سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
Chapters: Regarding Funerals
حدیث نمبر: 1632
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سفيان ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، قال:" كنا نتقي الكلام، والانبساط إلى نسائنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مخافة ان ينزل فينا القرآن، فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم تكلمنا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" كُنَّا نَتَّقِي الْكَلَامَ، وَالِانْبِسَاطَ إِلَى نِسَائِنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخَافَةَ أَنْ يُنْزَلَ فِينَا الْقُرْآنُ، فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكَلَّمْنَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی عورتوں سے باتیں کرنے اور ان سے بہت زیادہ بےتکلف ہونے سے پرہیز کرتے تھے کہ ہمارے سلسلے میں کہیں قرآن نہ اتر جائے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو ہم باتیں کرنے لگے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/النکاح 80 (5187)، (تحفة الأشراف: 7156) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Ibn ‘Umar said: “We used to be guarded in our speech even with our wives at the time of the Messenger of Allah (ﷺ), fearing that Qur’an may be revealed amongst us, but when the Messenger of Allah (ﷺ) died, we began to speak freely.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1633
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا إسحاق بن منصور ، انبانا عبد الوهاب بن عطاء العجلي ، عن ابن عون ، عن الحسن ، عن ابي بن كعب ، قال:" كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنما وجهنا واحد، فلما قبض نظرنا هكذا وهكذا".
(موقوف) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْعِجْلِيُّ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّمَا وَجْهُنَا وَاحِدٌ، فَلَمَّا قُبِضَ نَظَرْنَا هَكَذَا وَهَكَذَا".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو ہم سب ایک رخ تھے، لیکن جب آپ کا انتقال ہو گیا تو پھر ہم ادھر ادھر دیکھنے لگے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11، ومصباح الزجاجة: 593) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز اس سند میں حسن بصری اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)

It was narrated that Ubayy bin Ka’b said: “We were with the Messenger of Allah (ﷺ) and we all had a single focus, but when he passed away we started to look here and there (i.e., have different interests).”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح إن كان الحسن سمعه من أبي

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
الحسن البصري لم يسمع من أبي بن كعب رضي اللّٰه عنه كما في تحفة الأشراف(12/1)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 438
حدیث نمبر: 1634
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي ، حدثنا خالي محمد ابن إبراهيم بن المطلب بن السائب بن ابي وداعة السهمي ، حدثني موسى بن عبد الله بن ابي امية المخزومي ، حدثني مصعب بن عبد الله ، عن ام سلمة بنت ابي امية زوج النبي صلى الله عليه وسلم انها، قالت:" كان الناس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام المصلي يصلي، لم يعد بصر احدهم موضع قدميه، فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان الناس إذا قام احدهم يصلي لم يعد بصر احدهم موضع جبينه، فتوفي ابو بكر، وكان عمر، فكان الناس إذا قام احدهم يصلي لم يعد بصر احدهم موضع القبلة، وكان عثمان بن عفان فكانت الفتنة فتلفت الناس يمينا وشمالا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِي مُحَمَّدُ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ السَّهْمِيُّ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ بِنْتِ أَبِي أُمَيَّةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا، قَالَتْ:" كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ الْمُصَلِّي يُصَلِّي، لَمْ يَعْدُ بَصَرُ أَحَدِهِمْ مَوْضِعَ قَدَمَيْهِ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ النَّاسُ إِذَا قَامَ أَحَدُهُمْ يُصَلِّي لَمْ يَعْدُ بَصَرُ أَحَدِهِمْ مَوْضِعَ جَبِينِهِ، فَتُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ، وَكَانَ عُمَرُ، فَكَانَ النَّاسُ إِذَا قَامَ أَحَدُهُمْ يُصَلِّي لَمْ يَعْدُ بَصَرُ أَحَدِهِمْ مَوْضِعَ الْقِبْلَةِ، وَكَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَكَانَتِ الْفِتْنَةُ فَتَلَفَّتَ النَّاسُ يَمِينًا وَشِمَالًا".
ام المؤمنین ام سلمہ بنت ابی امیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب مصلی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا تو اس کی نگاہ اس کے قدموں کی جگہ سے آگے نہ بڑھتی، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، تو لوگوں کا حال یہ ہوا کہ جب کوئی ان میں سے نماز پڑھتا تو اس کی نگاہ پیشانی رکھنے کے مقام سے آگے نہ بڑھتی، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو لوگوں کا حال یہ تھا کہ ان میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا تو اس کی نگاہ قبلہ کے سوا کسی اور طرف نہ جاتی تھی، پھر عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور مسلمانوں میں فتنہ برپا ہوا تو لوگوں نے دائیں بائیں مڑنا شروع کر دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18213، ومصباح الزجاجة: 594) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں موسیٰ بن عبداللہ مجہول ہیں)

