(مرفوع) حدثنا ابن المثنى , حدثنا خالد يعني ابن الحارث , حدثنا حميد , قال: قال انس" انتهى إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا غلام في الغلمان , فسلم علينا ثم اخذ بيدي فارسلني برسالة وقعد في ظل جدار , او قال: إلى جدار حتى رجعت إليه". (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى , حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ , حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ , قَالَ: قَالَ أَنَسٌ" انْتَهَى إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا غُلَامٌ فِي الْغِلْمَانِ , فَسَلَّمَ عَلَيْنَا ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَأَرْسَلَنِي بِرِسَالَةٍ وَقَعَدَ فِي ظِلِّ جِدَارٍ , أَوْ قَالَ: إِلَى جِدَارٍ حَتَّى رَجَعْتُ إِلَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور میں ابھی ایک بچہ تھا، آپ نے ہمیں سلام کیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی کسی ضرورت سے مجھے بھیجا اور میرے لوٹ کر آنے تک ایک دیوار کے سائے میں بیٹھے رہے، یا کہا: ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے رہے۔
Narrated Anas ibn Malik: The Messenger of Allah ﷺ came to us when I was a boy among the boys. He saluted us and took me by my hand. He then sent me with some message. He himself sat in the shadow of a wall, or he said: near a wall until I returned to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5184
قال الشيخ الألباني: صحيح دون القعود في الظل
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح حميد عنعن لكنه كان يدلس عن ثابت البناني عن أنس رضي الله عنه وثابت البناني ثقة، وحديث مسلم (2482) يغني عنه
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ انہیں اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ ہم عورتوں کے پاس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الاستئذان 9 (2697)، سنن ابن ماجہ/ الآداب 14 (3701)، (تحفة الأشراف: 15766)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/452، 457)، سنن الدارمی/الاستئذان 9 (2679) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگر عورتوں کی جماعت ہے تو انہیں سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن عورت اگر اکیلی ہے اور سلام کرنے والا اس کے لئے محرم نہیں ہے تو (فتنہ کے خدشہ نہ ہونے کی صورت میں) سلام نہ کرنا بہتر ہے، تاکہ فتنہ وغیرہ سے محفوظ رہے۔
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر , حدثنا شعبة , عن سهيل بن ابي صالح , قال: خرجت مع ابي إلى الشام , فجعلوا يمرون بصوامع فيها نصارى فيسلمون عليهم , فقال ابي: لا تبدءوهم بالسلام , فإن ابا هريرة , حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تبدءوهم بالسلام , وإذا لقيتموهم في الطريق , فاضطروهم إلى اضيق الطريق". (مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي إِلَى الشَّامِ , فَجَعَلُوا يَمُرُّونَ بِصَوَامِعَ فِيهَا نَصَارَى فَيُسَلِّمُونَ عَلَيْهِمْ , فَقَالَ أَبِي: لَا تَبْدَءُوهُمْ بِالسَّلَامِ , فَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ , حَدَّثَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَبْدَءُوهُمْ بِالسَّلَامِ , وَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فِي الطَّرِيقِ , فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِ الطَّرِيقِِ".
