(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر النمري، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن ابي حمزة، عن زيد بن ارقم، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنزلنا منزلا، فقال:" ما انتم جزء من مائة الف جزء ممن يرد علي الحوض"، قال: قلت: كم كنتم يومئذ؟ قال: سبع مائة، او ثمان مائة. (مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَقَالَ:" مَا أَنْتُمْ جُزْءٌ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ جُزْءٍ مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ"، قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: سَبْعُ مِائَةٍ، أَوْ ثَمَانِ مِائَةٍ.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو آپ نے فرمایا: ”تم لوگ ان لوگوں کے ایک لاکھ حصوں میں کا ایک حصہ بھی نہیں ہو جو لوگ حشر میں حوض کوثر پر آئیں گے“۔ راوی (ابوحمزہ) کہتے ہیں: میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا: اس دن آپ لوگ کتنے تھے؟ کہا: سات سویا آٹھ سو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3666)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/367، 369، 371) (صحیح)»
Narrated Zayd ibn Arqam: We were with the Messenger of Allah ﷺ. He said when we arrived at a halting place: You are not a hundred thousandth part of those who will come down to me at the pond. I (the narrator Abu Hamzah) asked: What was your number that day? He replied: Seven or eight hundred.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4728
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (5593)
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، اخبرنا محمد بن فضيل، عن المختار بن فلفل، قال: سمعت انس بن مالك، يقول:" اغفى رسول الله صلى الله عليه وسلم إغفاءة، فرفع راسه متبسما، فإما قال لهم، وإما قالوا له: يا رسول الله، لم ضحكت؟ فقال: إنه انزلت علي آنفا سورة، فقرا: بسم الله الرحمن الرحيم، إنا اعطيناك الكوثر حتى ختمها، فلما قراها، قال: هل تدرون ما الكوثر؟ , قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: فإنه نهر وعدنيه ربي عز وجل في الجنة، وعليه خير كثير، عليه حوض ترد عليه امتي يوم القيامة، آنيته عدد الكواكب". (مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ:" أَغْفَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِغْفَاءَةً، فَرَفَعَ رَأْسَهُ مُتَبَسِّمًا، فَإِمَّا قَالَ لَهُمْ، وَإِمَّا قَالُوا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ ضَحِكْتَ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آنِفًا سُورَةٌ، فَقَرَأَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ حَتَّى خَتَمَهَا، فَلَمَّا قَرَأَهَا، قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الْكَوْثَرُ؟ , قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ نَهْرٌ وَعَدَنِيهِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلَيْهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ، عَلَيْهِ حَوْضٌ تَرِدُ عَلَيْهِ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، آنِيَتُهُ عَدَدُ الْكَوَاكِبِ".
مختار بن فلفل کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہلکی اونگھ طاری ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا، تو یا تو آپ نے لوگوں سے کہا، یا لوگوں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! آپ کو ہنسی کیوں آئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی میرے اوپر ایک سورت نازل ہوئی“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «بسم الله الرحمن الرحيم إنا أعطيناك الكوثر» یہاں تک کہ سورت ختم کر لی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جنت کی ایک نہر ہے جس کا وعدہ مجھ سے میرے رب نے کیا ہے اور اس پر بڑا خیر ہے، اس پر ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت (پینے) آئے گی، اس کے برتن ستاروں کی تعداد میں ہوں گے“۔
Anas bin Malik said: The Messenger of Allah ﷺ dozed for a short while and raised his smiling. He either said to them (people) or they said to him: Messenger of Allah! Why did you laugh? He said: A surah has been revealed to me just now, and then he recited: “In the name of Allah, Most Gracious. Most Merciful. To thee We have granted the fount (of abundance)” up to the end. When he recited, he asked: Do you know what al-kauthar is? They replied: Allah and his Messenger know best. He said: It is a river which my Lord, the Exalted, has promised me ( to grant) in Paradise: there is abundance of good and upon it there is a pond which my people will approach on the Day of Resurrection. There are vessels as numerous as stars (in the sky).