It was narrated that Umm Salamah bint Abi Umayyah, the wife of the Prophet (ﷺ), said: “At the time of the Messenger of Allah (ﷺ), if a person stood to pray, his gaze would not go beyond his feet. When the Messenger of Allah (ﷺ) died, if a person stood to pray, his gaze would not go beydon the place where he put his forehead when prostrating. Then Abu Bakr died and it was ‘Umar (the caliph). So, when any person stood to pray his gaze would not go beyond the Qiblah. Then came the time of ‘Uthman bin ‘Affan, and there was Fitnah (tribulation, turmoil), and the people started to look right and left.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
موسي بن عبد اللّٰه: مجهول (تقريب: 6982)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 438
حدیث نمبر: 1635
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا الحسن بن علي الخلال ، حدثنا عمرو بن عاصم ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس ، قال: قال ابو بكر بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمر: انطلق بنا إلى ام ايمن نزورها كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها"، قال: فلما انتهينا إليها بكت، فقالا لها:" ما يبكيك فما عند الله خير لرسوله؟"، قالت: إني لاعلم ان ما عند الله خير لرسوله، ولكن ابكي ان الوحي قد انقطع من السماء، قال: فهيجتهما على البكاء، فجعلا يبكيان معها.
(موقوف) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا"، قَالَ: فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ، فَقَالَا لَهَا:" مَا يُبْكِيكِ فَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ؟"، قَالَتْ: إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ، وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ، قَالَ: فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ، فَجَعَلَا يَبْكِيَانِ مَعَهَا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: چلئے، ہم ام ایمن (برکہ) رضی اللہ عنہا سے ملنے چلیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے جایا کرتے تھے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم ام ایمن رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے، تو وہ رونے لگیں، ان دونوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں؟ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسول کے لیے بہتر ہے، انہوں نے کہا: میں جانتی ہوں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس کے رسول کے لیے بہتر ہے، لیکن میں اس لیے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا سلسلہ بند ہو گیا، انس رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ام ایمن رضی اللہ عنہا نے ان دونوں کو بھی رلا دیا، وہ دونوں بھی ان کے ساتھ رونے لگے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18302، ومصباح الزجاجة: 595) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں نبی کریم ﷺ کے طرز عمل سے ذرہ برابر بھی انحراف کرنا گوارا نہ کیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ جن لوگوں سے ملنے جاتے ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ان سے ملنے گئے، پس ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت گویا زمانہ نبوت کی تصویر تھی اور یہی وجہ تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک اور بنو نضیر وغیرہ سے حاصل مال کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طلب پر ان کے حوالہ نہیں کیا بلکہ جس طرح نبی کریم ﷺ ان اموال کو خرچ کرتے تھے اسی طرح خرچ کرتے رہے، اور ذرہ برابر آپ ﷺ کے طریقِ کار کو بدلنا گوارا نہ کیا، اصل بات یہ ہے، نہ وہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے «معاذ اللہ» طمع ولالچ سے ایسا کیا، اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی، یہ سب لغو اور بیہودہ الزام ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ دنیا کی ایک بڑی حکومت کے سربراہ تھے، خود انہوں نے نبی کریم ﷺ پر اپنا سارا مال نچھاور کر دیا، اور آپ کی محبت میں جان کو خطرے میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا، کیا ایسے شخص کے بارے میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ کھجور کے چند درختوں کو ناحق لے لے گا اور نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی کو ناراض کرے گا؟

