ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کے بارے میں جھگڑنا کفر ہے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں متعدد اقوال ہیں: (۱) قرآن کے قدیم یا محدث ہونے میں بحث کرنا مراد ہے، (۲) متشابہ آیات کے بارے میں حقیقت تک پہنچنے میں بحث و مناظرہ کرنا مراد ہے، (۳) قرآن کی مختلف قراءتوں کے بارے میں اختلاف کرنا، کسی حرف کو ثابت کرنا اور کسی کا انکار کرنا وغیرہ مراد ہے، (۴) تقدیر وغیرہ کے سلسلہ میں جو آیات وارد ہیں اس میں بحث کرنا مراد ہے، ان تمام صورتوں میں بحث اکثر اس حد تک پہنچتی ہے کہ اس سے قرآن کے الفاظ و معانی کا انکار لازم آتا ہے جو کفر ہے، أعاذنا اللہ منہ۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15115)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/424، 503) (حسن صحیح)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4603
فوائد ومسائل: 1۔ (المراء) سے مراد جھگڑنا اور شک کا اظہار کرنا ہے۔ لہذا قرآنی آیات میں ایسا مباحثہ اور جھگڑا کرنا کہ کسی حصے کی تکزیب لازم آئے یا شک وشبہ پیدا ہو حرام اور کفر ہے۔
2۔ قابل حل مقامات کے لیے ثقہ اور راسخ علماء کی طرف رجوع کرکے صحیح معنی ومفہوم معلوم کرنا چاہیے۔ متشابہات کے درپے ہونے سے بچنا ضروری ہے اور جہاں تک ہوسکے شکوک و شبہات اور فتنہ پیدا کرنے والے لوگوں کو واضح دلائل سے قائل کیا جائے اور عوام کو ان سے دور رکھا جائے۔
3۔ مذکورہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ جان بوجھ کر لوگوں میں فتنہ انگیزی کرنے والے امت کے لیے خطرناک ہیں۔ اس فتنہ انگیزی کو روکنے کے طریقے یہ ہیں: اہل اہواء سے مقاطعہ۔ ان کی تمام با توں آکر اوٹ پٹانگ معاملات میں الجھنے سے پرہیز، معاشرے میں نفرت پھیلانے والے کاموں سے اجتناب جو فتنہ برپا کرنے والے نہ ہوں غلطیوں پر ان کی پر حکمت تفہیم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4603
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 236
´قرآن کریم کے مفاہیم پر اختلاف اور جھگڑے کی ممانعت` «. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمِرَاءُ فِي الْقُرْآنِ كُفْرٌ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قران مجید کے بارے میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔“ اس حدیث کو احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 236]
تحقیق الحدیث: اس کی سند حسن ہے۔ ◄ اسے ابن حبان [73] حاکم [2؍223 ح2882] اور ذہبی تینوں نے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے راوی محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث تھے اور باقی سند صحیح ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ «مراء»(جھگڑے) سے مراد شک و شبہے کی بنیاد پر قرآن مجید کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرنا یا آیات کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر کتاب اللہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے۔ ➋ قرآن مجید کے بارے میں شک کرنا کفر ہے۔ ➌ آیات قرآنیہ کو باہم ٹکرانا اور ساقط قرار دینا کفر اور حرام ہے، لہٰذا اہل اسلام کو ایسی حرکتوں سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے۔ ➍ جو شخص قرآن مجید کے فہم کے لئے احادیث صحیحہ، آثار صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کی طرف رجوع کرتا ہے، وہ اللہ کے فضل و کرم سے ہر قسم کے کفر، گمراہی، بدعات اور غلطیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ➎ جس طرح قرآن کو قرآن سے ٹکرانا کفر اور حرام ہے، اسی طرح احادیث صحیحہ کو بھی قرآن سے ٹکرانا حرام اور باطل ہے۔ ➏ دنیا کے تمام کفار اور گمراہوں (مبتدعین، ضالّین، مضلّین) کی دو قسمیں ہیں: ① قرآن مجید کے کلام ہونے کے بارے میں شک اور انکار کرتے ہیں۔ ② قرآن کو قرآن سے یا احادیث صحیحہ کو قرآن سے ٹکرا کر دین اسلام کا انکار کر کے کفر اور گمراہیوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ان لوگوں کے شرک سے محفوظ رکھے۔ «آمين»