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4729
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (400) مشكوة المصابيح (5929) وانظر الحديث السابق (784)
(مرفوع) حدثنا عاصم بن النضر، اخبرنا المعتمر، قال: سمعت ابي، قال: اخبرنا قتادة، عن انس بن مالك، قال:" لما عرج بنبي الله صلى الله عليه وسلم في الجنة، او كما قال: عرض له نهر حافتاه الياقوت المجيب، او قال: المجوف، فضرب الملك الذي معه يده، فاستخرج مسكا، فقال محمد صلى الله عليه وسلم للملك الذي معه: ما هذا؟ , قال: الكوثر الذي اعطاك الله عز وجل. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ، أخبرنا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: أخبرنا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" لَمَّا عُرِجَ بِنَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنَّةِ، أَوْ كَمَا قَالَ: عُرِضَ لَهُ نَهْرٌ حَافَتَاهُ الْيَاقُوتُ الْمُجَيَّبُ، أَوْ قَالَ: الْمُجَوَّفُ، فَضَرَبَ الْمَلَكُ الَّذِي مَعَهُ يَدَهُ، فَاسْتَخْرَجَ مِسْكًا، فَقَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمَلَكِ الَّذِي مَعَهُ: مَا هَذَا؟ , قَالَ: الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میں جنت میں لے جایا گیا تو آپ کے سامنے ایک نہر لائی گئی، جس کے دونوں کنارے «مجیّب» یا کہا «مجوّف»(خول دار) یاقوت کے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو فرشتہ تھا اس نے اپنا ہاتھ مارا اور اندر سے مشک نکالی، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ والے فرشتے سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہی کوثر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1234)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق 53 (6581)، التوحید 37 (7516) (صحیح)»
Narrated Anas ibn Malik: When the Prophet of Allah ﷺ was lifted to the heavens (for travelling) in Paradise, or as he said, a river whose banks were of transparent or hollowed pearls was presented to him. The angel who was with him struck it with his hand and took out musk. Muhammad ﷺ then asked the angel who was with him: What is this? He replied: It is al-Kawthar which Allah has given you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4730
(موقوف) حدثنا مسلم بن إبراهيم، اخبرنا عبد السلام بن ابي حازم ابو طالوت، قال: شهدت ابا برزة دخل على عبيد الله بن زياد، فحدثني فلان، سماه مسلم، وكان في السماط، فلما رآه عبيد الله، قال:" إن محمديكم هذا الدحداح، ففهمها الشيخ، فقال: ما كنت احسب اني ابقى في قوم يعيروني بصحبة محمد صلى الله عليه وسلم، فقال له عبيد الله: إن صحبة محمد صلى الله عليه وسلم لك زين، غير شين، قال: إنما بعثت إليك لاسالك عن الحوض، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر فيه شيئا، فقال له ابو برزة: نعم، لا مرة، ولا ثنتين، ولا ثلاثا، ولا اربعا، ولا خمسا، فمن كذب به، فلا سقاه الله منه، ثم خرج مغضبا". (موقوف) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أخبرنا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ أَبُو طَالُوتَ، قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا بَرْزَةَ دَخَلَ عَلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَحَدَّثَنِي فُلَانٌ، سَمَّاهُ مُسْلِمٌ، وَكَانَ فِي السِّمَاطِ، فَلَمَّا رَآهُ عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ:" إِنَّ مُحَمَّدِيَّكُمْ هَذَا الدَّحْدَاحُ، فَفَهِمَهَا الشَّيْخُ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ أَحْسَبُ أَنِّي أَبْقَى فِي قَوْمٍ يُعَيِّرُونِي بِصُحْبَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ: إِنَّ صُحْبَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَ زَيْنٌ، غَيْرُ شَيْنٍ، قَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُ إِلَيْكَ لِأَسْأَلَكَ عَنِ الْحَوْضِ، سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ فِيهِ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ أَبُو بَرْزَةَ: نَعَمْ، لَا مَرَّةً، وَلَا ثِنْتَيْنِ، وَلَا ثَلَاثًا، وَلَا أَرْبَعًا، وَلَا خَمْسًا، فَمَنْ كَذَّبَ بِهِ، فَلَا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ مُغْضَبًا".
