(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن سهيل بن ابي صالح، قال: كنت عند ابي جالسا وعنده غلام فقام ثم رجع، فحدث ابي عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا قام الرجل من مجلس ثم رجع إليه فهو احق به". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي جَالِسًا وَعِنْدَهُ غُلَامٌ فَقَامَ ثُمَّ رَجَعَ، فَحَدَّثَ أَبِي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ".
سہیل بن ابی صالح کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ان کے پاس ایک لڑکا تھا، وہ اٹھ کر گیا پھر واپس آیا، تو میرے والد نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب آدمی ایک جگہ سے اٹھ کر جائے پھر وہاں لوٹ کر آئے تو وہی اس (اس جگہ بیٹھنے) کا زیادہ مستحق ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12627)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/السلام 12 (2179)، سنن ابن ماجہ/الأدب 22 (3717)، مسند احمد (2/342، 527)، سنن الدارمی/الاستئذان 25 (2696) (صحیح)»
Abu Salih said: I was sitting with my father and there was also a boy with him. He got up and then returned. So my father mentioned a tradition on the authority of Abu Hurairah from the prophet ﷺ saying: If anyone gets up from where he has been sitting and comes back to it, he has most right to it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4835
کعب الایادی کہتے ہیں کہ میں ابو الدرداء کے پاس آتا جاتا تھا تو ابو الدرداء نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے تو آپ (کسی کام سے جانے کے لیے) کھڑے ہوتے اور لوٹنے کا ارادہ ہوتا تو اپنی جوتیاں اتار کر رکھ جاتے یا اور کوئی چیز رکھ جاتے جو آپ کے پاس ہوتی، اس سے آپ کے اصحاب سمجھ لیتے تو وہ ٹھہرے رہتے۔
Narrated Abud Darda: The Messenger of Allah ﷺ would sit and we would also sit around him. If he got up intending to return, he would take off his sandals or something he was wearing, and his Companions recognising his purpose (that he would return) would stay where they were.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4836
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف تمام بن نجيح: ضعيف،وكعب بن ذھل: فيه لين (تق: 798،5639) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 169
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگ بھی بغیر اللہ کو یاد کئے کسی مجلس سے اٹھ کھڑے ہوتے ہوں تو وہ ایسی مجلس سے اٹھے ہوتے ہیں جو بدبو میں مرے ہوئے گدھے کی لاش کی طرح ہوتی ہے، اور وہ مجلس ان کے لیے (قیامت کے روز) باعث حسرت ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 12591)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/515، 527) (صحیح)»
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: People who get up from an assembly in which they did not remember Allah will be just as if they had got up from an ass's corpse, and it will be a cause of grief to them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4837
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (2273)
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال:" من قعد مقعدا لم يذكر الله فيه كانت عليه من الله ترة، ومن اضطجع مضجعا لا يذكر الله فيه كانت عليه من الله ترة". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ قَعَدَ مَقْعَدًا لَمْ يَذْكُرِ اللَّهَ فِيهِ كَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ اللَّهِ تِرَةٌ، وَمَنِ اضْطَجَعَ مَضْجَعًا لَا يَذْكُرُ اللَّهَ فِيهِ كَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ اللَّهِ تِرَةٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی جگہ بیٹھے اور اس میں وہ اللہ کا ذکر نہ کرے، تو یہ بیٹھک اللہ کی طرف سے اس کے لیے باعث حسرت و نقصان ہو گی اور جو کسی جگہ لیٹے اور اس میں اللہ کو یاد نہ کرے تو یہ لیٹنا اس کے لیے اللہ کی طرف سے باعث حسرت و نقصان ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13043)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات 8 (3380)، مسند احمد (2/432، 452، 481، 484) (حسن صحیح)»
