(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي بن عفان ، حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم بن ابي النجود ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، عن معاذ بن جبل ، قال:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، وامرني ان آخذ مما سقت السماء، وما سقي بعلا العشر، وما سقي بالدوالي نصف العشر"، قال يحيى بن آدم: البعل، والعثري، والعذي هو الذي يسقى بماء السماء، والعثري ما يزرع للسحاب، وللمطر خاصة ليس يصيبه إلا ماء المطر، والبعل ما كان من الكروم قد ذهبت عروقه في الارض إلى الماء، فلا يحتاج إلى السقي الخمس سنين، والست يحتمل ترك السقي فهذا البعل، والسيل ماء الوادي إذا سال، والغيل سيل دون سيل. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِمَّا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَمَا سُقِيَ بَعْلًا الْعُشْرَ، وَمَا سُقِيَ بِالدَّوَالِي نِصْفَ الْعُشْرِ"، قَالَ يَحْيَى بْنُ آدَمَ: الْبَعْلُ، وَالْعَثَرِيُّ، وَالْعَذْيُ هُوَ الَّذِي يُسْقَى بِمَاءِ السَّمَاءِ، وَالْعَثَرِيُّ مَا يُزْرَعُ لِلسَّحَابِ، وَلِلمَطَرِ خَاصَّةً لَيْسَ يُصِيبُهُ إِلَّا مَاءُ الْمَطَرِ، وَالْبَعْلُ مَا كَانَ مِنَ الْكُرُومِ قَدْ ذَهَبَتْ عُرُوقُهُ فِي الْأَرْضِ إِلَى الْمَاءِ، فَلَا يَحْتَاجُ إِلَى السَّقْيِ الْخَمْسَ سِنِينَ، وَالسِّتَّ يَحْتَمِلُ تَرْكَ السَّقْيِ فَهَذَا الْبَعْلُ، وَالسَّيْلُ مَاءُ الْوَادِي إِذَا سَالَ، وَالْغَيْلُ سَيْلٌ دُونَ سَيْلٍ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا، اور حکم دیا کہ جو پیداوار بارش کے پانی سے ہو اور جو زمین کی تری سے ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ لوں، اور جو چرخی کے پانی سے ہو اس میں بیسواں حصہ لوں۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں: «بعل»، «عثری» اور «عذی» وہ زراعت (کھیتی) ہے جو بارش کے پانی سے سیراب کی جائے، اور «عثری» اس زراعت کو کہتے ہیں: جو خاص بارش کے پانی سے ہی بوئی جائے اور دوسرا پانی اسے نہ پہنچے، اور «بعل» وہ انگور ہے جس کی جڑیں زمین کے اندر پانی تک چلی گئی ہوں اور اوپر سے پانچ چھ سال تک پانی دینے کی حاجت نہ ہو، بغیر سینچائی کے کام چل جائے، اور «سیل» کہتے ہیں وادی کے بہتے پانی کو، اور «غیل» کہتے ہیں چھوٹے «سیل» کو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «سیل» اور «غیل» دونوں کو اسی لئے بیان کیا کہ بعض روایتوں میں «غیل» کی جگہ «سیل» ہے، مطلب یہ ہے کہ جو زراعت «سیل»(سیلاب) کے پانی سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ لازم ہو گا کیونکہ وہ بارش والے پانی کی زراعت کے مثل ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11364)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الزکاة 25 (2492)، مسند احمد (5/233)، سنن الدارمی/الزکاة 29 (1709) (حسن صحیح)»
It was narrated that:
Mu'adh bin Jabal said: “The Messenger of Allah (ﷺ) sent me to Yemen and commanded me to take one-tenth of that which was irrigated by deep roots, and to take one half of one-tenth of that which was irrigated by means of buckets.”