عبدالسلام بن ابی حازم ابوطالوت بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ عبیداللہ بن زیاد کے ہاں گئے، پھر مجھ سے فلاں شخص نے بیان کیا جو ان کی جماعت میں شریک تھا، (مسلم نے اس کا نام ذکر کیا ہے) جب انہیں عبیداللہ نے دیکھا تو بولا: دیکھو تمہارا یہ محمدی موٹا ٹھگنا ہے، تو شیخ (ابوبرزہ) اس کے اس طعنہ اور توہین کو سمجھ گئے اور بولے: مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میں ایسے لوگوں میں باقی رہ جاؤں گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا مجھے طعنہ دیں گے، تو عبیداللہ نے ان سے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تو آپ کے لیے فخر کی بات ہے، نہ کہ عیب کی، پھر کہنے لگا: میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ میں آپ سے حوض کوثر کے بارے میں معلوم کروں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ ذکر فرماتے سنا ہے؟ تو ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ایک بار نہیں، دو بار نہیں، تین بار نہیں، چار بار نہیں، پانچ بار نہیں (یعنی بہت بار سنا ہے) تو جو شخص اسے جھٹلائے اللہ اسے اس حوض میں سے نہ پلائے، پھر غصے میں وہ نکل کر چلے گئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11600)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/419، 421، 424، 426) (صحیح)»
Abdus Salam ibn Abu Hazim Abu Talut said: I saw Abu Barzah who came to visit Ubaydullah ibn Ziyad. Then a man named Muslim who was there in the company mentioned it to me. When Ubaydullah saw him, he said: This Muhammad of yours is a dwarf and fat. The old man (i. e. Abu Barzah) understood it. So he said: I did not think that I should remain among people who would make me feel ashamed of the company of Muhammad ﷺ. Thereupon Ubaydullah said: The company of Muhammad ﷺ is a honour for you, not a disgrace. He added: I called for you to ask about the reservoir. Did you hear the Messenger of Allah ﷺ mentioning anything about it? Abu Barzah said: Yes, not once, twice, thrice, four times or five times. If anyone believes it, may Allah not supply him with water from it. He then went away angrily.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4731
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أخرجه أحمد (4/421) وللحديث شواھد عند أحمد (4/419، 425، 426)
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، اخبرنا شعبة، عن علقمة بن مرثد، عن سعد بن عبيدة، عن البراء بن عازب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن المسلم إذا سئل في القبر، فشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذلك قول الله عز وجل:يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت سورة إبراهيم آية 27". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، أخبرنا شُعْبَةَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا سُئِلَ فِي الْقَبْرِ، فَشَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ:يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ سورة إبراهيم آية 27".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوتا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں“۔ تو یہی مراد ہے اللہ کے قول «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت»”اللہ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط کرتا ہے“(سورۃ ابراہیم: ۲۷) سے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 86 (3120)، وتفسیر سورة إبراہیم 2 (4699)، صحیح مسلم/الجنة 17 (2871)، سنن الترمذی/تفسیر سورة إبراہیم 15 (3120)، سنن النسائی/الجنائز 114 (2059)، سنن ابن ماجہ/الزھد 32 (4269)، (تحفة الأشراف: 1762)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/282، 291) (صحیح)»
Al-Bara bin Azib reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: When a Muslim is questioned in the grave he testifies that there is no god but Allah and that Muhammad is Allah’s Messenger. That is verified by Allah’s words: “Allah establishes those who believe with the word that stands firm. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4732
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4699) صحيح مسلم (2871)