سہیل بن ابوصالح کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ شام گیا تو وہاں لوگوں (یعنی قافلے والوں) کا گزر نصاریٰ کے گرجا گھروں کے پاس سے ہونے لگا تو لوگ انہیں (اور ان کے پجاریوں کو) سلام کرنے لگے تو میرے والد نے کہا: تم انہیں سلام کرنے میں پہل نہ کرو کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی ہے، آپ نے فرمایا ہے: ”انہیں (یعنی یہود و نصاریٰ کو) سلام کرنے میں پہل نہ کرو، اور جب تم انہیں راستے میں ملو تو انہیں تنگ راستہ پر چلنے پر مجبور کرو“(یعنی ان پر اپنا دباؤ ڈالے رکھو وہ کونے کنارے سے ہو کر چلیں)۔
Narrated Abu Hurairah: Suhayl ibn Abu Salih said: I went out with my father to Syria. The people passed by the cloisters in which there were Christians and began to salute them. My father said: Do not give them salutation first, for Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Do not salute them (Jews and Christians) first, and when you meet them on the road, force them to go to the narrowest part of it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5186
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة , حدثنا عبد العزيز يعني ابن مسلم , عن عبد الله بن دينار , عن عبد الله بن عمر , انه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن اليهود إذا سلم عليكم احدهم فإنما يقول: السام عليكم , فقولوا وعليكم" , قال ابو داود: وكذلك رواه مالك , عن عبد الله بن دينار , ورواه الثوري , عن عبد الله بن دينار , قال فيه , وعليكم. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْيَهُودَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدُهُمْ فَإِنَّمَا يَقُولُ: السَّامُ عَلَيْكُمْ , فَقُولُوا وَعَلَيْكُمْ" , قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مَالِكٌ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , وَرَوَاهُ الثَّوْرِيُّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , قال فِيهِ , وَعَلَيْكُمْ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرے اور وہ «السام عليكم»(تمہارے لیے ہلاکت ہو) کہے تو تم اس کے جواب میں «وعليكم» کہہ دیا کرو“(یعنی تمہارے اوپر موت و ہلاکت آئے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے مالک نے عبداللہ بن دینار سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور ثوری نے بھی عبداللہ بن دینار سے «وعليكم» ہی کا لفظ روایت کیا ہے۔
Narrated Abdullah ibn Umar: The Prophet ﷺ said: When one of the Jews greets you saying: Death may come upon you, reply: The same to you. Abu Dawud said: Malik bin Adb Allah bin Dinar transmitted it in a similar manner, and al-Thawri transmitted it from Abdullah bin Dinar. He said in this version: The same to you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5187
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح، صحيح بخاري (6257) صحيح مسلم (2164)
(مرفوع) حدثنا عمرو بن مرزوق , اخبرنا شعبة , عن قتادة , عن انس:" ان اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قالوا للنبي:" إن اهل الكتاب يسلمون علينا , فكيف نرد عليهم؟ قال: قولوا وعليكم , قال ابو داود: وكذلك رواية عائشة وابي عبد الرحمن الجهني وابي بصرة يعني الغفاري. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ , أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ:" أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا لِلنَّبِيِّ:" إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يُسَلِّمُونَ عَلَيْنَا , فَكَيْفَ نَرُدُّ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ: قُولُوا وَعَلَيْكُمْ , قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَكَذَلِكَ رِوَايَةُ عَائِشَةَ وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُهَنِيِّ وَأَبِي بَصْرَة يَعْنِي الْغِفَارِيَّ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے آپ سے عرض کیا: اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) ہم کو سلام کرتے ہیں ہم انہیں کس طرح جواب دیں؟ آپ نے فرمایا: ”تم لوگ «وعليكم» کہہ دیا کرو“ ابوداؤد کہتے ہیں: ایسے ہی عائشہ، ابوعبدالرحمٰن جہنی اور ابوبصرہ غفاری کی روایتیں بھی ہیں۔
Anas said: The Companions of the prophet ﷺ said to the prophet ﷺ: The people of the Book salute us. How should we reply to them? He said: say: the same to you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5188
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6258، 6024) صحيح مسلم (2163، 2165)
