جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے چودہویں کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: ”عنقریب تم لوگ اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو کہ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو رہی ہے، لہٰذا اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز سے پیچھے نہ رہو تو ایسا کرو“۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب»”اپنے رب کی تسبیح و تحمید بیان کیجئے سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے“(سورة ق: 39)۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اہل ایمان کے لئے جنت میں اللہ تعالیٰ کی رویت ثابت ہوتی ہے، نیز اللہ رب العزت کے لئے علو اور بلندی کی صفت کہ وہ سب سے اوپر آسمان کے اوپر ہے، نیز اس حدیث سے فجر اور عصر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، آیت کریمہ میں تسبیح سے مراد صلاۃ (نماز) ہے۔
It was narrated that Jarir bin 'Abdullah said:
"We were sitting with the Messenger of Allah. He looked at the moon, which was full, and said, 'Indeed, you will see your Lord as you see this moon. You will not feel the slightest inconvenience and overcrowding in seeing Him. If you have the power not to be overcome and to say this prayer before the sun rises and before it sets, then do that.' Then he recited: "And glorify the praises of your Lord, before the rising of the sun and before (its) setting."
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں چودھویں رات کو چاند دیکھنے میں مشقت ہوتی ہے“؟ صحابہ نے کہا: جی نہیں، فرمایا: ”اسی طرح قیامت کے دن تمہیں اپنے رب کی زیارت میں کوئی مشکل نہیں ہو گی“۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
"The Messenger of Allah said: 'Do you crowd one another in order to see the moon on the night when it is full?' They said: 'No.' He said: 'And you will not crowd one another in order to see your Lord on the Day of Resurrection.'"
(قدسي) حدثنا محمد بن العلاء الهمداني ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن الاعمش ، عن ابي صالح السمان ، عن ابي سعيد ، قال: قلنا: يا رسول الله انرى ربنا؟ قال:" تضامون في رؤية الشمس في الظهيرة في غير سحاب"، قلنا: لا، قال:" فتضارون في رؤية القمر ليلة البدر في غير سحاب"، قالوا: لا، قال:" إنكم لا تضارون في رؤيته إلا كما تضارون في رؤيتهما". (قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَرَى رَبَّنَا؟ قَالَ:" تَضَامُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي الظَّهِيرَةِ فِي غَيْرِ سَحَابٍ"، قُلْنَا: لَا، قَالَ:" فَتَضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فِي غَيْرِ سَحَابٍ"، قَالُوا: لَا، قَالَ:" إِنَّكُمْ لَا تَضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ إِلَّا كَمَا تَضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِمَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ٹھیک دوپہر میں سورج دیکھنے میں کوئی دقت اور پریشانی محسوس کرتے ہو جبکہ کوئی بدلی نہ ہو؟“، ہم نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم چودہویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی رکاوٹ محسوس کرتے ہو جبکہ کوئی بدلی نہ ہو؟“، ہم نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج و چاند کو دیکھنے کی طرح تم اپنے رب کے دیدار میں بھی ایک دوسرے سے مزاحمت نہیں کرو گے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4019)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/16) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے بھی اللہ تعالیٰ کے لئے صفت علو اور مومنین کے لئے اس کی رؤیت ثابت ہوتی ہے، اور اس میں جہمیہ اور معتزلہ دونوں کا ردو ابطال ہوا، جو اہل ایمان کے لئے اللہ تعالی کی رؤیت نیز اللہ تعالیٰ کے لئے علو اور بلندی کی صفت کے منکر ہیں۔
It was narrated that Abu Sa'eed said:
"We said: 'O Messenger of Allah! Will we see our Lord?' He said: 'Do you crowd one another to see the sun at mid-day when there are no clouds?' We said: 'No.' He said: 'Do you crowd one another to see the moon on the night when it is full and there are no clouds?' We said: 'No.' He said: 'You will not crowd one another to see Him, just as you do not crowd to see these two things.'"
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن دیکھیں گے؟ اور اس کی اس کے مخلوق میں کیا نشانی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابورزین! کیا تم میں سے ہر ایک چاند کو اکیلا بلا کسی روک ٹوک کے نہیں دیکھ لیتا ہے؟“، میں نے کہا: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس سے زیادہ عظیم ہے، اور اس کی مخلوق میں یہ (چاند) اس کے دیدار کی ایک نشانی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/السنة 20 (4731)، (تحفة الأشراف: 11175)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (حسن)» (وکیع بن حدس مقبول عند المتابعہ ہیں، او ران کی متابعت موجود ہے، ملاحظہ ہو: السنة لابن أبی عاصم (468)، شیخ الاسلام ابن تیمیة وجھودہ فی الحدیث وعلومہ (38) للدکتور عبد الرحمن الفریوائی)
Waki' bin Hudus narrated that his paternal uncle Abu Razin said:
"I said: 'O Messenger of Allah, will we see Allah on the Day of Resurrection? And what is the sign of that in His creation?' He said: 'O Abu Razin, do each of you not see the moon individually?' I said: 'Of course.' He said: 'Allah is Greater, and that is His sign in His creation.'"