(مرفوع) حدثنا محمد بن سليمان الانباري، اخبرنا عبد الوهاب بن عطاء الخفاف ابو نصر، عن سعيد، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال:" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل نخلا لبني النجار، فسمع صوتا، ففزع، فقال: من اصحاب هذه القبور؟ , قالوا: يا رسول الله، ناس ماتوا في الجاهلية، فقال: تعوذوا بالله من عذاب النار، ومن فتنة الدجال، قالوا: ومم ذاك يا رسول الله؟ قال: إن المؤمن إذا وضع في قبره، اتاه ملك، فيقول له: ما كنت تعبد؟ فإن الله هداه، قال: كنت اعبد الله، فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: هو عبد الله ورسوله، فما يسال عن شيء غيرها فينطلق به إلى بيت كان له في النار، فيقال له: هذا بيتك كان لك في النار، ولكن الله عصمك، ورحمك، فابدلك به بيتا في الجنة، فيقول: دعوني حتى اذهب فابشر اهلي، فيقال له: اسكن، وإن الكافر إذا وضع في قبره، اتاه ملك، فينتهره، فيقول له: ما كنت تعبد؟ فيقول: لا ادري، فيقال له: لا دريت ولا تليت، فيقال له: فما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: كنت اقول ما يقول الناس، فيضربه بمطراق من حديد بين اذنيه، فيصيح صيحة يسمعها الخلق غير الثقلين" , (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، أخبرنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ أَبُو نَصْرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ نَخْلًا لِبَنِي النَّجَّارِ، فَسَمِعَ صَوْتًا، فَفَزِعَ، فَقَالَ: مَنْ أَصْحَابُ هَذِهِ الْقُبُورِ؟ , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَاسٌ مَاتُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ: تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، قَالُوا: وَمِمَّ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، أَتَاهُ مَلَكٌ، فَيَقُولُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَإِنِ اللَّهُ هَدَاهُ، قَالَ: كُنْتُ أَعْبُدُ اللَّهَ، فَيُقَالُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَمَا يُسْأَلُ عَنْ شَيْءٍ غَيْرِهَا فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى بَيْتٍ كَانَ لَهُ فِي النَّارِ، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا بَيْتُكَ كَانَ لَكَ فِي النَّارِ، وَلَكِنَّ اللَّهَ عَصَمَكَ، وَرَحِمَكَ، فَأَبْدَلَكَ بِهِ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: دَعُونِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأُبَشِّرَ أَهْلِي، فَيُقَالُ لَهُ: اسْكُنْ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، أَتَاهُ مَلَكٌ، فَيَنْتَهِرُهُ، فَيَقُولُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَيُقَالُ لَهُ: لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، فَيُقَالُ لَهُ: فَمَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيَضْرِبُهُ بِمِطْرَاقٍ مِنْ حَدِيدٍ بَيْنَ أُذُنَيْهِ، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا الْخَلْقُ غَيْرُ الثَّقَلَيْنِ" ,
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے کھجور کے ایک باغ میں داخل ہوئے، تو ایک آواز سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا اٹھے، فرمایا: ”یہ قبریں کس کی ہیں؟“ لوگوں نے عرض کیا: زمانہ جاہلیت میں مرنے والوں کی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جہنم کے عذاب سے اور دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو“ لوگوں نے عرض کیا: ایسا کیوں؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے، اور اس سے کہتا ہے: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ تو اگر اللہ اسے ہدایت دیئے ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: میں اللہ کی عبادت کرتا تھا؟ پھر اس سے کہا جاتا ہے، تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ ۱؎ تو وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں پوچھا جاتا، پھر اسے ایک گھر کی طرف لے جایا جاتا ہے، جو اس کے لیے جہنم میں تھا اور اس سے کہا جاتا ہے: یہ تمہارا گھر ہے جو تمہارے لیے جہنم میں تھا، لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، تم پر رحم کیا اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک گھر دیا، تو وہ کہتا ہے: مجھے چھوڑ دو کہ میں جا کر اپنے گھر والوں کو بشارت دے دوں، لیکن اس سے کہا جاتا ہے، ٹھہرا رہ، اور جب کافر قبر میں رکھا جاتا ہے، تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اس سے ڈانٹ کر کہتا ہے: تو کس کی عبادت کرتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا، تو اس سے کہا جاتا ہے: نہ تو نے جانا اور نہ کتاب پڑھی (یعنی قرآن)، پھر اس سے کہا جاتا ہے: تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، تو وہ اسے لوہے کے ایک گرز سے اس کے دونوں کانوں کے درمیان مارتا ہے، تو وہ اس طرح چلاتا ہے کہ اس کی آواز آدمی اور جن کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے“۔