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: If anyone sits at a place where he does not remember Allah, deprivation will descend on him from Allah; and if he lies at a place where he does not remember Allah, deprivation will descend on him from Allah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4838
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (2272) رواه الحميدي بتحقيقي (1158 وسنده حسن) ابن عجلان تابعه عبد الرحمن بن إسحاق المدني عند الحاكم (1/492)
(موقوف) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني عمرو، ان سعيد بن ابي هلال حدثه، ان سعيد بن ابي سعيد المقبري حدثه،عن عبد الله بن عمرو بن العاص، انه قال:" كلمات لا يتكلم بهن احد في مجلسه عند قيامه ثلاث مرات إلا كفر بهن عنه، ولا يقولهن في مجلس خير ومجلس ذكر إلا ختم له بهن عليه كما يختم بالخاتم على الصحيفة: سبحانك اللهم وبحمدك لا إله إلا انت، استغفرك واتوب إليك". (موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي هِلَالٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ حَدَّثَهُ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ قَالَ:" كَلِمَاتٌ لَا يَتَكَلَّمُ بِهِنَّ أَحَدٌ فِي مَجْلِسِهِ عِنْدَ قِيَامِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ إِلَّا كُفِّرَ بِهِنَّ عَنْهُ، وَلَا يَقُولُهُنَّ فِي مَجْلِسِ خَيْرٍ وَمَجْلِسِ ذِكْرٍ إِلَّا خُتِمَ لَهُ بِهِنَّ عَلَيْهِ كَمَا يُخْتَمُ بِالْخَاتَمِ عَلَى الصَّحِيفَةِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ تین کلمے ایسے ہیں جنہیں کوئی بھی مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ پڑھے تو یہ اس کے لیے (ان گناہوں کا جو اس مجلس میں اس سے ہوئے) کفارہ بن جاتے ہیں، اور اگر انہیں نیکی یا ذکر الٰہی کی مجلس میں کہے گا تو وہ مانند مہر کے ہوں گے جیسے کسی تحریر یا دستاویز پر اخیر میں مہر ہوتی ہے اور وہ کلمات یہ ہیں «سبحانك اللهم وبحمدك لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك»”اے اللہ! تو پاک ہے، اور تو اپنی ساری تعریفوں کے ساتھ ہے، نہیں ہے معبود برحق مگر تو ہی اور میں تجھی سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12981)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات 39 (3429)، مسند احمد (2/494) (صحیح) دون قولہ: '' ثلاث مرات''»
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: There are some expressions which a man utters three times when he gets up from an assembly he will be forgiven for what happened in the assembly; and no one utters them in an assembly held for a noble cause or for remembrance of Allah but that is stamped with them just as a document is stamped with a signet-ring. These expressions are: Glory be to Thee, O Allah, and I begin with praise of Thee, there is no god but thou; I ask Thy pardon, and return to Thee in repentance.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4839
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ثلاث مرات
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح سعيد بن أبي ھلال لم يثبت أنه اختلط ونقل الساجي عن أحمد لا يصح لإنقطاعه
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مجلس سے اٹھنے کا ارادہ کرتے، تو آخر میں فرماتے: «سبحانك اللهم وبحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك» تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اب ایک ایسا کلمہ کہتے ہیں جو پہلے نہیں کہا کرتے تھے، آپ نے فرمایا: ”یہ کفارہ ہے ان (لغزشوں) کا جو مجلس میں ہو جاتی ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11603)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/425)، سنن الدارمی/الاستئذان 29 (2700) (حسن صحیح)»
Narrated Abu Barzah al-Aslami: When the Messenger of Allah ﷺ intended to get up from the assembly he used to say in the last. Glory be to Thee. O Allah, and I begin with praise of Thee, I testify that there is no god but Thou; I ask Thy pardon, and return to Thee in repentance. The man asked: Messenger of Allah! you utter the words now which you did not do in the past? He replied: (This is an) atonement for what takes place in the assembly.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4841
