عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی مصیبت زدہ کو تسلی دے، تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا (جتنا مصیبت زدہ کو ملے گا)“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 72 (1073)، (تحفة الأشراف: 9166) (ضعیف)» (سند میںعلی بن عاصم ضعیف ہے، ابن الجوزی نے اس حدیث کو الموضوعات میں داخل کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 765)
It was narrated that ‘Abdullah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever consoles a person stricken by calamity will have a reward equal to his.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1073) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 436
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے تین بچے انتقال کر جائیں، وہ جہنم میں داخل نہیں ہو گا مگر قسم پوری کرنے کے لیے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے جو اللہ تعالی نے اس آیت میں کیا ہے، «وَإِن مِّنكُمْ إِلا وَارِدُهَا»(سورة مريم: 71) یعنی کوئی تم میں سے ایسا نہیں ہے جس کا گزر جہنم سے نہ ہو، اور یہ وعدہ تب ہے کہ وہ ان بچوں کی موت پر صبر کرے۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Prophet (ﷺ) said:
“No man who loses three of his children will ever enter the Fire, except in fulfillment of the oath (of Allah).”*
عتبہ بن عبد سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس مسلمان کے تین بچے (بلوغت سے پہلے) مر جائیں، تو وہ اس کو جنت کے آٹھوں دروازوں سے استقبال کریں گے، جس میں سے چاہے وہ داخل ہو ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9754، ومصباح الزجاجة: 581)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/183، 184) (حسن)» (لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، شرحبیل بن شفعہ مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی باپ کو اختیار ہو گا کہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس دروازہ سے چاہے اندر جائے، اس کے چھوٹے بچے جو بچپن میں مر گئے تھے اس کو اندر لے جائیں گے، اور اس دروازہ پر اپنے باپ سے ملیں گے، سبحان اللہ اولاد کا مرنا بھی مومن کے لئے کم نعمت نہیں ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، نووی کہتے ہیں کہ معتبر اہل اسلام نے اس پر اجماع کیا ہے، اور بعض نے اس کے بارے میں توقف کیا ہے۔
‘Utbah bin ‘Abd Sulami said:
“I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘There is no Muslim, three of whose children die before reaching the age of puberty, but they will meet him at the eight gates of Paradise and whichever one he wants he will enter through it.’”
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان مرد و عورت کے تین بچے (بلوغت سے پہلے) مر جائیں، تو اللہ تعالیٰ ایسے والدین اور بچوں کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا“۔
It was narrated from Anas bin Malik that the Prophet (ﷺ) said:
“There are no two Muslims (mother and father), three of whose children die before reaching the age of puberty, but Allah will admit them to Paradise by virtue of His mercy towards them.”
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا إسحاق بن يوسف ، عن العوام بن حوشب ، عن ابي محمد مولى عمر بن الخطاب، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قدم ثلاثة من الولد لم يبلغوا الحنث كانوا له حصنا حصينا من النار"، فقال ابو ذر: قدمت اثنين، قال:" واثنين"، فقال ابي بن ابو المنذر كعب سيد القراء قدمت واحدا، قال:" وواحدا". (مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَدَّمَ ثَلَاثَةً مِنَ الْوَلَدِ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ كَانُوا لَهُ حِصْنًا حَصِينًا مِنَ النَّارِ"، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدَّمْتُ اثْنَيْنِ، قَالَ:" وَاثْنَيْنِ"، فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ أَبُو المُنْذرِ كَعْبٍ سَيِّدُ الْقُرَّاءِ قَدَّمْتُ وَاحِدًا، قَالَ:" وَوَاحِدًا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے تین نابالغ بچے آگے بھیجے، تو وہ اس کے لیے جہنم سے بچاؤ کا مضبوط قلعہ ہوں گے“ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے دو بچے آگے بھیجے ہیں، آپ نے فرمایا: ”اور دو بھی“، پھر قاریوں کے سردار ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے تو ایک ہی آگے بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور ایک بھی“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 65 (1061)، (تحفة الأشراف: 9634)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/375، 429، 451) (ضعیف)» (سند میں ابو محمد مجہول ہیں)
It was narrated from ‘Abdullah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Whoever sends fourth three of his children who had not reached the age of puberty, they will be a strong fortification for him against the Fire.” Abu Dharr said: “I sent forth two.” He said: “And two” Ubayy bin Ka’b, the chief of the reciters, said: “I sent forth one.” He said: “Even one.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1061) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 436
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ناتمام بچہ جسے میں آگے بھیجوں، میرے نزدیک اس سوار سے زیادہ محبوب ہے جسے میں پیچھے چھوڑ جاؤں ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14831، ومصباح الزجاجة: 582) (ضعیف)» (یزید بن رومان کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، اور یزید بن عبد الملک ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4307)
