» کہتے ہیں وادی کے بہتے پانی کو، اور «غیل» کہتے ہیں چھوٹے «سیل» کو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11364)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الزکاة 25 (2492)، مسند احمد (5/233)، سنن الدارمی/الزکاة 29 (1709) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: «سیل» اور «غیل» دونوں کو اسی لئے بیان کیا کہ بعض روایتوں میں «غیل» کی جگہ «سیل» ہے، مطلب یہ ہے کہ جو زراعت «سیل» (سیلاب) کے پانی سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ لازم ہو گا کیونکہ وہ بارش والے پانی کی زراعت کے مثل ہے۔

It was narrated that: Mu'adh bin Jabal said: “The Messenger of Allah (ﷺ) sent me to Yemen and commanded me to take one-tenth of that which was irrigated by deep roots, and to take one half of one-tenth of that which was irrigated by means of buckets.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
18. بَابُ: خَرْصِ النَّخْلِ وَالْعِنَبِ
18. باب: (زکاۃ میں) کھجور اور انگور کا اندازہ لگانا۔
Chapter: Assessment of date palms and grapevines
حدیث نمبر: 1819
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي ، والزبير بن بكار ، قالا: حدثنا ابن نافع ، حدثنا محمد بن صالح التمار ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن عتاب بن اسيد ، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" كان يبعث على الناس من يخرص عليهم كرومهم وثمارهم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ التَّمَّارُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَبْعَثُ عَلَى النَّاسِ مَنْ يَخْرُصُ عَلَيْهِمْ كُرُومَهُمْ وَثِمَارَهُمْ".
عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس ایک شخص کو بھیجتے جو ان کے انگوروں اور پھلوں کا اندازہ لگاتا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الزکاة 13 (1603، 1604)، سنن الترمذی/الزکاة 17 (644)، سنن النسائی/الزکاة 100 (2619)، (تحفة الأشراف: 9748) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سعید بن مسیب اور عتاب رضی اللہ عنہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے)

وضاحت:
۱؎: «خرص» کا مطلب تخمینہ اور اندازہ لگانے کے ہیں یعنی کھجور وغیرہ کے درخت پر پھلوں کا اندازہ کرنا کہ اس درخت میں اتنا پھل نکلے گا، اور اندازے کے بعد رعایا کو اجازت دے دی جاتی ہے کہ وہ پھل توڑ لیں، پھر اندازہ کے موافق ان سے دسواں یا بیسواں حصہ لے لیا جاتا ہے۔

Attab bin Asid narrated that: the Prophet used to send to the people one who would assess their vineyards and fruits.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (163،1604) ترمذي (644) نسائي (2619)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 445
حدیث نمبر: 1820
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا موسى بن مروان الرقي ، حدثنا عمر بن ايوب ، عن جعفر بن برقان ، عن ميمون بن مهران ، عن مقسم ، عن ابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" حين افتتح خيبر اشترط عليهم ان له الارض، وكل صفراء، وبيضاء يعني الذهب، والفضة"، وقال له اهل خيبر: نحن اعلم بالارض، فاعطناها على ان نعملها ويكون لنا نصف الثمرة، ولكم نصفها، فزعم انه اعطاهم على ذلك، فلما كان حين يصرم النخل، بعث إليهم ابن رواحة فحزر النخل، وهو الذي يدعونه اهل المدينة الخرص، فقال: في ذا كذا، وكذا، فقالوا: اكثرت علينا يا ابن رواحة، فقال: فانا احزر النخل، واعطيكم نصف الذي قلت، قال: فقالوا: هذا الحق وبه تقوم السماء والارض، فقالوا: قد رضينا ان ناخذ بالذي قلت.