Note: Copy Text and Paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ
کتاب: سنتوں کا بیان
28. باب فِي ذِكْرِ الْمِيزَانِ
باب: ترازو کا بیان۔
حدیث نمبر: 4751
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، أخبرنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ أَبُو نَصْرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ نَخْلًا لِبَنِي النَّجَّارِ، فَسَمِعَ صَوْتًا، فَفَزِعَ، فَقَالَ: مَنْ أَصْحَابُ هَذِهِ الْقُبُورِ؟ , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَاسٌ مَاتُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ: تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، قَالُوا: وَمِمَّ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، أَتَاهُ مَلَكٌ، فَيَقُولُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَإِنِ اللَّهُ هَدَاهُ، قَالَ: كُنْتُ أَعْبُدُ اللَّهَ، فَيُقَالُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَمَا يُسْأَلُ عَنْ شَيْءٍ غَيْرِهَا فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى بَيْتٍ كَانَ لَهُ فِي النَّارِ، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا بَيْتُكَ كَانَ لَكَ فِي النَّارِ، وَلَكِنَّ اللَّهَ عَصَمَكَ، وَرَحِمَكَ، فَأَبْدَلَكَ بِهِ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: دَعُونِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأُبَشِّرَ أَهْلِي، فَيُقَالُ لَهُ: اسْكُنْ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، أَتَاهُ مَلَكٌ، فَيَنْتَهِرُهُ، فَيَقُولُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَيُقَالُ لَهُ: لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، فَيُقَالُ لَهُ: فَمَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيَضْرِبُهُ بِمِطْرَاقٍ مِنْ حَدِيدٍ بَيْنَ أُذُنَيْهِ، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا الْخَلْقُ غَيْرُ الثَّقَلَيْنِ" ,
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے کھجور کے ایک باغ میں داخل ہوئے، تو ایک آواز سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا اٹھے، فرمایا: یہ قبریں کس کی ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: زمانہ جاہلیت میں مرنے والوں کی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ جہنم کے عذاب سے اور دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو لوگوں نے عرض کیا: ایسا کیوں؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے، اور اس سے کہتا ہے: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ تو اگر اللہ اسے ہدایت دیئے ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: میں اللہ کی عبادت کرتا تھا؟ پھر اس سے کہا جاتا ہے، تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ ۱؎ تو وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں پوچھا جاتا، پھر اسے ایک گھر کی طرف لے جایا جاتا ہے، جو اس کے لیے جہنم میں تھا اور اس سے کہا جاتا ہے: یہ تمہارا گھر ہے جو تمہارے لیے جہنم میں تھا، لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، تم پر رحم کیا اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک گھر دیا، تو وہ کہتا ہے: مجھے چھوڑ دو کہ میں جا کر اپنے گھر والوں کو بشارت دے دوں، لیکن اس سے کہا جاتا ہے، ٹھہرا رہ، اور جب کافر قبر میں رکھا جاتا ہے، تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اس سے ڈانٹ کر کہتا ہے: تو کس کی عبادت کرتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا، تو اس سے کہا جاتا ہے: نہ تو نے جانا اور نہ کتاب پڑھی (یعنی قرآن)، پھر اس سے کہا جاتا ہے: تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، تو وہ اسے لوہے کے ایک گرز سے اس کے دونوں کانوں کے درمیان مارتا ہے، تو وہ اس طرح چلاتا ہے کہ اس کی آواز آدمی اور جن کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (3231)، (تحفة الأشراف: 1214) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے  «في هذا الرجل» سے یہ خیال کیا ہے کہ میت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ دکھائی جاتی ہے، یا پردہ ہٹا دیا جاتا ہے، مگر یہ محض خیال ہے، اس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں وارد نہیں، مردہ نور ایمانی سے ان سوالوں کے جواب دے گا نا کہ دیکھنے اور جاننے کی بنیاد پر، ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا منکر نکیر کے سوال پر وہ آپ کو نہیں پہچان سکتا،اور آج کا مومن موحد باوجود یہ کہ اس نے آپ کو دیکھا نہیں مگر جواب درست دے گا کیونکہ اس کا نور ایمان اس کو جواب سمجھائے گا، اگرچہ لفظ «هذا» محسوس قریب کے لئے آتا ہے مگر  «ذلك» جو بعید کے لئے وضع کیا گیا ہے، اس کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے وبالعکس، «وقد ذكره البخاري عن معمر بن المثنى عن أبي عبيدة» پھر جواب میں «هو» کا لفظ موجود ہے جو ضمیر غائب ہے جو اس کے حقیقی معنی مراد لینے سے مانع ہے، «فافهم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح