(قدسي) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، ومحمد بن فضيل ، وابو معاوية . ح وحدثنا علي بن ميمون الرقي ، حدثنا ابو معاوية ، ومحمد بن عبيد ، عن الاعمش ، عن زيد بن وهب ، قال: قال عبد الله بن مسعود ، حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو الصادق المصدوق، انه يجمع خلق احدكم في بطن امه اربعين يوما، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث الله إليه الملك فيؤمر باربع كلمات، فيقول:" اكتب عمله، واجله، ورزقه، وشقي ام سعيد" فوالذي نفسي بيده، إن احدكم ليعمل بعمل اهل الجنة حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع، فيسبق عليه الكتاب، فيعمل بعمل اهل النار فيدخلها، وإن احدكم ليعمل بعمل اهل النار حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع، فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل اهل الجنة فيدخلها". (قدسي) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ، أَنَّهُ يُجْمَعُ خَلْقُ أَحَدِكُمْ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ الْمَلَكَ فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَيَقُولُ:" اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَأَجَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ" فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو صادق و مصدوق (یعنی جو خود سچے ہیں اور سچے مانے گئے ہیں) نے بیان کیا کہ ”پیدائش اس طرح ہے کہ تم میں سے ہر ایک کا نطفہ خلقت ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر وہ چالیس دن تک جما ہوا خون رہتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس چار باتوں کا حکم دے کر ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس فرشتہ سے کہتا ہے: اس کا عمل، اس کی مدت عمر، اس کا رزق، اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی جنت والوں کا عمل کر رہا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس پر اس کا مقدر غالب آ جاتا ہے (یعنی لکھی ہوئی تقدیر غالب آ جاتی ہے)، اور وہ جہنم والوں کا عمل کر بیٹھتا ہے، اور اس میں داخل ہو جاتا ہے، اور تم میں سے کوئی جہنم والوں کا عمل کر رہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، کہ اس پر لکھی ہوئی تقدیر غالب آ جاتی ہے، اور وہ جنت والوں کا عمل کرنے لگتا ہے، اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمل، اجل (عمر) رزق اور سعادت و شقاوت (خوش نصیبی، اور بدنصیبی) یہ سب تقدیر سے ہے، اور اس کو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے حق میں پہلے ہی لکھ دیا ہے، اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس لئے ہر آدمی کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت و اطاعت رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق کرکے تقدیر کو اپنے حق میں مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «وأن ليس للإنسان إلا ما سعى» ۔
'Abdullah bin Mas'ud said:
"The Messenger of Allah (ﷺ), the true and truly inspired one, told us that: 'The creation of one of you is put together in his mother's womb for forty days, then it becomes a clot for a similar length of time, then it becomes a chewed lump of flesh for a similar length of time. Then Allah sends the angel to him and commands him to write down four things. He says: "Write down his deeds, his life span, his provision, and whether he is doomed (destined for Hell) or blessed (destined for Paradise)." By the One in Whose Hand is my soul! One of you may do the deeds of the people of Paradise until there is no more than a forearm's length between him and it, then the decree overtakes him and he does the deeds of the people of Hell until there is no more than a forearm's length between him and it, then the decree overtakes him and he does the deeds of the people of Paradise until he enters therein."