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ اشْتَرَطَ عَلَيْهِمْ أَنَّ لَهُ الْأَرْضَ، وَكُلَّ صَفْرَاءَ، وَبَيْضَاءَ يَعْنِي الذَّهَبَ، وَالْفِضَّةَ"، وَقَالَ لَهُ أَهْلُ خَيْبَرَ: نَحْنُ أَعْلَمُ بِالْأَرْضِ، فَأَعْطِنَاهَا عَلَى أَنْ نَعْمَلَهَا وَيَكُونَ لَنَا نِصْفُ الثَّمَرَةِ، وَلَكُمْ نِصْفُهَا، فَزَعَمَ أَنَّهُ أَعْطَاهُمْ عَلَى ذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ حِينَ يُصْرَمُ النَّخْلُ، بَعَثَ إِلَيْهِمُ ابْنَ رَوَاحَةَ فَحَزَرَ النَّخْلَ، وَهُوَ الَّذِي يَدْعُونَهُ أَهْلُ الْمَدِينَةِ الْخَرْصَ، فَقَالَ: فِي ذَا كَذَا، وَكَذَا، فَقَالُوا: أَكْثَرْتَ عَلَيْنَا يَا ابْنَ رَوَاحَةَ، فَقَالَ: فَأَنَا أَحْزِرُ النَّخْلَ، وَأُعْطِيكُمْ نِصْفَ الَّذِي قُلْتُ، قَالَ: فَقَالُوا: هَذَا الْحَقُّ وَبِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، فَقَالُوا: قَدْ رَضِينَا أَنْ نَأْخُذَ بِالَّذِي قُلْتَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر فتح کیا، تو آپ نے ان سے شرط لے لی کہ زمین آپ کی ہو گی، اور ہر صفراء اور بیضاء یعنی سونا و چاندی بھی آپ ہی کا ہو گا، اور آپ سے خیبر والوں نے کہا: ہم یہاں کی زمین کے بارے میں زیادہ بہتر جانتے ہیں، لہٰذا آپ ہمیں یہ دے دیجئیے، ہم اس میں کھیتی کریں گے، اور جو پھل پیدا ہو گا وہ آدھا آدھا کر لیں گے، اسی شرط پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین ان کے حوالے کر دی، جب کھجور توڑنے کا وقت آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس بھیجا، انہوں نے کھجور کا تخمینہ لگایا، جس کو اہل مدینہ «خرص» کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا: اس میں اتنا اور اتنا پھل ہے، یہودی یہ سن کر بولے: اے ابن رواحہ! آپ نے تو بہت بڑھا کر بتایا، ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ٹھیک ہے میں کھجوریں اتروا کر انہیں جمع کر لیتا ہوں اور جو اندازہ میں نے کیا ہے اس کا آدھا تم کو دے دیتا ہوں، یہودی کہنے لگے: یہی حق ہے، اور اسی کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہیں، ہم آپ کے اندازے کے مطابق حصہ لینے پر راضی ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 35 (3410، 3411)، (تحفة الأشراف: 6494) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: دوسری روایت میں ہے کہ یہودیوں نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو رشوت دینا اور اپنے سے ملانا چاہا کہ کھجور کا تخمینہ کمی کے ساتھ لگا دیں،لیکن وہ نہ مانے اور ٹھیک ٹھیک تخمینہ لگایا، اس وقت یہودیوں نے کہا: ایسے ہی لوگوں سے آسمان اور زمین قائم ہے، سبحان اللہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ غربت و افلاس اور پریشانی و مصیبت کی حالت میں بھی سچائی اور ایمان داری کو نہیں چھوڑتے تھے، جب ہی تو اسلام کو یہ ترقی حاصل ہوئی، اور آج اسلامی عقائد و اقدار اور تعلیمات کو چھوڑ کر مسلمان دنیا میں ذلیل وخوار ہیں۔

Ibn Abbas narrated that: when the Prophet conquered Khaibar, he stipulated that the land, and all the yellow and white, meaning gold and silver belonged to him. The people of Khaibar said to him: “We know the land better, so give it to us so that we may work the land, and you will have half of its produce and we will have half.” He maintained that, he gave it to them on that basis. When the time for the date harvest came, he sent Ibn Rawahah to them. He assesses the date palms, and he said: “For this tree, such and such (amount).” They said: “You are demanding too much of us, O Ibn Rawahah!” He said: “This is my assessment and I will give you half of what I say.” They said: “This is fair, and fairness is what haven and earth are based on.” They said: “We Agree to take (accept) what you say.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