It was narrated that Anas said: “After the Messenger of Allah (ﷺ) had died, Abu Bakr said to ‘Umar: ‘Let us go and visit Umm Ayman as the Messenger of Allah (ﷺ) used to visit her.’ He said: ‘When we reached her she wept.’ They said: ‘Why are you weeping? What is with Allah is better for His Messenger.’ She said: ‘I know that what is with Allah is better for His Messenger, but I am weeping because the Revelation from heaven has ceased.’ She moved them to tears and they started to weep with her.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1636
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا الحسين بن علي ، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، عن ابي الاشعث الصنعاني ، عن اوس بن اوس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من افضل ايامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فاكثروا علي من الصلاة فيه، فإن صلاتكم معروضة علي"، فقال رجل: يا رسول الله، كيف تعرض صلاتنا عليك وقد ارمت، يعني: بليت؟، قال:" إن الله حرم على الارض ان تاكل اجساد الانبياء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ، يَعْنِي: بَلِيتَ؟، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ".
اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا ہوئے، اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن لوگ بیہوش ہوں گے، لہٰذا اس دن کثرت سے میرے اوپر درود (صلاۃ و سلام) بھیجا کرو، اس لیے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا؟ جب کہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کا جسم کھائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 207 (1047)، 361 (1531)، سنن النسائی/الجمعة 5 (1375)، (تحفة الأشراف: 1736)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/8)، سنن الدارمی/الصلاة 206 (1613) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Aws bin Aws that the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The best of your days is Friday. On it Adam was created; on it shall be the Nafakhah,* on it all creation will swoon. So send a great deal of blessing upon me on this day, for your blessing will be presented to me.’ A man said: “O Messenger of Allah! How will our blessing be presented to you when you have disintegrated?” He said: “Allah has forbidden the earth to consume the bodies of the Prophets.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (1047،1531) نسائي (1375) وانظر الحديث السابق (1085)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 438
حدیث نمبر: 1637
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عمرو بن سواد المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، عن عمرو بن الحارث ، عن سعيد بن ابي هلال ، عن زيد بن ايمن ، عن عبادة بن نسي ، عن ابي الدرداء ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اكثروا الصلاة علي يوم الجمعة فإنه مشهود تشهده الملائكة، وإن احدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها"، قال: قلت: وبعد الموت، قال:" وبعد الموت، إن الله حرم على الارض ان تاكل اجساد الانبياء، فنبي الله حي يرزق".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا"، قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ، قَالَ:" وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ".
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ جمعہ کے دن میرے اوپر کثرت سے درود بھیجو، اس لیے کہ جمعہ کے دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور جو کوئی مجھ پر درود بھیجے گا اس کا درود مجھ پر اس کے فارغ ہوتے ہی پیش کیا جائے گا میں نے عرض کیا: کیا مرنے کے بعد بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، مرنے کے بعد بھی، بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کا جسم کھائے، اللہ کے نبی زندہ ہیں ان کو روزی ملتی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10947، ومصباح الزجاجة: 596) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں زید بن ایمن اور عبادہ کے درمیان نیز عبادہ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن اکثر متن حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1/ 35، تراجع الألبانی: رقم: 560)

وضاحت:
۱؎: یعنی جنت کے کھانے ان کو کھلائے جاتے ہیں جو روحانی ہیں، یہاں زندگی سے دنیوی زندگی مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ دنیاوی زندگی قبر کے اندر قائم نہیں رہ سکتی، یہ برزخی زندگی ہے جس میں اور دنیاوی زندگی میں فرق ہے، مگر ہر حال میں نبی کریم ﷺ اپنی قبر شریف کے پاس درود و سلام سنتے ہیں، بلکہ یہ برزخی زندگی بہت باتوں میں دنیاوی زندگی سے زیادہ قوی اور بہتر ہے، «صلے اللہ علیہ وسلم وآلہ واصحابہ وبارک وسلم تسلیما کثیراً»

It was narrated from Abu Darda’ that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “Send a great deal of blessing upon me on Fridays, for it is witnessed by the angels. No one sends blessing upon me but his blessing will be presented to me, until he finishes them.” A man said: “Even after death?” He said: “Even after death, for Allah has forbidden the earth to consume the bodies of the Prophets, so the Prophet of Allah is alive and receives provision.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن غالبه فيما قبله

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال البخاري: ”زيد بن أيمن عن عبادة بن نسي مرسل“ (التاريخ الكبير 387/2)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 438

Previous    17    18    19    20    21    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.