(مرفوع) حدثنا وهب بن بقية، عن خالد، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افترقت اليهود على إحدى او ثنتين وسبعين فرقة، وتفرقت النصارى على إحدى او ثنتين وسبعين فرقة، وتفترق امتي على ثلاث وسبعين فرقة". (مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے، نصاریٰ اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15023)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الإیمان 18 (2640)، سنن ابن ماجہ/الفتن 17 (3991)، مسند احمد (2/332) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں مذموم فرقوں سے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے فرقے مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ فرقے ہیں جن کا اختلاف اہل حق سے اصول دین و عقائد اسلام میں ہے، مثلا مسائل توحید، تقدیر، نبوت، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت و موالات وغیرہ میں، کیونکہ انہی مسائل میں اختلاف رکھنے والوں نے باہم اکفار و تکفیر کی ہے، فروعی مسائل میں اختلاف رکھنے والے باہم اکفار و تکفیر نہیں کرتے، (۷۳) واں فرقہ جو ناجی ہے یہ وہ فرقہ ہے جو سنت پر گامزن ہے، بدعت سے مجتنب اور صحابہ کرام سے محبت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلتا ہے، حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ ان تمام گمراہ فرقوں کا شمار بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں کیا ہے وہ جہنم میں تو جائیں گے، مگر ہمیشہ کے لئے نہیں، سزا کاٹ کر اس سے نجات پا جائیں گے (۷۳) واں فرقہ ہی اول وہلہ میں ناجی ہو گا کیونکہ یہی سنت پر ہے، یہی باب سے مناسبت ہے۔
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: The Jews were split up into seventy-one or seventy-two sects; and the Christians were split up into seventy one or seventy-two sects; and my community will be split up into seventy-three sects.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4579
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أخرجه الترمذي (2640 وسنده حسن) وابن ماجه (3991 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، ومحمد بن يحيى، قالا: حدثنا ابو المغيرة، حدثنا صفوان. ح وحدثنا عمرو بن عثمان، حدثنا بقية، قال: حدثني صفوان نحوه، قال: حدثني ازهر بن عبد الله الحرازي، عن ابي عامر الهوزني، عن معاوية بن ابي سفيان، انه قام فينا، فقال: الا إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام فينا، فقال:" الا إن من قبلكم من اهل الكتاب افترقوا على ثنتين وسبعين ملة، وإن هذه الملة ستفترق على ثلاث وسبعين: ثنتان وسبعون في النار، وواحدة في الجنة وهي الجماعة، زاد ابن يحيى، وعمرو في حديثيهما: وإنه سيخرج من امتي اقوام تجارى بهم تلك الاهواء كما يتجارى الكلب لصاحبه، وقال عمرو: الكلب بصاحبه لا يبقى منه عرق ولا مفصل إلا دخله". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ. ح وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَفْوَانُ نَحْوَهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَرَازِيُّ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، أَنَّهُ قَامَ فِينَا، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِينَا، فَقَالَ:" أَلَا إِنَّ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرَقُوا عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَإِنَّ هَذِهِ الْمِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ: ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهِيَ الْجَمَاعَةُ، زَادَ ابْنُ يَحْيَى، وَعَمْرٌو فِي حَدِيثَيْهِمَا: وَإِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ تَجَارَى بِهِمْ تِلْكَ الْأَهْوَاءُ كَمَا يَتَجَارَى الْكَلْبُ لِصَاحِبِهِ، وَقَالَ عَمْرٌو: الْكَلْبُ بِصَاحِبِهِ لَا يَبْقَى مِنْهُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَهُ".
