عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی عورتوں سے باتیں کرنے اور ان سے بہت زیادہ بےتکلف ہونے سے پرہیز کرتے تھے کہ ہمارے سلسلے میں کہیں قرآن نہ اتر جائے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو ہم باتیں کرنے لگے۔
It was narrated that Ibn ‘Umar said:
“We used to be guarded in our speech even with our wives at the time of the Messenger of Allah (ﷺ), fearing that Qur’an may be revealed amongst us, but when the Messenger of Allah (ﷺ) died, we began to speak freely.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1632
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دل میں نبی اکرمﷺ کے احترام اور محبت کا اظہار ہوتا ہے کہ بات کرتے ہوئے بھی احتیاط کرتے تھے۔
(2) صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا ایمان اس قدر قوی تھا کہ آپﷺ کی مجلس ہی میں نہیں بلکہ گھروں میں تنہائی میں بھی اپنے اقوال وافعال میں اسی طرح محتاط رہتے تھے۔
(3) صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ نبی کریمﷺ براہ راست ہماری باتیں سن رہے ہیں۔ اور ہمارے اعمال دیکھ رہے ہیں بلکہ یہ عقیدہ تھا کہ آپ ﷺ کو وحی کے ذریعے سے ہمارے اعمال کی اطلاع ہوسکتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1632