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل , ومسدد , قالا: حدثنا بشر يعنيان ابن المفضل , عن ابن عجلان , عن المقبري , قال مسدد سعيد بن ابي سعيد المقبري , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا انتهى احدكم إلى المجلس , فليسلم , فإذا اراد ان يقوم , فليسلم , فليست الاولى باحق من الآخرة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ , وَمُسَدَّدٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِيَانِ ابْنَ الْمُفَضَّلِ , عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ الْمَقْبُرِيِّ , قَالَ مُسَدَّدٌ سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ , فَلْيُسَلِّمْ , فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ , فَلْيُسَلِّمْ , فَلَيْسَتِ الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الْآخِرَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، اور پھر جب اٹھ کر جانے لگے تو بھی سلام کرے، کیونکہ پہلا دوسرے سے زیادہ حقدار نہیں ہے“(بلکہ دونوں کی یکساں اہمیت و ضرورت ہے، جیسے مجلس میں شریک ہوتے وقت سلام کرے ایسے ہی مجلس سے رخصت ہوتے وقت بھی سب کو سلامتی کی دعا دیتا ہوا جائے)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الاستئذان 15 (2706)، (تحفة الأشراف: 13038)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/230، 439) (حسن)»
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: When one of you comes to an assembly, he should give a salutation and if he feels inclined to get up, he should give a salutation, for the former is not more of a duty than the latter.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5189
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (4660) أخرجه الترمذي (2706 وسنده حسن) محمد بن عجلان صرح بالسماع عند البخاري في الأدب المفرد (1008)
ابوجری ہجیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا: «عليك السلام يا رسول الله»”آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول!“ تو آپ نے فرمایا: «عليك السلام» مت کہو کیونکہ «عليك السلام» مردوں کا سلام ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الاستئذان 28 (2721)،سنن النسائی/الیوم اللیلة (318)، (تحفة الأشراف: 2123)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/63) (صحیح)»
Narrated Abu Jurayy al-Hujaymi: I came to the Prophet ﷺ and said: Upon you be peace, Messenger of Allah! He said: Do not say: Upon you be peace, for "Upon you be peace" is the salutation to the dead.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5190
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (4084)
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (ابوداؤد کہتے ہیں: حسن بن علی نے اسے مرفوع کیا ہے)، وہ کہتے ہیں اگر جماعت گزر رہی ہو (لوگ چل رہے ہوں) تو ان میں سے کسی ایک کا سلام کر لینا سب کی طرف سے سلام کے لیے کافی ہو گا، ایسے ہی لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور ان میں سے کوئی ایک سلام کا جواب دیدے تو وہ سب کی طرف سے کفایت کرے گا ۱؎۔
Narrated Ali ibn Abu Talib: Abu Dawud said: Al-Hasan ibn Ali traced this tradition back to the Prophet ﷺ: When people are passing by, it is enough if one of them gives a salutation on their behalf, and that it is enough for those who are sitting if one of them replies.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5191
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (4648) وللحديث شاھد عند الطبراني في الكبير (3/ 82، 83 ح 2730 وسنده حسن)
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان آپس میں ملیں پھر دونوں مصافحہ کریں ۱؎، دونوں اللہ عزوجل کی تعریف کریں اور دونوں اللہ سے مغفرت کے طالب ہوں تو ان دونوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1761)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/293) (حسن لغیرہ)» (اس کے راوی زید لین الحدیث ہیں، لیکن اگلی سند سے یہ روایت حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: مصافحہ صرف ملاقات کے وقت مسنون ہے، سلام کے بعد اور نماز کے بعد، مصافحہ کرنے کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے، یہ بدعت ہے۔
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان آپس میں ملتے اور دونوں ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے سے پہلے ہی ان کی مغفرت ہو جاتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «* تخريج: سنن الترمذی/ الاستئذان 31 (2727)، سنن ابن ماجہ/الأدب 15 (3703)، (تحفة الأشراف: 1799)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/ 289، 303) (حسن)»
Narrated Al-Bara ibn Azib: The Prophet ﷺ said: Two Muslims will not meet and shake hands having their sins forgiven them before they separate.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5193
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2727) ابن ماجه (3703) أبو إسحاق مدلس وعنعن وللحديث شواھد ضعيفة و روي الإمام أحمد (3/ 142): قال نبي اللّٰه ﷺ: ((ما من مسلمين التقيا فأخذ أحدھما بيد صاحبه إلا كان حقًا علي اللّٰه أن يحضر دعاءھما و لا يفرّق بين أيديھما حتي يغفر لھما)) وسنده حسن وھو يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 180