(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا الجريري، عن عبد الله بن بريدة ان رجلا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم رحل إلى فضالة بن عبيد وهو بمصر، فقدم عليه فقال: اما إني لم آتك زائرا ولكني سمعت انا وانت حديثا من رسول الله صلى الله عليه وسلم رجوت ان يكون عندك منه علم، قال: وما هو؟ قال: كذا وكذا، قال: فما لي اراك شعثا وانت امير الارض؟ قال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهانا عن كثير من الإرفاه، قال: فما لي لا ارى عليك حذاء؟ قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يامرنا ان نحتفي احيانا". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحَلَ إِلَى فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَهُوَ بِمِصْرَ، فَقَدِمَ عَلَيْهِ فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ آتِكَ زَائِرًا وَلَكِنِّي سَمِعْتُ أَنَا وَأَنْتَ حَدِيثًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ، قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَمَا لِي أَرَاكَ شَعِثًا وَأَنْتَ أَمِيرُ الْأَرْضِ؟ قَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَانَا عَنْ كَثِيرٍ مِنَ الْإِرْفَاهِ، قَالَ: فَمَا لِي لَا أَرَى عَلَيْكَ حِذَاءً؟ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْيَانًا".
عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے پاس مصر گئے، جب وہاں پہنچے تو عرض کیا: میں یہاں آپ سے ملاقات کے لیے نہیں آیا ہوں، ہم نے اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی مجھے امید ہے کہ اس کے متعلق آپ کو کچھ (مزید) علم ہو، انہوں نے پوچھا: وہ کون سی حدیث ہے؟ فرمایا: وہ اس اس طرح ہے، پھر انہوں نے فضالہ سے کہا: کیا بات ہے میں آپ کو پراگندہ سر دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپ اس سر زمین کے حاکم ہیں؟ تو ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں زیادہ عیش عشرت سے منع فرماتے تھے، پھر انہوں نے پوچھا: آپ کے پیر میں جوتیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟ تو وہ بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کبھی کبھی ننگے پیر رہنے کا بھی حکم دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11028)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/22) (صحیح)»
Abdullah ibn Buraydah said: A man from the companions of the Prophet ﷺ travelled to Fudalah ibn Ubayd when he was in Egypt. He came to him and said: I have not come to you to visit you. But you and I heard a tradition from the Messenger of Allah ﷺ. I hope you may have some knowledge of it. He asked: What is it? He replied: So and so. He said: Why do I see you dishevelled when you are the ruler of this land? He said: The Messenger of Allah ﷺ has forbidden us to indulge much in luxury. He said: Why do I see you unshod? He replied: The Prophet ﷺ used to command us to go barefoot at times.
USC-MSA web (English) Reference: Book 34 , Number 4148
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سعيد بن إياس الجريري اختلط (انظر الكواكب النيرات ص 178189 وتقدم: 1555) ولم يثبت تحديثه به قبل اختلاطه وحديث النسائي (185/8 ح 5241) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 147
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ نے ایک روز آپ کے پاس دنیا کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ بیشک سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے، بیشک سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے“ اس سے مراد ترک زینت و آرائش اور خستہ حالی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ ابوامامہ بن ثعلبہ انصاری ہیں۔
Narrated Abu Umamah Ilyas ibn Thalabah: The Companions of the Messenger of Allah ﷺ mentioned this word before him. The Messenger of Allah ﷺ said: Listen, listen! Wearing old clothes is a part of faith, wearing old clothes is a part of faith. Abu Dawud said: He is Abu Umamah bin Thalabat al-Ansari
USC-MSA web (English) Reference: Book 34 , Number 4149
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (4118) ابن إسحاق عنعن وحديث الطحاوي (مشكل الآثار: 1/ 478،6/ 151) والطبراني (الكبير: 1/ 272 ح 790،وسنده حسن) يغني عنه و لفظ الطبراني: قال رسول اللّٰه ﷺ: ((إن البذاذة من الإيمان،إن البذاذة من الإيمان)) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 147
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عمر، حدثنا يحيى بن سعيد، عن علي بن المبارك، قال: حدثتني كريمة بنت همام،" ان امراة اتت عائشة رضي الله عن خضاب الحناء، فقالت: لا باس به ولكن اكرهه، كان حبيبي رسول الله صلى الله عليه وسلم يكره ريحه"، قال ابو داود: تعني خضاب شعر الراس. (مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي كَرِيمَةُ بِنْتُ هَمَّامٍ،" أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ عَائِشَةَ رضِيَ اللَّهُ عَنْ خِضَابِ الْحِنَّاءِ، فَقَالَتْ: لَا بَأْسَ بِهِ وَلَكِنْ أَكْرَهُهُ، كَانَ حَبِيبِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ رِيحَهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: تَعْنِي خِضَابَ شَعْرِ الرَّأْسِ.
کریمہ بنت ہمام کا بیان ہے کہ ایک عورت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور ان سے مہندی کے خضاب کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن میں اسے ناپسند کرتی ہوں، میرے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بو ناپسند فرماتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مراد سر کے بال کا خضاب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزینة 19 (5093)، (تحفة الأشراف: 17959)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/117، 210) (ضعیف)»
Narrated Aishah, Ummul Muminin: Karimah, daughter of Hammam, told that a woman came to Aishah (Allah be pleased with her) and asked her about dyeing with henna. She replied: There is no harm, but I do not like it. My beloved, the Messenger of Allah ﷺ, disliked its odour. Abu Dawud said: She meant the colour of hair of the head.