ابوعامر عبداللہ بن لحی حمصی ہوزنی کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر کہا: سنو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”سنو! تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے، بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹ گئے، اور یہ امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی، بہتر فرقے جہنم میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور یہی «الجماعة» ہے“۔ ابن یحییٰ اور عمرو نے اپنی روایت میں اتنا مزید بیان کیا: ”اور عنقریب میری امت میں ایسے لوگ نکلیں گے جن میں گمراہیاں اسی طرح سمائی ہوں گی، جس طرح کتے کا اثر اس شخص پر چھا جاتا ہے جسے اس نے کاٹ لیا ہو ۱؎“۔ اور عمرو کی روایت میں «لصاحبه» کے بجائے «بصاحبه» ہے اس میں یہ بھی ہے: کوئی رگ اور کوئی جوڑ ایسا باقی نہیں رہتا جس میں اس کا اثر داخل نہ ہوا ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11425)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/102)، سنن الدارمی/السیر 75 (2560) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: جس طرح کتے کا زہر رگ و ریشہ میں سرایت کر جاتا ہے، اسی طرح بدعتیں ان کے رگ و ریشہ میں سما جاتی ہیں۔
Abu Amir al-Hawdhani said: Muawiyah bin Abi Sufiyan stood among us and said: Beware! The Messenger of ALLA H ﷺ stood among us and said: Beware! The people of the Book before were split up into seventy-two sects, and this community will be split into seventy three: seventy-two of them will go to Hell and one of them will go to Paradise, and it is the majority group. Ibn Yahya and Amr added in their version: “ There will appear among my community people who will be dominated by desires like rabies which penetrates its patient”, Amr’s version has: “penetrates its patient. There remains no vein and no joint but it penetrates it. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4580
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (172)
(مرفوع) حدثنا القعنبي، حدثنا يزيد بن إبراهيم التستري، عن عبد الله بن ابي مليكة، عن القاسم بن محمد، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية: هو الذي انزل عليك الكتاب منه آيات محكمات إلى اولو الالباب سورة آل عمران آية 7، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإذا رايتم الذين يتبعون ما تشابه منه فاولئك الذين سمى الله فاحذروهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّسْتُرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ: هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ إِلَى أُولُو الأَلْبَابِ سورة آل عمران آية 7، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات» سے لے کر «أولو الألباب»۱؎ تک تلاوت کی اور فرمایا: ”جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہوں تو جان لو کہ یہی لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے تو ان سے بچو ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر آل عمران 1 (4547)، صحیح مسلم/العلم 1 (2665)، سنن الترمذی/تفسیر آل عمران 4 (2993)، (تحفة الأشراف: 17460)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة 7 (47)، مسند احمد (6/48)، سنن الدارمی/المقدمة 19 (147) (صحیح)»
وضاحت: وضاحت ۱؎: پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے: اللہ ہی ہے جس نے تجھ پر وہ کتاب اتاری جس میں واضح و مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض متشابہ آیتیں ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ محکم کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں فتنہ پروری کی طلب میں اور اس کی حقیقی مراد معلوم کرنے کے لئے، حالانکہ اس کی حقیقی مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، پختہ علم والے تو یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لاچکے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں (سورۃ آل عمران:۷) ۲؎: محکم آیات کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگنا تمام بدعتیوں کی عادت ہے، وہ قدیم ہوں یا جدید ان سے دور رہنے کا حکم ہے۔
Aishah said: The Messenger of Allah ﷺ recited this verse: “He it is who has sent down to thee the Book: in it are verses basic or fundamental. . . . ” Up to “men of understanding”. She said: The Messenger of Allah ﷺ then said: When you see those people who follow that which is allegorical in the Quran, those are the people whom Allah has named (in the Quran). So avoid them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4581
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4547) صحيح مسلم (2665)
عبداللہ بن کعب سے روایت ہے(جب کعب رضی اللہ عنہ نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں عبداللہ آپ کے قائد تھے) وہ کہتے ہیں: میں نے کعب بن مالک سے سنا (ابن السرح ان کے غزوہ تبوک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ ذکر کر کے کہتے ہیں کہ کعب نے کہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے گفتگو کرنے سے منع فرما دیا یہاں تک کہ جب لمبا عرصہ ہو گیا تو میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار کود کر ان کے پاس گیا، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے، میں نے انہیں سلام کیا تو قسم اللہ کی! انہوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا، پھر راوی نے ان کی توبہ کے نازل ہونے کا قصہ بیان کیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس سے بات چیت کرنے سے منع فرما دیتے اس سے وہ ہرگز بات چیت نہیں کرتے تھے چاہے وہ عزیز و قریب دوست و رفیق ہی کیوں نہ ہو، اہل بدعت و اہل ہوس سے دور رہنے اور ان سے بغض رکھنے کا حکم ہے، تمام مسلمانوں کو اس کا خیال کرنا چاہئے تاکہ ان کے فتنوں سے خود محفوظ رہیں، اور اپنے معاشرے کو محفوظ رکہیں۔