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا إسحاق بن سليمان ، قال: سمعت ابا سنان ، عن وهب بن خالد الحمصي ، عن ابن الديلمي ، قال: وقع في نفسي شيء من هذا القدر خشيت ان يفسد علي ديني وامري، فاتيت ابي بن كعب، فقلت: ابا المنذر، إنه قد وقع في نفسي شيء من هذا القدر فخشيت على ديني وامري، فحدثني من ذلك بشيء لعل الله ان ينفعني به، فقال: لو ان الله عذب اهل سماواته، واهل ارضه، لعذبهم وهو غير ظالم لهم، ولو رحمهم لكانت رحمته خيرا لهم من اعمالهم، ولو كان لك مثل جبل احد ذهبا، او مثل جبل احد تنفقه في سبيل الله، ما قبل منك حتى تؤمن بالقدر، فتعلم ان ما اصابك لم يكن ليخطئك، وان ما اخطاك لم يكن ليصيبك، وانك إن مت على غير هذا دخلت النار، ولا عليك ان تاتي اخي عبد الله بن مسعود فتساله، فاتيت عبد الله فسالته، فذكر مثل ما قال ابي، وقال لي، ولا عليك ان تاتي حذيفة، فاتيت حذيفة فسالته، فقال مثل ما قالا، وقال: ائت زيد بن ثابت فاساله، فاتيت زيد بن ثابت فسالته، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لو ان الله عذب اهل سماواته، واهل ارضه، لعذبهم وهو غير ظالم لهم، ولو رحمهم لكانت رحمته خيرا لهم من اعمالهم، ولو كان لك مثل احد ذهبا، او مثل جبل احد ذهبا تنفقه في سبيل الله، ما قبله منك حتى تؤمن بالقدر كله، فتعلم ان ما اصابك لم يكن ليخطئك، وما اخطاك لم يكن ليصيبك، وانك إن مت على غير هذا دخلت النار". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سِنَانٍ ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ ، قَالَ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ خَشِيتُ أَنْ يُفْسِدَ عَلَيَّ دِينِي وَأَمْرِي، فَأَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ: أَبَا الْمُنْذِرِ، إِنَّهُ قَدْ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ فَخَشِيتُ عَلَى دِينِي وَأَمْرِي، فَحَدِّثْنِي مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ، وَأَهْلَ أَرْضِهِ، لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا، أَوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا قُبِلَ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، فَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَأَنَّكَ إِنْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ، وَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ أَخِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَتَسْأَلَهُ، فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ فَسَأَلْتُهُ، فَذَكَرَ مِثْلَ مَا قَالَ أُبَيٌّ، وَقَالَ لِي، وَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ حُذَيْفَةَ، فَأَتَيْتُ حُذَيْفَةَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَا، وَقَال: ائْتِ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَاسْأَلْهُ، فَأَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ، وَأَهْلَ أَرْضِهِ، لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، أَوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا قَبِلَهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ، فَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَأَنَّكَ إِنْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ".
عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے، اور مجھے ڈر لاحق ہوا کہ کہیں یہ شبہات میرے دین اور میرے معاملے کو خراب نہ کر دیں، چنانچہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور عرض کیا: ابوالمنذر! میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات وارد ہوئے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرا دین اور میرا معاملہ خراب نہ ہو جائے، لہٰذا آپ اس سلسلہ میں مجھ سے کچھ بیان کریں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے کچھ فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہو گا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے زیادہ بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو (یا کہا: احد پہاڑ کے برابر مال ہو) اور تم اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دو، تو یہ اس وقت تک قبول نہیں ہو گا جب تک کہ تم تقدیر پہ ایمان نہ لاؤ، تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر و شر) تمہیں پہنچا وہ تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تمہیں نہیں پہنچا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا ۱؎، اور اگر تم اس اعتقاد کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہو گے، اور کوئی حرج نہیں کہ تم میرے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں: میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے پوچھا، تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ابی رضی اللہ عنہ نے بتایا تھا، اور مجھ سے کہا: کوئی مضائقہ نہیں کہ تم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ چنانچہ میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ان دونوں (ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے بتایا تھا، اور انہوں نے کہا: تم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے بھی پوچھ لو۔ چنانچہ میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے بھی پوچھا، تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہو گا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد کے برابر سونا یا احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، اور تم اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اس وقت تک تمہاری جانب سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہ ہو گا جب تک کہ تم پوری تقدیر پہ کلی طور پر ایمان نہ لاؤ، اور تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر و شر) تمہیں پہنچا ہے تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تم سے چوک گیا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا، اور اگر تم اس عقیدہ کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہو گے“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں ایمان کے مزہ اور اس کی حلاوت و شیرینی کا ذکر ہے جو محسوس اشیاء کے مزہ کی طرح نہیں ہے، دنیاوی کھانے پینے کا ایک مزہ ہوتا ہے، دوسری چیز کھانے کے بعد پہلی چیز کا مزہ جاتا رہتا ہے، لیکن ایمان کی حلاوت تا دیر باقی رہتی ہے، حتی کہ آدمی کبھی خلوص دل، حضور قلب اور خشوع و خضوع کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اس کی حلاوت اسے مدتوں محسوس ہوتی ہے، لیکن اس ایمانی حلاوت اور مزہ کا ادراک صرف اسی کو ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے بہرہ ور کیا ہو۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقدر کر رکھا ہے، تقدیر کو اصابت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ تقدیر کا لکھا ہو کر رہے گا، تو جو کچھ تقدیر تھی اللہ تعالیٰ نے اسے بندہ کے حق میں لکھ دی ہے وہ اس کو مل کر رہے گی، مقدر کو ٹالنے کے اسباب اختیار کرنے کے بعد بھی وہ مل کر رہے گا، انسان سے وہ خطا نہیں کرے گا۔ ایک معنی یہ بھی ہے کہ تم کو جو کچھ بھی پہنچ گیا ہے اس کے بارے میں یہ نہ سوچو کہ وہ تم سے خطا کرنے والی چیز ہے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسے ایسے کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا، اس لئے کہ اس وقت تم جس حالت سے دور چار ہوئے اس کا ٹلنا ناممکن ہے، تو تمہارا ہر اندازہ اور ہر تدبیر اس تقدیر کے وقوع پذیر ہونے میں غیر موثر ہے، حدیث کی شرح دونوں معنوں میں صحیح ہے، پس اللہ تعالیٰ نے بندہ کے حق میں جو کچھ مقدر کر رکھا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا، اس کا خطا کرجانا ناممکن ہے، اس بات پر ایمان کے نتیجہ میں مومن ایمان کا مزہ چکھے گا، اس لئے کہ اس ایمان کی موجودگی میں آدمی کو اس بات کا علم اور اس پر اطمینان ہو گا کہ مقدر کی بات لابدی اور ضروری طور پر واقع ہو گی، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی اپنے بچوں کو لے کر کسی تفریح گاہ میں سیر و تفریح کے لئے جاتا ہے، اور اس کا بچہ وہاں گہرے پانی میں ڈوب کر مر جاتا ہے، تو یہ کہنا صحیح نہیں کہ اگر وہ سیر کے لئے نہ نکلا ہوتا تو وہ بچہ نہ مرتا، اس لئے کہ جو کچھ ہوا یہ اللہ کی طرف سے مقدر تھا، اور تقدیر کے مطابق لازمی طور پر ہوا جس کو روکا نہیں جا سکتا تھا، تو جو کچھ ہونے والی چیز تھی اس نے خطا نہیں کی، ایسی صورت میں انسان کو اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے اور وہ اس صورت حال پر اللہ کے فیصلہ پر صبر کرتا ہے بلکہ اس پر راضی ہوتا ہے، اور اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اس سے فرار کی کوئی صورت نہیں تھی، اور دل میں ہر طرح کے اٹھتے خیالات اور اندازے سب شیطانی وساوس کے قبیل سے ہیں، پس آدمی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا اور ایسا ہوتا، کیونکہ «لو» شیطان کی دخل اندازی کا راستہ کھول دیتا ہے، اس معنی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے: «ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها إن ذلك على الله يسير (۲۲) لكيلا تأسوا على ما فاتكم ولا تفرحوا بما آتاكم والله لا يحب كل مختال فخور» یعنی: ”نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے، نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے، تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو، اور نہ عطا کردہ چیز پر اترا جاؤ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔“(سورۃ الحدید: ۲۲-۲۳) آدمی اگر تقدیر پر یقین کرے تو مصائب و حوادث پر اس کو اطمینان قلب ہو گا، اور وہ اس پر صبر کرے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہو گا، اور اسے ایمان کی حلاوت کا احساس ہو گا۔ حدیث کا دوسرا ٹکڑا: «وما أخطأك لم يكن يصيبك» پہلے فقرے ہی کے معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو تقدیر میں نہ ہونا لکھ دیا ہے، وہ کبھی واقع نہیں ہو سکتی، مثلاً اگر ایک آدمی نے کسی تجارت گاہ کا رخ کیا، لیکن وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ بازار بند ہو گیا، تو اس کو کہا جائے گا کہ یہ تجارتی فائدہ جو تم کو نہ ملا، اسے تم کو ہرگز ہرگز نہ ملنا تھا چاہے تم اس کے لئے جتنا بھی جتن اور کوشش کرتے، یا ہم یہ کہیں کہ یہ تم کو حاصل ہونے والا نہ تھا اس لئے کہ معاملہ اللہ کے قضا و قدر کے مطابق طے ہونا تھا، آدمی کو اس عقیدہ کا تجربہ کرکے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اس کے بعد اس کو ایمان کی حلاوت کا احساس ہوا یا نہیں۔ ۲؎: سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ انسان تقدیر پر ایمان رکھے، اور شیطانی وسوسوں سے بچے، اور تقدیر کے منکروں سے میل جول نہ رکھے بلکہ ان سے دور رہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کے اچھے اعمال بغیر ایمان کے ہرگز قبول نہیں ہوتے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر انسان اس قضا و قدر کے اسلامی عقیدہ کے سوا کسی اور عقیدہ پر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا، مراد اس سے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا نہیں ہے، جیسے کافروں کے لئے جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے، اس لئے کہ اہل قبلہ اپنے گناہوں کی سزا میں عذاب پانے کے بعد اگر وہ موحد ہیں تو جہنم سے نکالے جائیں گے۔
It was narrated that Ibn Dailami said:
"I was confused about this Divine Decree (Qadar), and I was afraid lest that adversely affect my religion and my affairs. So I went to Ubayy bin Ka'b and said: 'O Abu Mundhir! I am confused about the Divine Decree, and I fear for my religion and my affairs, so tell me something about that through which Allah may benefit me.' He said: 'If Allah were to punish the inhabitants of His heavens and of his earth, He would do so and He would not be unjust towards them. And if He were to have mercy on them, His mercy would be better for them than their own deeds. If you had the equivalent of Mount Uhud which you spent in the cause of Allah, that would not be accepted from you until you believed in the Divine Decree and you know that whatever has befallen you, could not have passed you by; and whatever has passed you by, could not have befallen you; and that if you were to die believing anything other than this, you would enter Hell. And it will not harm you to go to my brother, 'Abdullah bin Mas'ud, and ask him (about this).' So I went to 'Abdullah and asked him , and he said something similar to what Ubayy had said, and he told me: 'It will not harm you to go to Hudhaifah.' So I went to Hudhaifah and asked him, and he said something similar to what they had said. And he told me: 'Go to Zaid bin Thabit and ask him.' So I went to Zaid bun Thabit and asked him, and he said: 'I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: "If Allah were to punish the inhabitants of His heavens and of His earth, he would do so and He would not be unjust towards them. And if He were to have mercy on them, His mercy would be better for them than their own deeds. If you had the equivalent of Mount Uhud which you spent in the cause of Allah, that would not be accepted from you until you believed in the Divine Decree and you know that whatever has befallen you, could not have passed you by; and whatever has passed you by, could not have befallen you; and that if you were to die believing anything other than this, you would enter Hell"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح َحدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ:
