سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
33. باب فِي رَفْعِ الْحَدِيثِ مِنَ الْمَجْلِسِ
باب: لگانے بجھانے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4860
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ الْوَلِيدِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَنَسَبَهُ لَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ الْوَلِيدُ ابْنُ أَبِي هِشَامٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ زَائِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُبَلِّغُنِي أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِي عَنْ أَحَدٍ شَيْئًا فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْكُمْ وَأَنَا سَلِيمُ الصَّدْرِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے صحابہ میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی شکایت مجھ تک نہ پہنچائے، اس لیے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں (گھر سے) نکل کر تمہاری طرف آؤں، تو میرا سینہ صاف ہو (یعنی کسی کی طرف سے میرے دل کوئی میں کدورت نہ ہو)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 64 (3896)، (تحفة الأشراف: 9227)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/396) (ضعیف)» (زید بن زائد یا زائدہ لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (3896)
وليد بن أبي هشام مستور (تق: 7462) وشيخه زيد بن زائد: مجهول (التحرير: 2137) لم يوثقه غير ابن حبان
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 169
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4860 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4860
فوائد ومسائل:
انسان کو جب کسی اپنے پرائے کی کو ئی غلط بات پہنچتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
زبان یا عمل سے خواہ اس کا اظہار نہ بھی کرے، مگر دل میں ضرور اس کا اثر ہوتا ہے۔
اس لئے بلا وجہِ معقول کسی کی غلط بات دوسرے کے سامنے نہیں کرنی چاہیئے۔
ہاں اگر شرعی ضرورت ہو۔
مثلاَ کسی واسطے سے اس کی نصیحت اور اصلاح مقصود ہو یا کسی کو متنبہ رکھنا مقصود ہوتا جائز ہے۔
یا وہ ازحد فاسق، فاجر اور ظالم ہو۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے: (لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا) برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے۔
(النساء: 148) علمائے اخلاق لکھتے ہیں کہ جو آدمی آپکے سامنے دوسروں پر تبصرے کرتا اور ان کی باتیں نقل کرتا ہے، غالب گمان ہے کہ وہ آپ کے متعلق بھی دوسروں کے ہاں باتیں کرتا ہوگا، اس لیے ایسے آدمی کی اس عادت کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہییے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4860
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3896
´امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کی فضیلت کا بیان`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اصحاب میں سے کوئی کسی کی برائی مجھ تک نہ پہنچائے، کیونکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں ان کی طرف نکلوں تو میرا سینہ صاف ہو“، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا اور آپ نے اسے تقسیم کر دیا، تو میں دو آدمیوں کے پاس پہنچا جو بیٹھے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے: قسم اللہ کی! محمد نے اپنی اس تقسیم سے جو انہوں نے کی ہے نہ رضائے الٰہی طلب کی ہے نہ دار آخرت، جب میں نے اسے سنا تو یہ بات مجھے بر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3896]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں زید بن زائدہ لین الحدیث راوی ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3896