USC-MSA web (English) Reference: Book 34 , Number 4152
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (5093) كريمة: لم أجد من و ثقها وقال الحافظ: مقبولة (تق: 8673) أي مجهولة الحال انوار الصحيفه، صفحه نمبر 147
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے نبی! مجھ سے بیعت لے لیجئیے، تو آپ نے فرمایا: ”جب تک تم اپنی دونوں ہتھیلیوں کا رنگ نہیں بدلو گی میں تم سے بیعت نہیں لوں گا، گویا وہ دونوں کسی درندے کی ہتھیلیاں ہیں“۔
Narrated Aishah, Ummul Muminin: When Hind, daughter of Utbah, said: Prophet of Allah, accept my allegiance, he replied; I shall not accept your allegiance till you make a difference to the palms of your hands; for they look like the paws of a beast of prey.
USC-MSA web (English) Reference: Book 34 , Number 4153
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال الحافظ ابن حجر في غبطة و أم الحسن وجدتھا: ”وفي إسناده مجهولات ثلاث‘‘ (التلخيص الحبير 236/2) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 148
(مرفوع) حدثنا محمد بن محمد الصوري، حدثنا خالد بن عبد الرحمن، حدثنا مطيع بن ميمون، عن صفية بنت عصمة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" اومت امراة من وراء ستر بيدها كتاب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبض النبي صلى الله عليه وسلم يده، فقال: ما ادري ايد رجل ام يد امراة؟ قالت: بل امراة، قال: لو كنت امراة لغيرت اظفارك يعني بالحناء". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصُّورِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا مُطِيعُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ عِصْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" أَوْمَتِ امْرَأَةٌ مِنْ وَرَاءِ سِتْرٍ بِيَدِهَا كِتَابٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، فَقَالَ: مَا أَدْرِي أَيَدُ رَجُلٍ أَمْ يَدُ امْرَأَةٍ؟ قَالَتْ: بَلِ امْرَأَةٌ، قَالَ: لَوْ كُنْتِ امْرَأَةً لَغَيَّرْتِ أَظْفَارَكِ يَعْنِي بِالْحِنَّاءِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے اشارہ کیا، اس کے ہاتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا ایک خط تھا، آپ نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا، اور فرمایا: ”مجھے نہیں معلوم کہ یہ کسی مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا“ تو اس نے عرض کیا: نہیں، بلکہ یہ عورت کا ہاتھ ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم عورت ہوتی تو اپنے ناخن کے رنگ بدلے ہوتی“ یعنی مہندی سے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزینة 18 (5092)، (تحفة الأشراف: 17868)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/262) (حسن)»
Narrated Aishah, Ummul Muminin: A woman made a sign from behind a curtain to indicate that she had a letter for the Messenger of Allah ﷺ. The Prophet ﷺ closed his hand, saying: I do not know this is a man's or a woman's hand. She said: No, a woman. He said: If you were a woman, you would make a difference to your nails, meaning with henna.
USC-MSA web (English) Reference: Book 34 , Number 4154
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (5092) صفية بنت عصمة: لا تعرف ومطيع:لين لحديث (تق: 8624،6820) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 148
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، انه سمع معاوية بن ابي سفيان عام حج، وهو على المنبر وتناول قصة من شعر كانت في يد حرسي يقول: يا اهل المدينة اين علماؤكم؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذه ويقول:" إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذ هذه نساؤهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَامَ حَجَّ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَتَنَاوَلَ قُصَّةً مِنْ شَعْرٍ كَانَتْ فِي يَدِ حَرَسِيٍّ يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذِهِ وَيَقُولُ:" إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَ هَذِهِ نِسَاؤُهُمْ".
حمید بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے جس سال حج کیا میں نے آپ کو منبر پر کہتے سنا، آپ نے بالوں کا ایک گچھا جو ایک پہرے دار کے ہاتھ میں تھا لے کر کہا: مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جیسی چیزوں سے منع کرتے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے جس وقت ان کی عورتوں نے یہ کام شروع کیا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأنبیاء 54 (3468)، واللباس 83 (5932)، صحیح مسلم/اللباس 33 (2127)، سنن الترمذی/الأدب 32 (2781)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی 13 (5247)، (تحفة الأشراف: 11407)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الشعر 1 (2)، مسند احمد (4/95، 97، 98) (صحیح)»
Narrated Humaid bin Adb al-Rahman: That he heard Muawiyah bin Abi Sufyan say during the Hajj when he was on the pulpit and took a lock of hair which was in the hand of the guard, saying: O people of Madina, where are your scholars ? I heard the Messenger of Allah ﷺ forbidding such a think as this and said: The children of Isra'il perished when their women practised it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 34 , Number 4155
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3468) صحيح مسلم (2127)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اس عورت پر جو دوسری عورت کے بال میں بال کو جوڑے، اور اس عورت پر اپنے بالوں میں اور بال جڑوائے، اور اس عورت پر دوسری عورت کا بدن گودے، اور نیل بھرے، اور اس عورت پر جو اپنا بدن گودوائے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 83 (5937)، 85 (5940)، 87 (5947)، صحیح مسلم/اللباس 33 (2124)، سنن الترمذی/اللباس 25 (1759)، الأدب 33 (2783)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی 17 (5253)، سنن ابن ماجہ/النکاح 52 (1987)، (تحفة الأشراف: 8137)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/21) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالوں میں اور بال ملا کر لمبے کرنا اور اپنا بدن گودوانا اور اس میں نیل بھرنا حرام ہے، اور جس کے بال جوڑے جائیں اور جو عورت بال جوڑے اور جو عورت اپنا بدن گودوائے اور نیل بھروائے اور جو عورت گودے اور نیل بھرے ان پر لعنت پڑتی ہے، اس لیے عورتوں کو ایسے کام کرنے اور کرانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
Abdullah said: The Messenger of Allah ﷺ cursed the woman who adds some false hair and the woman who asks for it, the woman who tattoos and the woman who asks for it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 34 , Number 4156
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5947) صحيح مسلم (2124)