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع . ح وحدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، ووكيع عن الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي ، قال: كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم وبيده عود فنكت في الارض، ثم رفع راسه، فقال:" ما منكم من احد إلا وقد كتب مقعده من الجنة، ومقعده من النار"، قيل: يا رسول الله افلا نتكل؟ قال:" لا، اعملوا، ولا تتكلوا، فكل ميسر لما خلق له، ثم قرا فاما من اعطى واتقى {5} وصدق بالحسنى {6} فسنيسره لليسرى {7} واما من بخل واستغنى {8} وكذب بالحسنى {9} فسنيسره للعسرى {10} سورة الليل آية 5-10. (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ ، قَال: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِيَدِهِ عُودٌ فَنَكَتَ فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنِ الْجَنَّةِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَتَّكِلُ؟ قَالَ:" لَا، اعْمَلُوا، وَلَا تَتَّكِلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى {5} وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى {6} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى {7} وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى {8} وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى {9} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى {10} سورة الليل آية 5-10.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زمین کو کریدا، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: ”جنت و جہنم میں ہر شخص کا ٹھکانہ لکھ دیا گیا ہے“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس پر بھروسہ نہ کر لیں (اور عمل چھوڑ دیں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، عمل کرو، اور صرف لکھی تقدیر پر بھروسہ نہ کر کے بیٹھو، اس لیے کہ ہر ایک کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «فأما من أعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسره لليسرى وأما من بخل واستغنى وكذب بالحسنى فسنيسره للعسرى»، یعنی: ”جس نے اللہ کی راہ میں دیا اپنے رب سے ڈرا، اور اچھی بات کی تصدیق کرتا رہا، تو ہم بھی اس پر سہولت کا راستہ آسان کر دیں گے، لیکن جس نے بخیلی کی، لاپرواہی برتی اور اچھی بات کو جھٹلایا تو ہم بھی اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے“(سورة الليل: 5-10)۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس میں ان شیطانی وسوسوں کا جواب ہے جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں آتے رہتے ہیں کہ جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو اب عمل کیونکر کریں؟ لیکن نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”عمل کرو، تقدیر پر بھروسہ کر کے بیٹھ نہ جاؤ، کیونکہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے“، اس لئے نیک عمل کرتے رہنا چاہیے کیونکہ یہی جنت میں جانے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے مستحق بننے کا ذریعہ ہے۔
It was narrated that 'Ali said:
"We were sitting with the Prophet (ﷺ) and he had a stick in his hand. He scratched in the ground with it, then raised his head and said: 'There is no one among you but his place in Paradise or Hell has already been decreed.' He was asked: 'O Messenger of Allah, should we not then rely upon that?' He said: 'No, strive and do not rely upon that, for it will be made easy for each person to do that for which he was created.' Then he recited: "As for him who gives (in charity) and keeps his duty to Allah and fears Him, and believes in Al-Husna. We will make smooth for him the path of ease (goodness). But he who is a greedy miser and thinks himself self-sufficient. And denies Al-Husna. We will make smooth for him the path for evil. "
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پیارا ہے ۱؎، دونوں میں سے ہر ایک میں خیر ہے، ہر اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد طلب کرو، دل ہار کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش کہ میں نے ایسا ویسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: جو اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو اس نے چاہا کیا، اس لیے کہ ”اگر مگر“ شیطان کے عمل کے لیے راستہ کھول دیتا ہے“۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القدر 8 (2664)، سنن النسائی/ في الیوم واللیلة (625)، (تحفة الأشراف: 13965)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/ 366، 37)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 4168) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ وہ عبادت کی ادائیگی اور فرائض و سنن، اور دعوت و تبلیغ اور معاشرتی خدمت وغیرہ امور کے قیام میں کمزور مومن سے زیادہ مستعد اور توانا ہوتا ہے۔ ۲؎: یعنی اگر مگر سے شیطان کو گمراہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'The strong believer is better and more beloved to Allah than the weak believer, although both are good. Strive for that which will benefit you, seek the help of Allah, and do not feel helpless. If anything befalls you, do not say, "if only I had done such and such" rather say "Qaddara Allahu wa ma sha'a fa'ala (Allah has decreed and whatever he wills, He does)." For (saying) 'If' opens (the door) to the deeds of Satan.'"
