سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
58. بَابُ : مَا جَاءَ فِيمَنْ أُصِيبَ بِسِقْطٍ
باب: حمل ساقط ہو جانے والی عورت کا ثواب۔
حدیث نمبر: 1607
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ النَّوْفَلِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَسِقْطٌ أُقَدِّمُهُ بَيْنَ يَدَيَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ فَارِسٍ أُخَلِّفُهُ خَلْفِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ناتمام بچہ جسے میں آگے بھیجوں، میرے نزدیک اس سوار سے زیادہ محبوب ہے جسے میں پیچھے چھوڑ جاؤں ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14831، ومصباح الزجاجة: 582) (ضعیف)» (یزید بن رومان کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، اور یزید بن عبد الملک ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4307)
وضاحت: ۱؎: عربی میں «سقط» اس ادھورے اور ناقص بچے کو کہتے ہیں جو مدت حمل تمام ہونے سے پہلے پیدا ہو اور اس کے اعضاء پورے نہ بنے ہوں، اکثر ایسا بچہ پیدا ہوکر اسی وقت یا دو تین دن کے بعد مر جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
يزيد بن عبدالملك:ضعيف (تقريب: 7751)
وقال الھيثمي: وھو متروك ضعفه جمھور الأئمة (مجمع الزوائد 91/4)
و قال: و قد ضعفه أكثر الناس (أيضًا1/ 245)
و يزيد بن رومان لم يدرك أبا هريرة رضي اللّٰه عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 436
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1607 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1607
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
آگے بھیجنے سے مراد بچے کا فوت ہونا ہے۔
وقت سے پہلے پیدا ہونے والا بچہ زندہ نہیں رہتا یا فوت شدہ پیدا ہوتا ہے۔
اس پر صبر کا بھی ثواب ہے۔
جیسے دوسری صحیح احادیث میں مذکور ہے۔
سوار پیچھے چھوڑنے سے مراد یہ ہے کہ انسان فوت ہو تو اس کا جواں بیٹا موجود ہو جو گھوڑے پر سوار ہوکر جہاد میں شریک ہوسکے۔
یہ روایت ضعیف ہے۔
تاہم صحیح الخلقت بچے کی وفات کا اجر صحیح احادیث سےثابت ہے۔
کوئی بعید نہیں صبر واحتساب کرنے پر بھی اللہ تعالیٰ تام الخلقت والا اجر عطا فرمادے۔
وما ذلک علی اللہ بعزیز۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1607