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أبو ھاشم ھو يحيي بن دينار الرماني
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے صحابہ میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی شکایت مجھ تک نہ پہنچائے، اس لیے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں (گھر سے) نکل کر تمہاری طرف آؤں، تو میرا سینہ صاف ہو (یعنی کسی کی طرف سے میرے دل کوئی میں کدورت نہ ہو)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 64 (3896)، (تحفة الأشراف: 9227)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/396) (ضعیف)» (زید بن زائد یا زائدہ لین الحدیث ہیں)
Narrated Abdullah ibn Masud: The Prophet ﷺ said: None of my Companions must tell me anything about anyone, for I like to come out to you with no ill-feelings.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4842
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3896) وليد بن أبي هشام مستور (تق: 7462) وشيخه زيد بن زائد: مجهول (التحرير: 2137) لم يوثقه غير ابن حبان انوار الصحيفه، صفحه نمبر 169
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، حدثنا نوح بن يزيد بن سيار المؤدب، حدثنا إبراهيم بن سعد، قال: حدثنيه ابن إسحاق، عن عيسى بن معمر، عن عبد الله بن عمرو بن الفغواء الخزاعي، عن ابيه، قال:" دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد اراد ان يبعثني بمال إلى ابي سفيان يقسمه في قريش بمكة بعد الفتح، فقال: التمس صاحبا , قال: فجاءني عمرو بن امية الضمري، فقال: بلغني انك تريد الخروج وتلتمس صاحبا، قال: قلت: اجل، قال: فانا لك صاحب، قال: فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: قد وجدت صاحبا، قال: فقال: من؟ قلت:عمرو بن امية الضمري، قال: إذا هبطت بلاد قومه فاحذره , فإنه قد قال القائل: اخوك البكري ولا تامنه، فخرجنا حتى إذا كنت بالابواء، قال: إني اريد حاجة إلى قومي بودان، فتلبث لي، قلت راشدا , فلما ولى ذكرت قول النبي صلى الله عليه وسلم فشددت على بعيري حتى خرجت اوضعه حتى إذا كنت بالاصافر إذا هو يعارضني في رهط، قال: واوضعت فسبقته، فلما رآني قد فته انصرفوا وجاءني، فقال: كانت لي إلى قومي حاجة، قال: قلت: اجل ومضينا حتى قدمنا مكة، فدفعت المال إلى ابي سفيان". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سَيَّارٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِيهِ ابْنُ إِسْحَاق، عَنْ عِيسَى بْنِ مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْفَغْوَاءِ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَنِي بِمَالٍ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ يَقْسِمُهُ فِي قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ بَعْدَ الْفَتْحِ، فَقَالَ: الْتَمِسْ صَاحِبًا , قَالَ: فَجَاءَنِي عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ، فَقَالَ: بَلَغَنِي أَنَّكَ تُرِيدُ الْخُرُوجَ وَتَلْتَمِسُ صَاحِبًا، قَالَ: قُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: فَأَنَا لَكَ صَاحِبٌ، قَالَ: فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: قَدْ وَجَدْتُ صَاحِبًا، قَالَ: فَقَالَ: مَنْ؟ قُلْتُ:عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ، قَالَ: إِذَا هَبَطْتَ بِلَادَ قَوْمِهِ فَاحْذَرْهُ , فَإِنَّهُ قَدْ قَالَ الْقَائِلُ: أَخُوكَ الْبِكْرِيُّ وَلَا تَأْمَنْهُ، فَخَرَجْنَا حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِالْأَبْوَاءِ، قَالَ: إِنِّي أُرِيدُ حَاجَةً إِلَى قَوْمِي بِوَدَّانَ، فَتَلَبَّثْ لِي، قُلْتُ رَاشِدًا , فَلَمَّا وَلَّى ذَكَرْتُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَدَدْتُ عَلَى بَعِيرِي حَتَّى خَرَجْتُ أُوضِعُهُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِالْأَصَافِرِ إِذَا هُوَ يُعَارِضُنِي فِي رَهْطٍ، قَالَ: وَأَوْضَعْتُ فَسَبَقْتُهُ، فَلَمَّا رَآنِي قَدْ فُتُّهُ انْصَرَفُوا وَجَاءَنِي، فَقَالَ: كَانَتْ لِي إِلَى قَوْمِي حَاجَةٌ، قَالَ: قُلْتُ: أَجَلْ وَمَضَيْنَا حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَدَفَعْتُ الْمَالَ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ".