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، ويعقوب بن حميد بن كاسب ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو بن دينار ، سمع طاوسا ، يقول: سمعت ابا هريرة ، يخبر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" احتج آدم وموسى، فقال له موسى: يا آدم انت ابونا، خيبتنا، واخرجتنا من الجنة بذنبك، فقال له آدم: يا موسى، اصطفاك الله بكلامه، وخط لك التوراة بيده، اتلومني على امر قدره الله علي قبل ان يخلقني باربعين سنة؟ فحج آدم موسى، فحج آدم موسى، فحج آدم موسى" ثلاثا. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، سَمِعَ طَاوُسًا ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يُخْبِرُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا، خَيَّبْتَنَا، وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ بِذَنْبِكَ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: يَا مُوسَى، اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلَامِهِ، وَخَطَّ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى" ثَلَاثًا.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدم و موسیٰ علیہا السلام میں مناظرہ ہوا، موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ نے ہمیں ناکام و نامراد بنا دیا، اور اپنے گناہ کے سبب ہمیں جنت سے نکال دیا، تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب کیا، اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی، کیا تم مجھ کو ایک ایسے عمل پر ملامت کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا!“، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”چنانچہ آدم موسیٰ پر غالب آ گئے، آدم موسیٰ پر غالب آ گئے، آدم موسیٰ پر غالب آ گئے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التفسیر سورة طہ 1 (4736)، القدر 11 (6614)، صحیح مسلم/القدر 2 (2652)، (تحفة الأشراف: 13529)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/السنة 17 (4701)، سنن الترمذی/القدر 2 (2135)، موطا امام مالک/القدر 1 (1)، مسند احمد (2/248، 268) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے اور ان سے جیت گئے یعنی انہیں اس بات کا قائل کر لیا کہ بندہ اپنے افعال میں خود مختار نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جس کام کو اس کے لئے مقدر کر دیا ہے اس کے نہ کرنے پر وہ قادر نہیں، لہذا جو کچھ انہوں نے کیا اس پر انہیں ملامت کرنا درست نہیں، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے موسی علیہ السلام سے پوچھا کہ تم نے تورات میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنے برس پہلے تورات لکھی؟ انہوں نے کہا: چالیس برس، پھر آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے اس میں پڑھا ہے: «وعصى آدم ربه فغوى» یعنی ”آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی، تو راہ بھول گئے“، انہوں نے کہا: ہاں، آدم علیہ السلام نے فرمایا: پھر بھلا تم مجھے کیا ملامت کرتے ہو؟ باقی وہی مضمون ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا کہ آدم علیہ السلام جیت گئے، اور یہ تکرار تاکید کے لئے تھی تاکہ بخوبی یہ بات سمجھ لی جائے کہ آدم علیہ السلام مستقل فاعل نہ تھے کہ فعل و ترک کا اختیار کامل رکھتے ہوں، بلکہ جو تقدیر الٰہی تھی اس کا ان سے وقوع ہوا، اور اللہ کی مرضی و مشیت کا ہونا ضروری تھا، گویا کہ آدم علیہ السلام نے یہ کہا کہ پھر تم اس علم سابق سے جو بذریعہ تورات تمہیں حاصل ہو چکا ہے کیوں غافل ہوتے ہو، اور صرف میرے کسب (یعنی فعل اور کام) کو یاد کرتے ہو، جو صرف سبب تھا، اور اصل سے غفلت کرتے ہو جو تقدیر الٰہی تھی اور تم جیسے منتخب اور پسندیدہ اور اسرار و رموز الٰہی کے واقف کار سے یہ بات نہایت بعید ہے، اور ان دونوں نبیوں میں یہ گفتگو عالم تکلیف و اسباب میں نہیں ہوئی کہ یہاں وسائط و اکتساب سے قطع نظر اور وسائل اور مواصلات سے چشم پوشی جائز نہیں بلکہ عالم علوی میں ہوئی جو اہل تقوی کی ارواح کے اکٹھا ہونے کی جگہ ہے، اور مکلف اس وقت تک ملامت کا مستحق ہو گا جب وہ عہد تکلیف و مسئولیت میں ہو تو اس پر ملامت امر معروف میں داخل ہے، اور معاصی سے ممانعت کا سبب ہے، اور دوسروں کے لئے عبرت اور موعظت کا سبب ہے، اور جب آدمی تکلیف و مسئولیت کے مقام سے نکل گیا تو اب وہ ملامت کا مستحق نہ رہا بلکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو چیز مقدر کر دی تھی اس کا ظہور ہوا، اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ گفتگو اس وقت ہوئی جب آدم علیہ السلام تائب ہو چکے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی تھی، اور تائب ملامت کے لائق نہیں ہوتا، مقصد یہ ہے کہ اس واقعہ سے فساق و فجار اپنے فسق و فجور اور بد اعمالیوں پر استدلال نہیں کر سکتے۔
It was narrated that 'Amr bin Dinar heard Tawus say:
"I heard Abu Hurairah narrating that the Prophet (ﷺ) said: 'Adam and Musa debated, and Musa said to him: "O Adam, you are our father but have deprived us and caused us to be expelled from Paradise because of your sin." Adam said to him: "O Musa, Allah chose you to speak with, and he wrote the Tawrah for you with His own Hand. Are you blaming me for something which Allah decreed for me forty years before He created me?" Thus Adam won the argument with Musa, thus Adam won the argument with Musa.'"