Abdullah bin Ka;b bin Malik who used to lead his father from among his sons when he became blind, said: I heard Kaab bin Malik say: The transmitter Ibn al-sarh then narrated the story of his remaining behind from the prophet ﷺ forbade the Muslims to speak to any of us three. When ( in this state) abundant time passed on me, I ascended the wall of the garden of Abu Qatadah who was my cousin. I saluted him, but, I swear by Allah, he did not return salute to me. He then narrated the story of the revelation of the Quranic verses relating to his repentance.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4583
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4676) صحيح مسلم (2769)
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، اخبرنا عطاء الخراساني، عن يحيى بن يعمر، عن عمار بن ياسر، قال:" قدمت على اهلي وقد تشققت يداي فخلقوني بزعفران، فغدوت على النبي صلى الله عليه وسلم، فسلمت عليه فلم يرد علي، وقال: اذهب فاغسل هذا عنك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ:" قَدِمْتُ عَلَى أَهْلِي وَقَدْ تَشَقَّقَتْ يَدَايَ فَخَلَّقُونِي بِزَعْفَرَانٍ، فَغَدَوْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، وَقَالَ: اذْهَبْ فَاغْسِلْ هَذَا عَنْكَ".
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا، میرے دونوں ہاتھ پھٹ گئے تھے، تو انہوں نے میرے (ہاتھوں پر) زعفران مل دیا، صبح کو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور سلام کیا تو آپ نے مجھے جواب نہیں دیا اور فرمایا: ”جاؤ اسے دھو ڈالو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (4176)، (تحفة الأشراف: 10372) (حسن)» (متابعات اور شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں عطاء خراسانی حافظہ کے کمزور راوی ہیں)
Ammar bin Yasir said: I came to my family when my hands had cracks. They dyed me with saffron. I then went to Prophet ﷺ and saluted him, but he did not return me salutation. He said: Go and wash it away from you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4584
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديثان السابقان (225،4176) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 162
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن ثابت البناني، عن سمية، عن عائشة رضي الله عنها" انه اعتل بعير لصفية بنت حيي وعند زينب فضل ظهر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لزينب: اعطيها بعيرا، فقالت: انا اعطي تلك اليهودية، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهجرها ذا الحجة والمحرم وبعض صفر". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ سُمَيَّةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا" أَنَّهُ اعْتَلَّ بَعِيرٌ لِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ وَعِنْدَ زَيْنَبَ فَضْلُ ظَهْرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْنَبَ: أَعْطِيهَا بَعِيرًا، فَقَالَتْ: أَنَا أُعْطِي تِلْكَ الْيَهُودِيَّةَ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَجَرَهَا ذَا الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمَ وَبَعْضَ صَفَرٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کا ایک اونٹ بیمار ہو گیا اور ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فاضل سواری تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب سے فرمایا: ”تم اسے ایک اونٹ دے دو“ وہ بولیں: میں اس یہودن کو دے دوں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اور ذی الحجہ، محرم اور صفر کے چند دنوں تک ان سے بات چیت ترک رکھی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 17845)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/132، 261، 338) (ضعیف)» (اس کی راویہ سمیہ لین الحدیث ہیں)
Aishah said: The camel of Safiyyah daughter of Huyayy was fatigued, and Zainab had a surplus mount. The Messenger of Allah ﷺ said to Zainab: Give her the camel. She said: Should I give to that Jewess? Thereupon the Messenger of Allah ﷺ became angry and kept away from her during Dhu al-Hijjah, Muharram, and a part of Safar.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4585
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (5049)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کے بارے میں جھگڑنا کفر ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15115)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/424، 503) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں متعدد اقوال ہیں: (۱) قرآن کے قدیم یا محدث ہونے میں بحث کرنا مراد ہے، (۲) متشابہ آیات کے بارے میں حقیقت تک پہنچنے میں بحث و مناظرہ کرنا مراد ہے، (۳) قرآن کی مختلف قراءتوں کے بارے میں اختلاف کرنا، کسی حرف کو ثابت کرنا اور کسی کا انکار کرنا وغیرہ مراد ہے، (۴) تقدیر وغیرہ کے سلسلہ میں جو آیات وارد ہیں اس میں بحث کرنا مراد ہے، ان تمام صورتوں میں بحث اکثر اس حد تک پہنچتی ہے کہ اس سے قرآن کے الفاظ و معانی کا انکار لازم آتا ہے جو کفر ہے، أعاذنا اللہ منہ۔
(مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن نجدة، حدثنا ابو عمرو بن كثير بن دينار، عن حريز بن عثمان، عن عبد الرحمن بن ابي عوف، عن المقدام بن معدي كرب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال:" الا إني اوتيت الكتاب ومثله معه، الا يوشك رجل شبعان على اريكته، يقول: عليكم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فاحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه، الا لا يحل لكم لحم الحمار الاهلي ولا كل ذي ناب من السبع ولا لقطة معاهد، إلا ان يستغني عنها صاحبها، ومن نزل بقوم فعليهم ان يقروه فإن لم يقروه فله ان يعقبهم بمثل قراه". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ، يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ، إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ".
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے ۱؎: اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہو جائے، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11570)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/العلم 10 (2664)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (12)، مسند احمد (4/130) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ پیش گوئی منکرین حدیث کے سرغنہ عبداللہ چکڑالوی پر صادق آتی ہے، مولانا نورالدین کشمیری (صدر جمعیت اہل حدیث کشمیر) جب اس سے مناظرہ کرنے لاہور میں اس کے گھر پہنچے تو وہ مولانا سے انکار حدیث پر اس حال میں بحث کر رہا تھا کہ وہ اپنی چارپائی پر ٹیک لگائے ہوئے لیٹا تھا (مولانا مرحوم کا خود نوشت بیان، شائع شدہ اخبار تنظیم اہل حدیث کراچی)۔ ۲؎: ضیافت اسلامی معاشرہ میں ایک نہایت ہی نیک عمل ہے اگر میزبان مہمان کی مہمانی نہ کرے تو اس کو مہمانی کے بقدر وصول کرنا ابتداء اسلام میں تھا بعد میں اس پر عمل نہ رہا، گری پڑی چیز ذمی کی ہو یا مسلمان کی اگر اس کا مالک اس کو چھوڑ دے اور اس سے مستغنی ہو جائے تو دوسرے کو لے لینا جائز ہے، ورنہ نہیں، اس حدیث میں صاف طور پر موجود ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنا ضروری نہیں بلکہ قرآن کی طرح حدیث بھی مستقل حجت ہے، حدیث کو قرآن پر پیش کرنے سے متعلق جو حدیث بیان کی جاتی ہے کذب محض ہے، زنادقہ نے اس کو گھڑا ہے۔
Narrated Al-Miqdam ibn Madikarib: The Prophet ﷺ said: Beware! I have been given the Quran and something like it, yet the time is coming when a man replete on his couch will say: Keep to the Quran; what you find in it to be permissible treat as permissible, and what you find in it to be prohibited treat as prohibited. Beware! The domestic ass, beasts of prey with fangs, a find belonging to confederate, unless its owner does not want it, are not permissible to you If anyone comes to some people, they must entertain him, but if they do not, he has a right to mulct them to an amount equivalent to his entertainment.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4587
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (163) تقدم طرفه (3804)
ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے: یہ ہم نہیں جانتے، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/العلم 10 (2661)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (13)، (تحفة الأشراف: 12019)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/8) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ ہے، اور حدیث کی صداقت کا زندہ ثبوت ہے آج بعض منکرین حدیث ”اہل قرآن“ کے نام سے وہی کچھ کر رہے ہیں جن کی خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی (دیکھئے حاشیہ حدیث نمبر: ۴۶۰۴)
Narrated Abu Rafi: The Prophet ﷺ said: Let me not find one of you reclining on his couch when he hears something regarding me which I have commanded or forbidden and saying: We do not know. What we found in Allah's Book we have followed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4588
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (162) أخرجه الترمذي (2663 وسنده صحيح) سفيان بن عيينة صرح بالسماع عند الحميدي بتحقيقي (551 وسنده صحيح)