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے «في هذا الرجل» سے یہ خیال کیا ہے کہ میت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ دکھائی جاتی ہے، یا پردہ ہٹا دیا جاتا ہے، مگر یہ محض خیال ہے، اس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں وارد نہیں، مردہ نور ایمانی سے ان سوالوں کے جواب دے گا نا کہ دیکھنے اور جاننے کی بنیاد پر، ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا منکر نکیر کے سوال پر وہ آپ کو نہیں پہچان سکتا،اور آج کا مومن موحد باوجود یہ کہ اس نے آپ کو دیکھا نہیں مگر جواب درست دے گا کیونکہ اس کا نور ایمان اس کو جواب سمجھائے گا، اگرچہ لفظ «هذا» محسوس قریب کے لئے آتا ہے مگر «ذلك» جو بعید کے لئے وضع کیا گیا ہے، اس کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے وبالعکس، «وقد ذكره البخاري عن معمر بن المثنى عن أبي عبيدة» پھر جواب میں «هو» کا لفظ موجود ہے جو ضمیر غائب ہے جو اس کے حقیقی معنی مراد لینے سے مانع ہے، «فافهم» ۔
Anas bin Malik said: The Messenger of Allah ﷺ entered the garden of the palm trees of Banu al-Najjar. He heard a voice and was terrified. He asked: Who are the people buried in these graves? The people replied: Messenger of Allah! These are some people who died in the pre-Islamic times. He said: Seek refuge in Allah from the punishment of the fire, and the trail of Antichrist. They asked: Why is it that, Messenger of Allah? He said: When a man is placed in his grave, an angel comes to him and says to him: Whom did you worship? Allah then guides him and he says: I worshiped Allah. He is then asked: What was your opinion of this man? He replies: He is Allah’s servant and His Messenger. He will not then be asked about anything else. He will then be taken to his abode in Hell and will be told: This was your abode in Hell, but Allah protected you and had mercy on you substituted for you an abode in Paradise for it. He will say: Leave me so that I may go and give glad tidings to my family. He will be told: Dwell. When an infidel is placed in his grave, an angel comes to him, reprimands him and asks him: Whom did you worship? He replies: I do not know. He will be told: You neither knew nor did you follow (the believers). He is then asked: What was your opinion on this man? He replies: I held the opinion that the other people held. He will then give him a blow between his ears with an iron hammer and will utter a shout which will be heard by all the creatures (near him) with the exception of men and jinn.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4733
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1338) صحيح مسلم (2870) وانظر الحديث السابق (3231)
(مرفوع) حدثنا محمد بن سليمان، اخبرنا عبد الوهاب بمثل هذا الإسناد، نحوه، قال: إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه اصحابه، إنه ليسمع قرع نعالهم فياتيه ملكان، فيقولان له: فذكر قريبا من حديث الاول، قال فيه: واما الكافر، والمنافق، فيقولان له: زاد المنافق، وقال: يسمعها من وليه غير الثقلين. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أخبرنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بِمِثْلِ هَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ، قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ فَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: فَذَكَرَ قَرِيبًا مِنْ حَدِيثِ الْأَوَّلِ، قَالَ فِيهِ: وَأَمَّا الْكَافِرُ، وَالْمُنَافِقُ، فَيَقُولانِ لَهُ: زَادَ الْمُنَافِقَ، وَقَالَ: يَسْمَعُهَا مَنْ وَلِيَهُ غَيْرُ الثَّقَلَيْنِ.