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عامر بن زرارة ، حدثنا شريك ، عن منصور ، عن ربعي ، عن علي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يؤمن عبد حتى يؤمن باربع، بالله وحده لا شريك له، واني رسول الله، وبالبعث بعد الموت، والقدر". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ، بِاللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَبِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْقَدَرِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص چار چیزوں پر ایمان لائے بغیر مومن نہیں ہو سکتا: اللہ واحد پر جس کا کوئی شریک نہیں، میرے اللہ کے رسول ہونے پر، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر، اور تقدیر پر“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القدر 10 (2145)، (تحفة الأشراف: 10089)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/97، 133) (صحیح)»
It was narrated that 'Ali said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'No slave truly believes until he believes in four things: in Allah alone with no partner; that I am the Messenger of Allah; in the resurrection after death; and in the Divine Decree (Qadar).'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2145) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 377
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد قالا: حدثنا وكيع ، حدثنا طلحة بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله ، عن عمته عائشة بنت طلحة ، عن عائشة ام المؤمنين، قالت: دعي رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى جنازة غلام من الانصار، فقلت: يا رسول الله، طوبى لهذا عصفور من عصافير الجنة، لم يعمل السوء، ولم يدركه، قال:" او غير ذلك يا عائشة، إن الله خلق للجنة اهلا، خلقهم لها وهم في اصلاب آبائهم، وخلق للنار اهلا خلقهم لها، وهم في اصلاب آبائهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَمَّتِهِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِنَازَةِ غُلَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، طُوبَى لِهَذَا عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ، لَمْ يَعْمَلِ السُّوءَ، وَلَمْ يُدْرِكْهُ، قَالَ:" أَوَ غَيْرُ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ لِلْجَنَّةِ أَهْلًا، خَلَقَهُمْ لَهَا وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ، وَخَلَقَ لِلنَّارِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا، وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک بچے کے جنازے میں بلائے گئے، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس بچہ کے لیے مبارک باد ہو، وہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نہ تو اس نے کوئی برائی کی اور نہ ہی برائی کرنے کا وقت پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ بات یوں نہیں ہے، بلکہ اللہ نے جنت کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے، اور جہنم کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس بچے نے کوئی گناہ نہ کیا اس لئے یہ تو یقینا جنتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس یقین کی تردید فرمائی کہ بلا دلیل کسی کو جنتی کہنا صحیح نہیں، جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی کر دیا ہے، اور وہ ہمیں معلوم نہیں تو ہم کسی کو حتمی اور یقینی طور پر جنتی یا جہنمی کیسے کہہ سکتے ہیں، یہ حدیث ایک دوسری حدیث سے معارض معلوم ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان بچے جو بچپن ہی میں مر جائیں گے اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے، نیز علماء کا اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، اس حدیث کا یہ جواب دیا گیا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو جنتی یا جہنمی کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے روکنا مقصود تھا، بعض نے کہا: یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ کو بتایا نہیں گیا تھا کہ مسلم بچے جنتی ہیں۔
It was narrated that 'Aishah the Mother of the Believers said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) was called to the funeral of a child from among the Ansar. I said: 'O Messenger of Allah, glad tidings for him! He is one of the little birds of Paradise, who never did evil or reached the age of doing evil (i.e, the age of accountability).' He said: 'It may not be so, O 'Aishah! For Allah created people for Paradise, He created them for it when they were still in their father's loins, And He has created people for Hell, He created them for it when they were still in their fathers' loins.'"
