(مرفوع) حدثنا محمد بن سليمان، اخبرنا عبد الوهاب بمثل هذا الإسناد، نحوه، قال: إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه اصحابه، إنه ليسمع قرع نعالهم فياتيه ملكان، فيقولان له: فذكر قريبا من حديث الاول، قال فيه: واما الكافر، والمنافق، فيقولان له: زاد المنافق، وقال: يسمعها من وليه غير الثقلين. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أخبرنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بِمِثْلِ هَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ، قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ فَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: فَذَكَرَ قَرِيبًا مِنْ حَدِيثِ الْأَوَّلِ، قَالَ فِيهِ: وَأَمَّا الْكَافِرُ، وَالْمُنَافِقُ، فَيَقُولانِ لَهُ: زَادَ الْمُنَافِقَ، وَقَالَ: يَسْمَعُهَا مَنْ وَلِيَهُ غَيْرُ الثَّقَلَيْنِ.
عبدالوہاب سے اسی جیسی سند سے اس طرح کی حدیث مروی ہے اس میں ہے: ”جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے رشتہ دار واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے، اتنے میں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اور اس سے کہتے ہیں پھر انہوں نے پہلی حدیث کے قریب قریب بیان کیا، اور اس میں اس طرح ہے: رہے کافر اور منافق تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں“ راوی نے ”منافق“ کا اضافہ کیا ہے اور اس میں ہے: ”اسے ہر وہ شخص سنتا ہے جو اس کے قریب ہوتا ہے، سوائے آدمی اور جن کے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: مردہ واپس لوٹنے والوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے کیونکہ وہ نیچے زمین میں ہے اور چلنے والے اوپر چل رہے ہوتے ہیں، ان کی بات چیت نہیں سنتا کیونکہ قبر پر آواز جانے کا کوئی ذریعہ نہیں، اس سے سماع موتیٰ پر استدلال کرنا محض غلط ہے، کیونکہ لوٹنے والوں کی بات سننے کا ذکر اس حدیث میں نہیں ہے، لہذا جوتیوں کی دھمک سننے سے بات چیت کے سننے کا اثبات غلط ہے، نیز حدیث میں اس خاص موقع پر مردوں کے سننے کی یہ بات آئی ہے، جیسے غزوہ بدر میں قریش کے مقتولین جو بدر کے کنویں میں ڈال دئیے گئے تھے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کیا تھا یہ بھی مخصوص صورت حال تھی، اس طرح کے واقعات سے مردوں کے عمومی طور پر سننے پر استدلال صحیح نہیں ہے، دلائل کی روشنی میں صحیح بات یہی ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں، (ملاحظہ ہو علامہ آلوسی کی کتاب: ” کیا مردے سنتے ہیں؟ “ نیز مولانا عبداللہ بھاولپوری کا رسالہ ” سماع موتی “)۔
The tradition mentioned above has also transmitted by Abd al-Wahhab through a different chain of narrators in a similar manner. This version has: When a man is placed in his grave and his friends leaves him, he hears the beat of his sandals. Then two angles come and speak to him. He then mentioned the rest of the tradition nearly similar to the previous one. It goes: As for the infidel and hypocrite they say to them. This version adds the word “hypocrite”. And he said: those who are near him will hear (his shout) with the exception of men and jinn.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4734
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1338) صحيح مسلم (2870) وانظر الحديث السابق (3231)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4752
فوائد ومسائل: مذکورہ بالا احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، بظاہر جواختلاف نظرآتا ہے، مختلف افراد کے احوال کی بنا پر ہے، صالح بندے کے پاس ایک ہی فرشتہ آتا ہے اور نرمی کا معاملہ کرتا ہے اور دوسرے کے پاس دو آتے ہیں اور یہ فرشتے کبھی لوگوں کے جانے سے پہلے آجاتے ہیں اور دونوں ہی سوال کرتے ہیں تا کہ قبر کے سوالات اور وہاں کے امتحان کی ہیبت اور شدت میں سختی کا اظہارہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4752