وضاحت: ۱؎: عربی میں «سقط» اس ادھورے اور ناقص بچے کو کہتے ہیں جو مدت حمل تمام ہونے سے پہلے پیدا ہو اور اس کے اعضاء پورے نہ بنے ہوں، اکثر ایسا بچہ پیدا ہوکر اسی وقت یا دو تین دن کے بعد مر جاتا ہے۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
‘A miscarried fetus sent before me is dearer to me than a horseman whom I leave behind.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يزيد بن عبدالملك:ضعيف (تقريب: 7751) وقال الھيثمي: وھو متروك ضعفه جمھور الأئمة (مجمع الزوائد 91/4) و قال: و قد ضعفه أكثر الناس (أيضًا1/ 245) و يزيد بن رومان لم يدرك أبا هريرة رضي اللّٰه عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 436
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساقط بچہ اپنے رب سے جھگڑا کرے گا ۱؎، جب وہ اس کے والدین کو جہنم میں ڈالے گا، تو کہا جائے گا: رب سے جھگڑنے والے ساقط بچے! اپنے والدین کو جنت میں داخل کر، وہ ان دونوں کو اپنی ناف سے کھینچے گا یہاں تک کہ جنت میں لے جائے گا ۱؎“۔ ابوعلی کہتے ہیں: «يُراغم ربه» کے معنی ( «یغاضب») یعنی اپنے رب سے جھگڑا کرنے کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10132، ومصباح الزجاجة: 583) (ضعیف)» (اس کی سند میں مندل بن علی ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: جھگڑا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے با اصرار سفارش کرے گا، اور اپنے والدین کو بخشوانے کی جی جان سے کوشش کرے گا یہاں تک کہ اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔
It was narrated that ‘Ali said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The miscarried fetus will plead with his Lord if his parents are admitted to Hell. It will be said: “O fetus who pleads with your Lord! Admit your parents to Paradise.” So he will drag them out with his umbilical cord until he admits them to Paradise.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مندل: ضعيف وأسماء:لا يعرف حالھا (تقريب: 8529) والسند ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 436
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ساقط بچہ اپنی ماں کو اپنی ناف سے جنت میں کھینچے گا جب کہ وہ ثواب کی نیت سے صبر کرے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11330، ومصباح الزجاجة: 584)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/241) (صحیح)» (لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، اس کی سند میں یحییٰ بن عبید اللہ بن موھب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 597)
It was narrated from Mu’adh bin Jabal that the Prophet (ﷺ) said:
“By the One in Whose Hand is my soul! The miscarried fetus will drag his mother by his umbilical cord to Paradise, if she (was patient and) sought reward (for her loss).”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف وقال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،لإتفاقھم علي ضعف يحيي بن عبيد اللّٰه بن عبد اللّٰه بن موهب“ متروك (ترمذي:1929) وللحديث شواهد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 437
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جعفر کی موت کی جب خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کے پاس ایسی خبر آئی ہے جس نے ان کو مشغول کر دیا ہے، یا ان کے پاس ایسا معاملہ آ پڑا ہے جو ان کو مشغول کئے ہوئے ہے“۔
It was narrated that ‘Abdullah bin Ja’far said:
“When news of the death of Ja’far was brought, the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Prepare food for the family of Ja’far, for there has come to them that which is keeping them busy or something which is keeping them busy.”
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب جعفر رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے پاس آئے، اور فرمایا: ”جعفر کے گھر والے اپنی میت کے مسئلہ میں مشغول ہیں، لہٰذا تم لوگ ان کے لیے کھانا بناؤ“۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ طریقہ برابر چلا آ رہا تھا یہاں تک کہ اس میں بدعت آ داخل ہوئی، تو اسے چھوڑ دیا گیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1576، ومصباح الزجاجة: 585)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/370) (حسن)» (سند میں ام عیسیٰ اور ام عون مجہول ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ میت والوں کو کھانا بھیجنا پہلے سنت تھا پھر لوگوں نے اس میں فخر و مباہات کے جذبہ سے تکلف شروع کیا اور بلاضرورت انواع و اقسام کے کھانے پکا کر بھیجنے لگے، دوسرے یہ کہ میت والوں کے پاس ساری برادری اور کنبے والوں نے جمع ہونا شروع کیا، اور کھانا بھیجنے والوں کو ان سب لوگوں کے موافق کھانا بھیجنا پڑا۔ اس لئے یہ امر بدعت سمجھ کر ترک کر دیا گیا، چنانچہ امام احمد اور ابن ماجہ نے باسناد صحیح جریر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ہم میت والوں کے پاس جمع ہونا، اور میت کے دفن کے بعد کھانا بھیجنا دونوں کو نوحہ میں شمار کرتے تھے، اس پر بھی صحابی یا تابعی کا قول حدیث مرفوع کے مقابل نہیں ہو سکتا، اور محدثین نے میت والوں کے پاس کھانا بھیجنا مستحب رکھا ہے۔ «واللہ اعلم» ۔
Asma’ bint ‘Umais said:
“When Ja’far was killed, the Messenger of Allah (ﷺ) went to his family and said: ‘The family of Ja’far are busy with the matter of their deceased, so prepare food for them.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أم عون: مقبولة (مستورة الحال) وأم عيسي (الخزاعية) الجزار: لا يعرف حالھا (تقريب:8750،8754) والحديث السابق (الأصل: 1610) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 437