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا رب اپنے بندوں کے مایوس ہونے سے ہنستا ہے جب کہ اللہ کی طرف سے ان کی حالت بدلنے کا وقت قریب ہوتا ہے“، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا رب ہنستا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، تو میں نے عرض کیا: تب تو ہم ایسے رب کے خیر سے ہرگز محروم نہ رہیں گے جو ہنستا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11180، ومصباح الزجاجة: 68)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (حسن) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2810)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت ضحک کا اثبات ہوتا ہے، اور اس کا ہنسنا ایسا ہے جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔
Waki' bin Hudus narrated that his paternal uncle Abu Razin said:
"The Messenger of Allah said: 'Allah laughs at the despair of His slaves although He soon changes it.' I said: 'O Messenger of Allah, does the Lord laugh?' He said: 'Yes.' I said: 'We shall never be deprived of good by a Lord Who laughs.'"
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا رب اپنی مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بادل میں تھا، نہ تو اس کے نیچے ہوا تھی نہ اوپر ہوا تھی، اور نہ ہی وہاں کوئی مخلوق تھی، (پھر پانی پیدا کیا) اور اس کا عرش پانی پہ تھا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 12 (3109)، (تحفة الأشراف: 11176)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (ضعیف)» (حدیث کی سند میں مذکور راوی وکیع بن حدس مجہول الحال ہیں، نیزملاحظہ ہو: ظلال الجنة: 612)
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «عماء» کا لفظ آیا ہے جس کے معنی اگر «بالمد» ہو تو «سحاب رقیق»(بدلی) کے ہوتے ہیں، اور «بالقصر» ہو تو اس کے معنی «لاشیء» کے ہوتے ہیں، بعض اہل لغت نے «العماء» بالقصر کے معنی ایسے امر کے کئے ہیں جو عقل اور ادراک سے ماوراء ہو، حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت فوقیت و علو ثابت ہوئی، کیفیت مجہول ہے۔
Waki' bin Hudus narrated that his paternal uncle Abu Razin said:
"I said: 'O Messenger of Allah, where was our Lord before He created His creation?' He said: He was above the clouds, below which was air, and above which was air and water. Then He created His Throne above the water.'"
(قدسي) حدثنا حميد بن مسعدة ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن صفوان بن محرز المازني ، قال: بينما نحن مع عبد الله بن عمر، وهو يطوف بالبيت إذ عرض له رجل، فقال: يا ابن عمر كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر في النجوى؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" يدنى المؤمن من ربه يوم القيامة حتى يضع عليه كنفه ثم يقرره بذنوبه، فيقول:" هل تعرف"، فيقول: يا رب اعرف، حتى إذا بلغ منه ما شاء الله ان يبلغ، قال:" إني سترتها عليك في الدنيا وانا اغفرها لك اليوم"، قال:" ثم يعطى صحيفة حسناته، او كتابه بيمينه"، قال:" واما الكافر، او المنافق فينادى على رءوس الاشهاد"، قال خالد: في الاشهاد شيء من انقطاع هؤلاء الذين كذبوا على ربهم الا لعنة الله على الظالمين سورة هود آية 18. (قدسي) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ الْمَازِنِيِّ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ إِذْ عَرَضَ لَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ فِي النَّجْوَى؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يُدْنَى الْمُؤْمِنُ مِنْ رَبِّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ ثُمَّ يُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ، فَيَقُولُ:" هَلْ تَعْرِفُ"، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَعْرِفُ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ مِنْهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَبْلُغَ، قَالَ:" إِنِّي سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ"، قَالَ:" ثُمَّ يُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ، أَوْ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ"، قَالَ:" وَأَمَّا الْكَافِرُ، أَوِ الْمُنَافِقُ فَيُنَادَى عَلَى رُءُوسِ الْأَشْهَادِ"، قَالَ خَالِدٌ: فِي الْأَشْهَادِ شَيْءٌ مِنَ انْقِطَاعٍ هَؤُلاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ سورة هود آية 18.
صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں: اس اثناء میں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھے، اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اچانک ایک شخص سامنے آیا، اور اس نے کہا: ابن عمر! آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «نجویٰ»(یعنی اللہ کا اپنے بندے سے قیامت کے دن سرگوشی کرنے) کے بارے میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مومن اپنے رب سے قیامت کے دن قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا، (تاکہ اس سرگوشی سے دوسرے باخبر نہ ہو سکیں)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا، اور فرمائے گا: کیا تم (اس گناہ کو) جانتے ہو؟ وہ بندہ کہے گا: اے رب! میں جانتا ہوں، یہاں تک کہ جب مومن اپنے جملہ گناہوں کا اقرار کر لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں ان گناہوں کی پردہ پوشی کی اور آج میں ان کو بخشتا ہوں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ یا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہے کافر و منافق تو ان کو حاضرین کے سامنے پکارا جائے گا (راوی خالد کہتے ہیں کہ «الأشهاد» میں کچھ انقطاع ہے): یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا، سن لو! اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر (سورۃ ہود: ۱۸)“۱؎۔
It was narrated that Safwan bin Muhriz Al-Mazini said:
"We were with 'Abdullah bin 'Umar when he was circumambulating the House; a man came up to him and said: 'O Ibn 'Umar, what did you hear the Messenger of Allah say about the Najwa?' He said: 'I heard the Messenger of Allah say: 'On the Day of Resurrection, the believer will be brought close to his Lord until He will cover him with His screen, then He will make him confess his sins. He will ask him: "Do you confess?" He will say: "O Lord, I confess." This will continue as long as Allah wills, then He will say: "I concealed them for you in the world, and I forgive you for them today." Then he will be given the scroll of his good deeds, or his record, in his right hand. But as for the disbeliever or the hypocrite, (his sins) will be announced before the witnesses.' " (One of the narrators) Khalid said: "At: 'before the witnesses' there is something missing." "These are the ones who lied against their Lord!' No doubt! The curse of Allah is on the wrongdoers."
(قدسي) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب ، حدثنا ابو عاصم العباداني ، حدثنا الفضل الرقاشي ، عن محمد بن المنكدر ، عن جابر بن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بينا اهل الجنة في نعيمهم إذ سطع لهم نور فرفعوا رءوسهم، فإذا الرب قد اشرف عليهم من فوقهم، فقال:" السلام عليكم يا اهل الجنة، قال: وذلك قول الله سلام قولا من رب رحيم سورة يس آية 58 قال: فينظر إليهم وينظرون إليه، فلا يلتفتون إلى شيء من النعيم ما داموا ينظرون إليه حتى يحتجب عنهم ويبقى نوره وبركته عليهم في ديارهم". (قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الْعَبَّادَانِيُّ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ الرَّقَاشِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْنَا أَهْلُ الْجَنَّةِ فِي نَعِيمِهِمْ إِذْ سَطَعَ لَهُمْ نُورٌ فَرَفَعُوا رُءُوسَهُمْ، فَإِذَا الرَّبُّ قَدْ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ مِنْ فَوْقِهِمْ، فَقَالَ:" السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، قَالَ: وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ سَلامٌ قَوْلا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ سورة يس آية 58 قَالَ: فَيَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، فَلَا يَلْتَفِتُونَ إِلَى شَيْءٍ مِنَ النَّعِيمِ مَا دَامُوا يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ حَتَّى يَحْتَجِبَ عَنْهُمْ وَيَبْقَى نُورُهُ وَبَرَكَتُهُ عَلَيْهِمْ فِي دِيَارِهِمْ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس درمیان کہ اہل جنت اپنی نعمتوں میں ہوں گے، اچانک ان پر ایک نور چمکے گا، وہ اپنے سر اوپر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ ان کا رب ان کے اوپر سے جھانک رہا ہے، اور فرما رہا ہے: ”اے جنت والو! تم پر سلام ہو“، اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے قول: «سلام قولا من رب رحيم»(سورة يس: 58) کا ”رحيم (مہربان) رب کی طرف سے (اہل جنت کو) سلام کہا جائے گا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک باری تعالیٰ کے دیدار کی نعمت ان کو ملتی رہے گی وہ کسی بھی دوسری نعمت کی طرف مطلقاً نظر نہیں اٹھائیں گے، پھر وہ ان سے چھپ جائے گا، لیکن ان کے گھروں میں ہمیشہ کے لیے اس کا نور اور برکت باقی رہ جائے گی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3067، ومصباح الزجاجة: 69) (ضعیف)» (ابوعاصم العبادانی منکر الحدیث اور الفضل بن عیسیٰ بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، نیزملاحظہ ہو: المشکاة: 5664)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں کئی طرح سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ جہت علو میں ہے، نیز کلام اللہ کا حروف و اصوات پر مشتمل ہونا، اور قابل سماع ہونا بھی ثابت ہوا کہ جنتی جنت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، جہمیہ اللہ رب العزت کی رؤیت کے منکر ہیں، ان کا مذہب باطل ہے۔