عبدالوہاب سے اسی جیسی سند سے اس طرح کی حدیث مروی ہے اس میں ہے: ”جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے رشتہ دار واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے، اتنے میں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اور اس سے کہتے ہیں پھر انہوں نے پہلی حدیث کے قریب قریب بیان کیا، اور اس میں اس طرح ہے: رہے کافر اور منافق تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں“ راوی نے ”منافق“ کا اضافہ کیا ہے اور اس میں ہے: ”اسے ہر وہ شخص سنتا ہے جو اس کے قریب ہوتا ہے، سوائے آدمی اور جن کے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: مردہ واپس لوٹنے والوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے کیونکہ وہ نیچے زمین میں ہے اور چلنے والے اوپر چل رہے ہوتے ہیں، ان کی بات چیت نہیں سنتا کیونکہ قبر پر آواز جانے کا کوئی ذریعہ نہیں، اس سے سماع موتیٰ پر استدلال کرنا محض غلط ہے، کیونکہ لوٹنے والوں کی بات سننے کا ذکر اس حدیث میں نہیں ہے، لہذا جوتیوں کی دھمک سننے سے بات چیت کے سننے کا اثبات غلط ہے، نیز حدیث میں اس خاص موقع پر مردوں کے سننے کی یہ بات آئی ہے، جیسے غزوہ بدر میں قریش کے مقتولین جو بدر کے کنویں میں ڈال دئیے گئے تھے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کیا تھا یہ بھی مخصوص صورت حال تھی، اس طرح کے واقعات سے مردوں کے عمومی طور پر سننے پر استدلال صحیح نہیں ہے، دلائل کی روشنی میں صحیح بات یہی ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں، (ملاحظہ ہو علامہ آلوسی کی کتاب: ” کیا مردے سنتے ہیں؟ “ نیز مولانا عبداللہ بھاولپوری کا رسالہ ” سماع موتی “)۔
The tradition mentioned above has also transmitted by Abd al-Wahhab through a different chain of narrators in a similar manner. This version has: When a man is placed in his grave and his friends leaves him, he hears the beat of his sandals. Then two angles come and speak to him. He then mentioned the rest of the tradition nearly similar to the previous one. It goes: As for the infidel and hypocrite they say to them. This version adds the word “hypocrite”. And he said: those who are near him will hear (his shout) with the exception of men and jinn.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4734
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1338) صحيح مسلم (2870) وانظر الحديث السابق (3231)
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، اخبرنا جرير. ح وحدثنا هناد بن السري، قال: حدثنا ابو معاوية، وهذا لفظ هناد، عن الاعمش، عن المنهال، عن زاذان، عن البراء بن عازب، قال:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة رجل من الانصار، فانتهينا إلى القبر، ولما يلحد، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجلسنا حوله، كانما على رءوسنا الطير، وفي يده عود ينكت به في الارض، فرفع راسه، فقال: استعيذوا بالله من عذاب القبر، مرتين او ثلاثا , زاد في حديث جرير هاهنا، وقال: وإنه ليسمع خفق نعالهم إذا ولوا مدبرين، حين يقال له: يا هذا، من ربك؟ وما دينك؟ ومن نبيك؟ قال هناد: قال: وياتيه ملكان، فيجلسانه، فيقولان له: من ربك؟ فيقول: ربي الله، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: ديني الإسلام، فيقولان له: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ قال: فيقول: هو رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيقولان: وما يدريك؟ فيقول: قرات كتاب الله، فآمنت به، وصدقت، زاد في حديث جرير، فذلك قول الله عز وجل: يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة إبراهيم آية 27، ثم اتفقا، قال: فينادي مناد من السماء ان قد صدق عبدي، فافرشوه من الجنة، وافتحوا له بابا إلى الجنة، والبسوه من الجنة، قال: فياتيه من روحها وطيبها، قال: ويفتح له فيها مد بصره، قال: وإن الكافر، فذكر موته، قال: وتعاد روحه في جسده، وياتيه ملكان فيجلسانه، فيقولان له: من ربك؟ فيقول: هاه هاه هاه لا ادري، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول هاه هاه لا ادري، فيقولان: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ فيقول: هاه هاه لا ادري، فينادي مناد من السماء ان كذب، فافرشوه من النار، والبسوه من النار، وافتحوا له بابا إلى النار، قال: فياتيه من حرها، وسمومها، قال: ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه اضلاعه" زاد في حديث جرير، قال: ثم يقيض له اعمى، ابكم معه مرزبة من حديد، لو ضرب بها جبل لصار ترابا، قال: فيضربه بها ضربة يسمعها ما بين المشرق والمغرب إلا الثقلين، فيصير ترابا، قال: ثم تعاد فيه الروح". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ. ح وَحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَهَذَا لَفْظُ هَنَّادٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْمِنْهَالِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِنَا الطَّيْرُ، وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا , زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ هَاهُنَا، وَقَالَ: وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ، حِينَ يُقَالُ لَهُ: يَا هَذَا، مَنْ رَبُّكَ؟ وَمَا دِينُكَ؟ وَمَنْ نَبِيُّكَ؟ قَالَ هَنَّادٌ: قَالَ: وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولَانِ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ، فَآمَنْتُ بِهِ، وَصَدَّقْتُ، زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ، فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة إبراهيم آية 27، ثُمَّ اتَّفَقَا، قَالَ: فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ: فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا، قَالَ: وَيُفْتَحُ لَهُ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهِ، قَالَ: وَإِنَّ الْكَافِرَ، فَذَكَرَ مَوْتَهُ، قَالَ: وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ، قَالَ: فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا، وَسَمُومِهَا، قَالَ: وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ" زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ، قَالَ: ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى، أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ، لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا، قَالَ: فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ، فَيَصِيرُ تُرَابًا، قَالَ: ثُمَّ تُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے، ہم قبر کے پاس پہنچے، وہ ابھی تک تیار نہ تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا: ”قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو“ اسے دو بار یا تین بار فرمایا، یہاں جریر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: اور فرمایا: ”اور وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں، اسی وقت اس سے پوچھا جاتا ہے، اے جی! تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟“ ہناد کی روایت کے الفاظ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا رب (معبود) کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے، میرا رب (معبود) اللہ ہے، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے، پھر پوچھتے ہیں: یہ کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں: تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ سمجھا“ جریر کی روایت میں یہاں پر یہ اضافہ ہے: ”اللہ تعالیٰ کے قول «يثبت الله الذين آمنوا» سے یہی مراد ہے“(پھر دونوں کی روایتوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے، اور تا حد نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے“۔ اور رہا کافر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا: ”اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، تو پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: اس نے جھوٹ کہا، اس کے لیے جہنم کا بچھونا بچھا دو اور جہنم کا لباس پہنا دو، اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، تو اس کی تپش اور اس کی زہریلی ہوا (لو) آنے لگتی ہے اور اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہیں“ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے: ”پھر اس پر ایک اندھا گونگا (فرشتہ) مقرر کر دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ اسے کسی پہاڑ پر بھی مارے تو وہ بھی خاک ہو جائے، چنانچہ وہ اسے اس کی ایک ضرب لگاتا ہے جس کو مشرق و مغرب کے درمیان کی ساری مخلوق سوائے آدمی و جن کے سنتی ہے اور وہ مٹی ہو جاتا ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم (3212)، (تحفة الأشراف: 1758) (صحیح)» حدیث کا پہلا ٹکڑا گزر چکا ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر (3212)
Narrated Al-Bara ibn Azib: We went out with the Messenger of Allah ﷺ accompanying the bier of a man of the Ansar. When we reached his grave, it was not yet dug. So the Messenger of Allah ﷺ sat down and we also sat down around him as if birds were over our heads. He had in his hand a stick with which he was scratching the ground. He then raised his head and said: Seek refuge with Allah from the punishment in the grave. He said it twice or thrice. The version of Jabir adds here: He hears the beat of their sandals when they go back, and at that moment he is asked: O so and so! Who is your Lord, what is your religion, and who is your Prophet? Hannad's version says: Two angels will come to him, make him sit up and ask him: Who is your Lord? He will reply: My Lord is Allah. They will ask him: What is your religion? He will reply: My religion is Islam. They will ask him: What is your opinion about the man who was sent on a mission among you? He will reply: He is the Messenger of Allah ﷺ. They will ask: Who made you aware of this? He will reply: I read Allah's Book, believed in it, and considered it true; which is verified by Allah's words: "Allah's Book, believed in it, and considered it true, which is verified by Allah's words: "Allah establishes those who believe with the word that stands firm in this world and the next. " The agreed version reads: Then a crier will call from Heaven: My servant has spoken the truth, so spread a bed for him from Paradise, clothe him from Paradise, and open a door for him into Paradise. So some of its air and perfume will come to him, and a space will be made for him as far as the eye can see. He also mentioned the death of the infidel, saying: His spirit will be restored to his body, two angels will come to him, make him sit up and ask him: Who is your Lord? He will reply: Alas, alas! I do not know. They will ask him: What is your