(موقوف) حدثنا الحسن بن علي الخلال ، حدثنا عمرو بن عاصم ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس ، قال: قال ابو بكر بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمر: انطلق بنا إلى ام ايمن نزورها كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها"، قال: فلما انتهينا إليها بكت، فقالا لها:" ما يبكيك فما عند الله خير لرسوله؟"، قالت: إني لاعلم ان ما عند الله خير لرسوله، ولكن ابكي ان الوحي قد انقطع من السماء، قال: فهيجتهما على البكاء، فجعلا يبكيان معها. (موقوف) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا"، قَالَ: فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ، فَقَالَا لَهَا:" مَا يُبْكِيكِ فَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ؟"، قَالَتْ: إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ، وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ، قَالَ: فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ، فَجَعَلَا يَبْكِيَانِ مَعَهَا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: چلئے، ہم ام ایمن (برکہ) رضی اللہ عنہا سے ملنے چلیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے جایا کرتے تھے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم ام ایمن رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے، تو وہ رونے لگیں، ان دونوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں؟ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسول کے لیے بہتر ہے، انہوں نے کہا: میں جانتی ہوں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس کے رسول کے لیے بہتر ہے، لیکن میں اس لیے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا سلسلہ بند ہو گیا، انس رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ام ایمن رضی اللہ عنہا نے ان دونوں کو بھی رلا دیا، وہ دونوں بھی ان کے ساتھ رونے لگے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں نبی کریم ﷺ کے طرز عمل سے ذرہ برابر بھی انحراف کرنا گوارا نہ کیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ جن لوگوں سے ملنے جاتے ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ان سے ملنے گئے، پس ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت گویا زمانہ نبوت کی تصویر تھی اور یہی وجہ تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک اور بنو نضیر وغیرہ سے حاصل مال کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طلب پر ان کے حوالہ نہیں کیا بلکہ جس طرح نبی کریم ﷺ ان اموال کو خرچ کرتے تھے اسی طرح خرچ کرتے رہے، اور ذرہ برابر آپ ﷺ کے طریقِ کار کو بدلنا گوارا نہ کیا، اصل بات یہ ہے، نہ وہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے «معاذ اللہ» طمع ولالچ سے ایسا کیا، اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی، یہ سب لغو اور بیہودہ الزام ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ دنیا کی ایک بڑی حکومت کے سربراہ تھے، خود انہوں نے نبی کریم ﷺ پر اپنا سارا مال نچھاور کر دیا، اور آپ کی محبت میں جان کو خطرے میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا، کیا ایسے شخص کے بارے میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ کھجور کے چند درختوں کو ناحق لے لے گا اور نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی کو ناراض کرے گا؟
It was narrated that Anas said:
“After the Messenger of Allah (ﷺ) had died, Abu Bakr said to ‘Umar: ‘Let us go and visit Umm Ayman as the Messenger of Allah (ﷺ) used to visit her.’ He said: ‘When we reached her she wept.’ They said: ‘Why are you weeping? What is with Allah is better for His Messenger.’ She said: ‘I know that what is with Allah is better for His Messenger, but I am weeping because the Revelation from heaven has ceased.’ She moved them to tears and they started to weep with her.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1635
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) حضرت ام ایمن کا تعلق حبشہ سے تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے والد محترم کی خدمت گار تھیں۔ رسول اللہ ﷺکے بچپن کے ایام میں آپ ﷺ کی پرورش اور نگہداشت میں ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھی بڑا حصہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں آزاد کرکے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کردیا تھا۔ دیکھئے: (ریاض الصالحین کے فوائد ازحافظ صلاح الدین یوسف حدیث: 361) ۔
(2) نیک لوگوں کی ملاقات کےلئے جانامستحب ہے۔
(3) جن حضرات سے بزرگوں کے خوش گوار تعلقات رہے ہوں۔ اولاد اور دوسرے متعلقین کو بھی یہ تعلقات قائم رکھنے چاہیں۔
(4) رسول اللہ ﷺ کے پیاروں سے محبت رسول اللہﷺ سے محبت میں شامل ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو نبی کریمﷺ سے جو محبت تھی اس کی وجہ سے ان کے دل میں آپ کے متعلقین کی بھی محبت پائی جاتی تھی۔
(5) عرصہ دراز کے بعد بھی فوت شدہ کی یاد آنے پر رونا آ جائے تو یہ صبر کے منافی نہیں۔
(6) غم زدہ کو تسلی دینا مسنون ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تسلی دینے کےلئے فرمایا کہ جنت کی نعمتیں دنیا سے بہتر ہیں۔
(7) وحی اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہے۔ جس کی وجہ سے انسانوں کو ہدایت نصیب ہوئی اور وہ جہنم کے عذابوں سے بچ کر جنت کی گوناگوں نعمتوں اور بلند درجات سے سرفراز ہوئے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1635