19. بَابُ: النَّهْيِ أَنْ يُخْرِجَ فِي الصَّدَقَةِ شَرَّ مَالِهِ
19. باب: زکاۃ میں خراب مال نکالنا منع ہے۔
Chapter: Prohibition of giving the worst of one's wealth as sadaqah
حدیث نمبر: 1821
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بشر بكر بن خلف ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عبد الحميد بن جعفر ، حدثني صالح بن ابي عريب ، عن كثير بن مرة الحضرمي ، عن عوف بن مالك الاشجعي ، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد علق رجل اقناء، او قنوا، وبيده عصا فجعل يطعن بذلك، يدقدق في ذلك القنو، ويقول:" لو شاء رب هذه الصدقة تصدق باطيب منها، إن رب هذه الصدقة ياكل الحشف يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ أَبِي عَرِيبٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ عَلَّقَ رَجُلٌ أَقْنَاءَ، أَوْ قِنْوًا، وَبِيَدِهِ عَصًا فَجَعَلَ يَطْعَنُ بِذَلِكَ، يُدَقْدِقُ فِي ذَلِكَ الْقِنْوِ، وَيَقُولُ:" لَوْ شَاءَ رَبُّ هَذِهِ الصَّدَقَةِ تَصَدَّقَ بِأَطْيَبَ مِنْهَا، إِنَّ رَبَّ هَذِهِ الصَّدَقَةِ يَأْكُلُ الْحَشَفَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے، اور ایک شخص نے کھجور کے کچھ خوشے مسجد میں لٹکا دئیے تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خوشہ میں اس چھڑی سے کھٹ کھٹ مارتے جاتے، اور فرماتے: اگر یہ زکاۃ دینے والا چاہتا تو اس سے بہتر زکاۃ دیتا، یہ زکاۃ والا قیامت کے دن خراب ہی کھجور کھائے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الزکاة 16 (1608)، سنن النسائی/الزکاة 27 (2495)، (تحفة الأشراف: 10914)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/23، 28) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی جیسا دیا ویسا پائے گا، اللہ تعالی غنی و بے پرواہ ہے، اس کے نام پر تو بہت عمدہ مال دینا چاہئے، وہ نیت کو دیکھتا ہے۔

It was narrated that: Awf bin Malik Al-Ashja'i said: “The Messenger of Allah went out, and a man had hung up one or more bunches of dates. He (the Prophet) had a stick in his hand and he started hitting that bunch of dates repeatedly, saying: 'If the owner of these dates wanted to give in charity, he should have given something better than these. The owner of this charity will eat rotten and shriveled dates on the Day of Resurrection.' ”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 1822
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا احمد بن محمد بن يحيى بن سعيد القطان ، حدثنا عمرو بن محمد العنقزي ، حدثنا اسباط بن نصر ، عن السدي ، عن عدي بن ثابت ، عن البراء بن عازب ، في قوله سبحانه" ومما اخرجنا لكم من الارض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون سورة البقرة آية 267، قال: نزلت في الانصار، كانت الانصار تخرج إذا كان جداد النخل من حيطانها اقناء البسر، فيعلقونه على حبل بين اسطوانتين في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فياكل منه فقراء المهاجرين، فيعمد احدهم فيدخل قنوا فيه الحشف، يظن انه جائز في كثرة ما يوضع من الاقناء، فنزل فيمن فعل ذلك ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون سورة البقرة آية 267، يقول: لا تعمدوا للحشف منه تنفقون، ولستم بآخذيه إلا ان تغمضوا فيه، يقول: لو اهدي لكم ما قبلتموه إلا على استحياء من صاحبه غيظا، انه بعث إليكم ما لم يكن لكم فيه حاجة، واعلموا ان الله غني عن صدقاتكم".
(موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ ، عَنِ السُّدِّيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، فِي قَوْلِهِ سُبْحَانَهُ" وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ سورة البقرة آية 267، قَالَ: نَزَلَتْ فِي الْأَنْصَارِ، كَانَتْ الْأَنْصَارُ تُخْرِجُ إِذَا كَانَ جِدَادُ النَّخْلِ مِنْ حِيطَانِهَا أَقْنَاءَ الْبُسْرِ، فَيُعَلِّقُونَهُ عَلَى حَبْلٍ بَيْنَ أُسْطُوَانَتَيْنِ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْكُلُ مِنْهُ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ، فَيَعْمِدُ أَحَدُهُمْ فَيُدْخِلُ قِنْوًا فِيهِ الْحَشَفُ، يَظُنُّ أَنَّهُ جَائِزٌ فِي كَثْرَةِ مَا يُوضَعُ مِنَ الْأَقْنَاءِ، فَنَزَلَ فِيمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ سورة البقرة آية 267، يَقُولُ: لَا تَعْمِدُوا لِلْحَشَفِ مِنْهُ تُنْفِقُونَ، وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ، يَقُولُ: لَوْ أُهْدِيَ لَكُمْ مَا قَبِلْتُمُوهُ إِلَّا عَلَى اسْتِحْيَاءٍ مِنْ صَاحِبِهِ غَيْظًا، أَنَّهُ بَعَثَ إِلَيْكُمْ مَا لَمْ يَكُنْ لَكُمْ فِيهِ حَاجَةٌ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْ صَدَقَاتِكُمْ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں آیت کریمہ: «ومما أخرجنا لكم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون» (سورة التوبة: 267) انصار کے بارے میں نازل ہوئی، جب باغات سے کھجور توڑنے کا وقت آتا تو وہ اپنے باغات سے کھجور کے چند خوشے (صدقے کے طور پر) نکالتے، اور مسجد نبوی میں دونوں ستونوں کے درمیان رسی باندھ کر لٹکا دیتے، پھر فقراء مہاجرین اس میں سے کھاتے، انصار میں سے کوئی یہ کرتا کہ ان خوشوں میں خراب کھجور کا خوشہ شامل کر دیتا، اور یہ سمجھتا کہ بہت سارے خوشوں میں ایک خراب خوشہ رکھ دینا جائز ہے، تو انہیں لوگوں کے سلسلہ میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون» قصد نہ کرو خراب کا اس میں سے کہ اسے خرچ کرو اور تم اسے خود ہرگز لینے والے نہیں ہو، الا یہ کہ چشم پوشی سے کام لو، اگر تمہیں کوئی ایسے خراب مال سے تحفہ بھیجے تو تم کبھی بھی اس کو قبول نہ کرو گے مگر شرم کی وجہ سے، اور دل میں غصہ ہو کر کہ اس نے تمہارے پاس ایسی چیز بھیجی ہے جو تمہارے کام کی نہیں ہے، اور تم جان لو کہ اللہ تمہارے صدقات سے بے نیاز ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1798، ومصباح الزجاجة: 648)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن 3 (2987) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that: Bara bin Azib said concerning the Verse: “And of that which We have priduced from the earth for you, and don not aim at that which is bad to spend from it. ” [Al-Baqarah 2:267] “This was revealed concerning the Ansar. At the time of the new date-palm harvest, they would take a bunch of dates that were beginning to ripen and hang it on a rope between two of the pillars in the mosque of the Messenger of Allah (ﷺ), and the poor emigrants would eat from it.” One of them deliberately mixed a bunch containing rotten and shriveled dates, and thought this was permissible because of the large number of dates that had been put there. So the following was revealed about the one who did that: '… and do not aim at that which is bad to spend from it'. Meaning do not seek out the rotten and shriveled dates to give in charity: '…(thought) you would not accept it save if you close your eyes and tolerate therein.' Meaning, if you were given this as a gift you would only accept it because you felt embarrassed, and you would get angry that he had sent something of which you have no need. And know that Allah has no need of your charity.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.