الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4599
فوائد ومسائل: یہ روایت سنداً ضعیف ہے، لیکن اس موضوع پر دیگر صحیح روایات موجود ہیں۔ (الحب في الله) اور (البغض في الله) کا مفہوم یہ ہے کہ کسی سے محبت کے بہت سے اسباب موجود ہ ہوں لیکن وہ اللہ کے دین میں بگاڑ کا شکار ہوتو اللہ کے لیے اس سے محبت نہ کی جائے، اسی سے محبت کی جائے جو اللہ کی راہ میں چلیں اور صرف اسی غرض سے کی جائے کہ اللہ راضی ہو اور اسی طرح بغض بھی اللہ کے دین سے ہٹنے والے کے ساتھ اور اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ کی نافرمانی پر بعض رکھنا کافی نہیں۔ اہل علم کے لیے واجب ہے کہ حق کی دعوت دینے میں کبھی بھی غفلت نہ کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4599
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 32
´دوستی اور دشمنی کا معیار` «. . . وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ» . . .» ”. . . سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب کاموں سے اچھا کام اللہ ہی کے لیے دوستی ہو اور اللہ ہی کے لیے دشمنی ہو۔“ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 32]
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ➊ یزید بن ابی زیاد الہاشمی الکوفی ضعیف (راوی) ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 7717] و [سوالات البرقاني للدارقطني 561] و [تفسير ابن كثير 2؍98، 4؍116] و [مجمع الزوائد 5؍71] اور [المحليٰ لابن حزم 7؍484] ◈ أحمد بن ابی بکر البوصیری (متوفی 840ھ) نے کہا: «وضعفه الجمهور» اور جمہور نے اسے ضعیف کہا۔ [زوائد سنن ابن ماجه: 2116] ◈ امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: «ضعیف الحدیث» وہ حدیث میں ضعیف ہے۔ [الكامل لابن عدي 7؍2729 والنسخة المحققة 9؍163 وسنده صحيح] ➋ یزید بن ابی زیاد مدلس ہے، دیکھئے: [طبقات المدلسين لابن حجر 112؍3] و [جامع التحصيل للعلائي ص 112] و [المدلسين لابي زرعة ابن العراقي 74] و [المدلسين للسيوطي 67] یہ روایت «عن» سے ہے، سماع کی تصریح موجود نہیں ہے۔ اگر مدلس راوی، غیر صحیحین میں «عن» سے روایت کرے تو یہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دیکھئے: [شرح صحيح مسلم للنووي درسي نسخه ج 1 ص 31، 32 تحت ح 15] ➌ یزید بن ابی زیاد کا حافظہ آخری عمر میں خراب ہو گیا تھا، وہ اختلاط کا شکار ہو چکا تھا۔ دیکھئے: [سنن الدار قطني 1؍294 ح1118 و المجروحين لابن حبان 3؍100] اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ خالد بن عبداللہ اور یزید بن عطاء (لین الحدیث) نے یزید بن ابی زیاد کے اختلاط سے پہلے اس سے احادیث سنی ہیں، لہٰذا یہ سند اختلاط کی وجہ سے بھی ضعیف ہے۔ یزید بن عطاء (ضعیف) عن یزید بن ابی زیاد والی روایت مسند أحمد میں ہے۔ دیکھئے: [5؍146 ح 21303 بلفظ: «ان أحب الأعمال الي الله» ] ➍ اس روایت میں «رجل» راوی مجہول ہے، لہٰذا یہ سند چار وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔
شواہد کی بحث و تحقیق: ➊ «ليث (بن أبى سليم) عن عمرو بن مرة عن معاوية بن سويد بن مقرن عن البراء بن عازب (عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:)”إن أوثق عرى الإيمان أن تحب فى الله، وتبغض فى الله“»[مسند أحمد 4؍286 ح 18524 ومسند الطيالسي: 747 وشعب الايمان للبيهقي: 14 والتمهيد لابن عبدالبر 17؍431] ◈ یہ سند ضعیف ہے، لیث بن ابی سلیم کو جمہور (محدثین) نے ضعیف کہا ہے۔ دیکھئے: [زوائد ابن ماجه للبوصيري 230 قال: وقد ضعفه الجمهور وهو مدلس] ◈ مصنف ابن ابی شیبہ [11/41، 13/229] و کتاب الایمان لابن ابی شیبہ [110] میں اسی سند سے معاویہ بن سوید کا واسطہ گر گیا ہے، یہ سند بھی لیث کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ◈ شعب الایمان [13] میں لیث سے مروی ایک دوسری ضعیف سند بھی ہے۔ ➋ کتاب الزھد للإمام وکیع [2؍600 ح 329] میں ایک مرسل روایت ہے، جس کا راوی ابوالیسع المکفوف مجہول الحال ہے۔ اگر یہ راوی ثقہ بھی ہوتا تو بھی یہ سند مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ➌ عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ دیکھئے: [مسند أحمد 4؍247] ↰ اس میں زبان بن فائد ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 1985] ➍ عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ [المعجم الكبير للطبراني 11؍215 ح 11537، شرح السنة للبغوي 13؍53، 54 ح 3468] ↰ اس کی سند حنش یعنی حسین بن قیس الرحبی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 1342 وقال: متروك] ➎ عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ [الحاكم فى المستدرك 2؍480 ح3790، والطيالسي فى مسنده: 378 والطبراني فى الكبير 10؍272 ح10531، والاوسط 5؍241 ح4476 والصغير 1؍324 ح612 وابن عبدالبر فى التمهيد 17؍430] «من طريق عقيل بن يحيىٰ الجعدي عن أبى إسحاق السبيعي عن سويد بن غفلة عن ابن مسعود به إلخ» ↰ عقیل الجعدی منکر الحدیث ہے۔ دیکھئے: [كتاب الضعفاء للبخاري: 292 بتحقيقي] ↰ اور ابواسحاق السبیعی مدلس تھے۔ دیکھئے: [طبقات المدلسين 3/91 و صحيح ابن حبان 61/1 نسخه محققه، المعجم الکبیر 211/10، 212 ح 10357] میں اس کی ایک دوسری سند بھی ہے۔ «حدثنا إسحاق بن إبراهيم أبى حسان الأنماطي: ثنا هشام بن عمار: ثتا الوليد بن مسلم: حدثني بكير بن معروف عن مقاتل بن حيان عن القاسم بن عبدالرحمٰن عن أبيه عن عبدالله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: (يا ابن مسعود!) قلت: لبيك ثلاثا، قال: (هل تدرون أى عرى الإيمان أوثق؟) قلت: الله ورسوله أعلم، قال: (الولاية فى الله والحب فى الله والبغض فى الله . . .)» ↰ اس روایت کے ایک راوی ولید بن مسلم مدلس تھے، آپ تدلیس تسویہ کرتے تھے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 7456] تدلیس تسویہ کرنے والے راوی کی صرف وہی روایت مقبول ہوتی ہے جس میں وہ آخر تک سماع مسلسل کی تصریح کرے۔ اس روایت میں سماع مسلسل کی تصریح نہیں ہے۔ ↰ہشام بن عمار آخری عمر میں کچھ تغیر (اختلاط) کا شکار ہو گئے تھے۔ دیکھئے: [الكواكب النيرات فى معرفة من اختلط من الرواة الثقات ص 84] اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اسحاق الانماطی نے ان سے اختلاط سے پہلے احادیث سنی تھیں، لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔ ➏ عن عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ [مسند أحمد 3؍430] ↰ اس کی سند ضعیف ہے، رشدین بن سعد ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تقریب التہذیب 1942] اور سند منقطع ہے۔ ابومنصور کی عمرو بن الجموح سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ ➐ عن معاذ بن انس الجھنی رضی اللہ عنہ [مسند أحمد 3؍438] ↰ اس کی سند ضعیف ہے، زبان بن فائد ضعیف ہے۔ دیکھئے شاہد نمبر ➌ «وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ”من أعطى لله تعالى ومنع لله وأبغض لله وأنكح لله فقد استكمل ايمانه» ”جو اللہ کے لئے (مال) دے اور اللہ کے لئے روک دے، اللہ کے لئے محبت کرے اور اللہ کے لئے بغض رکھے، اور اللہ کے لئے نکاح کروائے تو اس کا ایمان مکمل ہے۔ [مسند أحمد 3؍440 ح5723 واللفظ له وسنن الترمذي: 2521 وقال: ”هذا حديث منكر“] ↰ اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے، منکر نہیں ہے، لیکن اسے حدیث مشکوٰۃ کا شاہد بنانا صحیح نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ روایت مذکورہ «أفضل الأعمال» إلخ اپنے تمام تر شواہد قریبہ و شواہد بعیدہ کے ساتھ ضعیف ہی ہے، حسن نہیں ہے، لہٰذا بعض علماء کا اسے حسن قرار دینا غلط ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ حسن لغیرہ روایت بذات خود حجت نہیں ہوتی بلکہ ضعیف ہی رہتی ہے۔
فائدہ: اس روایت کے ضعیف ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ روایت مذکورہ میں جو مسئلہ بیان کیا گیا ہے وہ غلط ہے۔ صحیح روایت سے یہ ثابت ہے کہ اللہ کے لئے محبت اور اللہ کے لئے بغض ایمان میں سے ہے۔ دیکھئے: [اضواء المصابیح ح30] ◈ امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «حدثنا ابن نمير عن مالك بن مغول عن زبيد عن مجاهد قال: أوثق عرى الإيمان الحب فى الله والبغض فى الله» ”مجاہد (تابعی و مفسر قرآن) نے فرمایا: ایمان کے مضبوط ترین حلقے (دو) ہیں، اللہ کے لئے محبت کرنا اور اللہ کے لئے بغض رکھنا۔ [كتاب الايمان: 111، وسنده صحيح]