(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل , ومسدد , قالا: حدثنا بشر يعنيان ابن المفضل , عن ابن عجلان , عن المقبري , قال مسدد سعيد بن ابي سعيد المقبري , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا انتهى احدكم إلى المجلس , فليسلم , فإذا اراد ان يقوم , فليسلم , فليست الاولى باحق من الآخرة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ , وَمُسَدَّدٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِيَانِ ابْنَ الْمُفَضَّلِ , عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ الْمَقْبُرِيِّ , قَالَ مُسَدَّدٌ سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ , فَلْيُسَلِّمْ , فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ , فَلْيُسَلِّمْ , فَلَيْسَتِ الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الْآخِرَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، اور پھر جب اٹھ کر جانے لگے تو بھی سلام کرے، کیونکہ پہلا دوسرے سے زیادہ حقدار نہیں ہے“(بلکہ دونوں کی یکساں اہمیت و ضرورت ہے، جیسے مجلس میں شریک ہوتے وقت سلام کرے ایسے ہی مجلس سے رخصت ہوتے وقت بھی سب کو سلامتی کی دعا دیتا ہوا جائے)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الاستئذان 15 (2706)، (تحفة الأشراف: 13038)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/230، 439) (حسن)»
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: When one of you comes to an assembly, he should give a salutation and if he feels inclined to get up, he should give a salutation, for the former is not more of a duty than the latter.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5189
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (4660) أخرجه الترمذي (2706 وسنده حسن) محمد بن عجلان صرح بالسماع عند البخاري في الأدب المفرد (1008)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2706
´مجلس میں بیٹھتے اور اس سے اٹھتے وقت سلام کرنا۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، پھر اگر اس کا دل بیٹھنے کو چاہے تو بیٹھ جائے۔ پھر جب اٹھ کر جانے لگے تو سلام کرے۔ پہلا (سلام) دوسرے (سلام) سے زیادہ ضروری نہیں ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2706]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی دونوں سلام کی یکساں اہمیت و ضرورت ہے، جیسے مجلس میں شریک ہوتے وقت سلام کرے ایسے ہی مجلس سے رخصت ہوتے وقت بھی سب کو سلامتی کی دعا دیتا ہوا جائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2706
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1196
1196- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پتہ چلا ہے: ”جب تم کچھ بیٹھے ہوئے افرا د کے پاس جاؤ تو انہیں سلام کرو جب تم اٹھو، تو پھر انہیں سلام کرو کیونکہ پہلے والا دوسرے والے کے مقابلے میں زیادہ حق نہیں رکھتا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1196]
فائدہ: اس حدیث سے ”السلام علیکم“ کہنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ جب آپ ایک مجلس میں جائیں تو بھی ”السلام علیکم“ کہیں اور جب واپس اٹھیں پھر بھی ”السلام علیکم“ کہیں، جس طرح مجلس میں جاتے وقت سلام کہنا ثواب ہے، اسی طرح مجلس سے اٹھتے وقت بھی سلام کہنے کا ثواب ہے، ان دونوں وقتوں میں سلام کہنے سے سستی نہیں کرنی چاہیے بعض لوگ جب مجلس میں جاتے ہیں تو سلام کہتے ہیں لیکن جب واپس آتے ہیں تو سلام نہیں کہتے جو کہ درست نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1194