religion? He will reply: Alas, alas! I do not know. They will ask: Who was the man who was sent on a mission among you? He will reply: Alas, alas! I do not know. Then a crier will call from Heaven: He has lied, so spread a bed for him from Hell, clothe him from Hell, and open for him a door into Hell. Then some of its heat and pestilential wind will come to him, and his grave will be compressed, so that his ribs will be crushed together. Jabir's version adds: One who is blind and dumb will then be placed in charge of him, having a sledge-hammer such that if a mountain were struck with it, it would become dust. He will give him a blow with it which will be heard by everything between the east and the west except by men and jinn, and he will become dust. Then his spirit will be restored to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4735
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (131، 1630) الاعمش صرح بالسماع عند الحاكم (1/ 37 ح 107) والطبراني في حديث الطوال (25) وسندهما حسن، قال معاذ علي زئي: وھما يغنيان عن الحديث ابي داود (4753) ولفظه ’’وكأنما علي رءوسنا الطير‘‘ قد ثبت في حديث غيره، انظر شرح مشكل الآثار للطحاوي (10/ 239 ح 4061 وسنده صحيح)
The tradition mentioned above has also been transmitted by Al-Bara (b. Azib) from the prophet ﷺ through a different chain of narrators is a similar way.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4736
قال الشيخ زبير على زئي: حسن انظر الحديث السابق (3212، 4753)
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم، وحميد بن مسعدة، ان إسماعيل بن إبراهيم حدثهم، قال: اخبرنا يونس، عن الحسن، عن عائشة،" انها ذكرت النار، فبكت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما يبكيك؟ , قالت: ذكرت النار، فبكيت، فهل تذكرون اهليكم يوم القيامة؟ , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما في ثلاثة مواطن، فلا يذكر احد احدا عند الميزان، حتى يعلم ايخف ميزانه او يثقل، وعند الكتاب حين يقال: هاؤم اقرءوا كتابيه حتى يعلم اين يقع كتابه، افي يمينه، ام في شماله، ام من وراء ظهره؟ وعند الصراط إذا وضع بين ظهري جهنم"، قال يعقوب، عن يونس، وهذا لفظ حديثه. (مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حدثهم، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّهَا ذَكَرَتِ النَّارَ، فَبَكَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يُبْكِيكِ؟ , قَالَتْ: ذَكَرْتُ النَّارَ، فَبَكَيْتُ، فَهَلْ تَذْكُرُونَ أَهْلِيكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا فِي ثَلَاثَةِ مَوَاطِنَ، فَلَا يَذْكُرُ أَحَدٌ أَحَدًا عِنْدَ الْمِيزَانِ، حَتَّى يَعْلَمَ أَيَخِفُّ مِيزَانُهُ أَوْ يَثْقُلُ، وَعِنْدَ الْكِتَابِ حِينَ يُقَالُ: هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ حَتَّى يَعْلَمَ أَيْنَ يَقَعُ كِتَابُهُ، أَفِي يَمِينِهِ، أَمْ فِي شِمَالِهِ، أَمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ؟ وَعِنْدَ الصِّرَاطِ إِذَا وُضِعَ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ"، قَالَ يَعْقُوبُ، عَنْ يُونُسَ، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِهِ.
حسن بصری کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے جہنم کا ذکر کیا تو رونے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کیوں روتی ہو؟“، وہ بولیں: مجھے جہنم یاد آ گئی تو رونے لگی، کیا آپ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یاد کریں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین جگہوں پر تو وہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا: ایک میزان کے پاس یہاں تک کہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا میزان ہلکا ہے یا بھاری ہے، دوسرے کتاب کے وقت جب کہا جائے گا: آؤ پڑھو اپنی اپنی کتاب یہاں تک کہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس کی کتاب کس میں دی جائے گی آیا دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں، یا پھر پیٹھ کے پیچھے سے اور تیسرے پل صراط کے پاس جب وہ جہنم پر رکھا جائے گا“۔ یعقوب نے «عن يونس» کے الفاظ سے روایت کی اور یہ حدیث اسی کے الفاظ میں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفردبہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 16058)، وقد أخرجہ: حم (6/101) (ضعیف)» (اس کے راوی حسن بصری مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہیں)
Aishah said that she thought of Hell and wept. The Messenger of Allah ﷺ asked her: What makes you weep ? She replied: I thought of Hell and wept. Will you remember your family on the 4th Day of resurrection ? the Messenger of Allah ﷺ said: There are three places where no one will remember anyone: at the scale until one knows whether his weight is light or heavy; at (the examination of) the book when one is commanded: Take and read Allah’s record, until he knows whether his book will be put into his right hand, or into his left hand, or behind his back ; and the path when it is placed across JAHANNAM.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4737
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الحسن البصري عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 166