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکین قریش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے تقدیر کے سلسلے میں جھگڑنے لگے، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «يوم يسحبون في النار على وجوههم ذوقوا مس سقر إنا كل شيء خلقناه بقدر» یعنی: ”جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا: جہنم کی آگ لگنے کے مزے چکھو، بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے پر پیدا کیا ہے“(سورۃ القمر: ۴۹)۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بغوی نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ جو چیز ہم نے پیدا کی ہے وہ تقدیر سے ہے یعنی وہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے، حسن بصری نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہر چیز کا اندازہ کیا کہ اس کے موافق وہ پیدا ہوتی ہے، اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیر لکھی“، اور فرمایا: ”رب العالمین کا عرش اس وقت پانی پر تھا“، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر چیز قدر سے ہے یہاں تک کہ نادانی و دانائی بھی“، فتح البیان میں ہے کہ اثبات قدر سے جو بعضوں کے خیال میں آتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کا مجبور و مقہور کر دینا ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے علم قدیم کی خبر ہے کہ بندے کیا کمائیں گے، اور ان کے افعال کا صدور خیر ہو یا شر اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
"The idolators and Quraish came and disputed with the Prophet (ﷺ) concerning the Divine Decree. Then the following verse was revealed: 'The Day they will be dragged on their faces into the Fire (it will be said to them): "Taste you the touch of Hell!" Verily We have created all things with Qadar. (Divine Decree)'"
عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے تقدیر کے سلسلے میں کچھ ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو تقدیر کے سلسلے میں ذرا بھی بحث کرے گا اس سے قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال کیا جائے گا، اور جو اس سلسلہ میں کچھ نہ کہے تو اس سے سوال نہیں ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16265، ومصباح الزجاجة: 28) (ضعیف)» (سند میں واقع دو راوی یحییٰ بن عثمان منکر الحدیث اور یحییٰ بن عبد اللہ لین الحدیث ہیں، ملاحظہ: المشکاة: 114)
`Abdullah bin Abi Mulaikah narrated that his father entered upon `A'ishah and said something to her about the Divine Decree:
She said: "I heard The Messenger of Allah (ﷺ) say: 'Whoever says anything about the Divine decree will be questioned about that on the Day of Resurrection, and whoever does not say anything about it will not be questioned about it.'" Another chain with similar wording.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف لإتفاقھم علي ضعف يحيي بن عثمان“ يحيي بن عثمان التيمي أبو سھل البصري: ضعيف (تقريب: 7606) وشيخه يحيي بن عبد اللّٰه بن أبي مليكة: لين الحديث (تقريب: 7587) أي: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 377
(مرفوع) قال ابو الحسن القطان: حدثناه حازم بن يحيى، حدثنا عبد الملك بن شيبان، حدثنا يحيى بن عثمان، فذكر نحوه (مرفوع) قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ: حَدَّثَنَاهُ حَازِمُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شَيْبَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ
ابوالحسن القطان نے کہا: ہمیں خازم بن یحیٰی نے انہیں عبدالملک بن سنان نے انہیں یحیٰی بن عثمان نے اسی (مالک بن اسماعیل) کی مثل روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)» (سبب ضعف کے لئے ملاحظہ ہو: اس سے پہلے کی حدیث)