عمرو بن فغواء خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا، آپ مجھے کچھ مال دے کر ابوسفیان کے پاس بھیجنا چاہتے تھے، جو آپ فتح مکہ کے بعد قریش میں تقسیم فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا: ”کوئی اور ساتھی تلاش کر لو“، تو میرے پاس عمرو بن امیہ ضمری آئے، اور کہنے لگے: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارا ارادہ نکلنے کا ہے اور تمہیں ایک ساتھی کی تلاش ہے، میں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے کہا: میں تمہارا ساتھی بنتا ہوں چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا، مجھے ایک ساتھی مل گیا ہے، آپ نے فرمایا: ”کون؟“ میں نے کہا: عمرو بن امیہ ضمری، آپ نے فرمایا: ”جب تم اس کی قوم کے ملک میں پہنچو تو اس سے بچ کے رہنا اس لیے کہ کہنے والے نے کہا ہے کہ تمہارا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو اس سے مامون نہ رہو“، چنانچہ ہم نکلے یہاں تک کہ جب ہم ابواء میں پہنچے تو اس نے کہا: میں ودان میں اپنی قوم کے پاس ایک ضرورت کے تحت جانا چاہتا ہوں لہٰذا تم میرے لیے تھوڑی دیر ٹھہرو، میں نے کہا: جاؤ راستہ نہ بھولنا، جب وہ چلا گیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد آئی، تو میں نے زور سے اپنے اونٹ کو بھگایا، اور تیزی سے دوڑاتا وہاں سے نکلا، یہاں تک کہ جب مقام اصافر میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ مجھے روکنے آ رہا ہے میں نے اونٹ کو اور تیز کر دیا، اور میں اس سے بہت آگے نکل گیا، جب اس نے مجھے دیکھا کہ میں اسے بہت پیچھے چھوڑ چکا ہوں، تو وہ لوگ لوٹ گئے، اور وہ میرے پاس آیا اور بولا، مجھے اپنی قوم میں ایک کام تھا، میں نے کہا: ٹھیک ہے اور ہم چلتے رہے یہاں تک کہ ہم مکہ پہنچ گئے تو میں نے وہ مال ابوسفیان کو دے دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 10786)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/289) (ضعیف)»
Narrated Amr ibn al-Faghwa' al-Khuzai: The Messenger of Allah ﷺ called me. He intended to send me with some goods to Abu Sufyan to distribute among the Quraysh at Makkah after the conquest. He said: Search for a companion. Then Amr ibn Umayyah ad-Damri came to me and said: I have been told that you are intending to make a journey and are seeking a companion. I said: Yes. He said: I am your companion. I then went to the Messenger of Allah ﷺ and said: I have found a companion. He asked: Who is he? I replied: Amr ibn Umayyah ad-Damri. He said: When you come down to the territory of his people, be careful of him, for a maxim says: If one is your real brother, do not feel safe with him. So we proceeded, and when I reached al-Abwa', he said to me: I have some work with my people at Waddan, so stay here till I come back. I said: Do not lose your way. When he turned his back, I recalled the words of the Prophet ﷺ. So I rode my camel and galloped without stopping. When I reached al-Asafir, he was pursuing me with a group of men. So I galloped and forged ahead of him. When he saw me that I had outstripped him, they returned and he came to me. He said to me: I had some work with my people. I said: Yes. We then went on until we reached Makkah, and I gave the goods to Abu Sufyan.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4843
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اللّٰه بن عمرو بن الفغواء مستور (تق: 3504) أ ي مجهول الحال انوار الصحيفه، صفحه نمبر 169