It was narrated that Jabor bin 'Abdullah said:
"The Messenger of Allah said: 'While the people of Paradise are enjoying their blessings, a light will shine upon them, and they will raise their heads, and they will see their Lord looking upon them from above. He will say: "Peace be upon you, O people of Paradise." This is what Allah says in the Verse: "Salam (peace be upon you) - a Word from the Lord (Allah), The Most Merciful." He will look at them, and they will look at Him, and they will not pay any attention to the delights (of Paradise) so long as they look at Him, until He will screen Himself from them. But His light and blessing will remain with them in their bodies.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الفضل الرقاشي: منكر الحديث ورمي بالقدر (تقريب: 5413) وقال أيوب السختياني رحمه اللّٰه: ”لو ولد أخرس،كان خيرًا له“ (كتاب الضعفاء للبخاري بتحقيقي: 306 وسنده صحيح) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 381
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، عن الاعمش ، عن خيثمة ، عن عدي بن حاتم ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما منكم من احد إلا سيكلمه ربه ليس بينه وبينه ترجمان، فينظر عن ايمن منه فلا يرى إلا شيئا قدمه، ثم ينظر عن ايسر منه فلا يرى إلا شيئا قدمه، ثم ينظر امامه فتستقبله النار فمن استطاع منكم ان يتقي النار ولو بشق تمرة فليفعل". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ عَنْ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ عَنْ أَيْسَرَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ أَمَامَهُ فَتَسْتَقْبِلُهُ النَّارُ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَّقِيَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص سے اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) بغیر کسی ترجمان کے ہم کلام ہو گا ۱؎، بندہ اپنی دائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو اپنے آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر بائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر اپنے آگے دیکھے گا تو جہنم اس کے سامنے ہو گی پس جو جہنم سے بچ سکتا ہو چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کو اللہ کی راہ میں دے کر تو اس کو ضرور ایسا کرنا چاہیئے“۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ جب جنت میں لوگ داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان کوئی حجاب (پردہ) نہ ہو گا، اس کی طرف نظر کرنے سے صرف اس ذات مقدس کی عظمت و کبریائی اور جلال و ہیبت ہی مانع ہو گا، پھر جب اللہ عزوجل ان پر اپنی رافت اور رحمت اور فضل و امتنان کا اظہار کرے گا تو وہ رکاوٹ دور ہو جائے گی، اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا شرف حاصل کر لیں گے۔
It was narrated that 'Adi bin Hatim said:
"The Messenger of Allah said: 'There is no one among you but his Lord will speak to him without any intermediary between them. He will look to his right and will not see anything but that which he sent forth. He will look to his left and will not see anything but that which he sent forth. Then he will look in front of him and will be faced with the Fire. So whoever among you can protect himself from fire, even by means of half a date, let him do so.'"
ابوموسیٰ اشعری (عبداللہ بن قیس) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ساری چیزیں چاندی کی ہیں، اور دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ان کی ساری چیزیں سونے کی ہیں، جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف اس کے چہرے پہ پڑی کبریائی کی چادر ہو گی جو دیدار سے مانع ہو گی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا مقصد بھی یہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کی رؤیت میں رکاوٹ اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی ہیبت اور اس کا جلال ہو گا، جس کے سبب کسی کو اس کی طرف نظر اٹھانے کی ہمت نہ ہو گی، لیکن جب اس کی رحمت و رأفت اور اس کے فضل و کرم کا ظہور ہو گا تو یہ رکاوٹ دور ہو جائے گی، اور اہل ایمان اس کی رؤیت کی نعمت سے سرفراز ہو جائیں گے، اس حدیث میں فرقۂ جہمیہ کا بڑا واضح اور بلیغ رد ہے جو رؤیت باری تعالیٰ کے منکر ہیں۔
Abu Bakr bin Qais Al-Ash'ari narrated that his father said:
"The Messenger of Allah said: 'Two gardens of silver, their vessels and everything in them; and two gardens of gold, their vessels and everything in them, and nothing between the people and their seeing their Lord, the Blessed and Exalted, except the Veil of Pride covering His Face in the Garden of Eden (Jannat 'Adn)."