(مرفوع) حدثنا محمد بن قدامة، ومؤمل بن هشام، قال ابن قدامة، حدثني إسماعيل، عن بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده، قال ابن قدامة: إن اخاه او عمه، وقال مؤمل: إنه قام إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يخطب، فقال: جيراني بما اخذوا، فاعرض عنه مرتين، ثم ذكر شيئا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: خلوا له عن جيرانه"، لم يذكر مؤمل وهو يخطب. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، وَمُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ ابْنُ قُدَامَةَ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيل، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ ابْنُ قُدَامَةَ: إِنَّ أَخَاهُ أَوْ عَمَّهُ، وَقَالَ مُؤَمَّل: إِنَّهُ قَامَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: جِيرَانِي بِمَا أُخِذُوا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَلُّوا لَهُ عَنْ جِيرَانِهِ"، لَمْ يَذْكُرْ مُؤَمَّلٌ وَهُوَ يَخْطُبُ.
معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ابن قدامہ کی روایت میں ہے کہ ان کے بھائی یا ان کے چچا اور مومل کی روایت میں ہے وہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوئے اور آپ خطبہ دے رہے تھے تو یہ کہنے لگے: کس وجہ سے میرے پڑوسیوں کو پکڑ لیا گیا ہے؟ تو آپ نے ان سے دو مرتبہ منہ پھیر لیا پھر انہوں نے کچھ ذکر کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو“ اور مومل نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ آپ خطبہ دے رہے تھے۔
Bahz ibn Hakim reported from his grandfather: (Ibn Qudamah's version has: His grandfather's brother or uncle reported: ) - the narrator Mu'ammal said: - He (his grandfather Muawiyah) got up before the Holy Prophet ﷺ who was giving sermon: and he said: Why have your companions arrested my neighbours? He turned away from him twice. He (his grandfather Muawiyah) then mentioned something. The Holy Prophet ﷺ then said: Let his neighbours go. (Mu'ammal did not mention the words "He was giving sermon. ")
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3624
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن سعد بن إبراهيم، حدثنا عمي، حدثنا ابي، عن ابن إسحاق، عن ابي نعيم وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله، انه سمعه يحدث، قال:" اردت الخروج إلى خيبر، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسلمت عليه، وقلت له: إني اردت الخروج إلى خيبر، فقال: إذا اتيت وكيلي فخذ منه خمسة عشر وسقا، فإن ابتغى منك آية فضع يدك على ترقوته". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، قَالَ:" أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَقَالَ: إِذَا أَتَيْتَ وَكِيلِي فَخُذْ مِنْهُ خَمْسَةَ عَشَرَ وَسْقًا، فَإِنِ ابْتَغَى مِنْكَ آيَةً فَضَعْ يَدَكَ عَلَى تَرْقُوَتِهِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کی جانب نکلنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا پھر میں نے عرض کیا: میں خیبر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میرے وکیل کے پاس جانا تو اس سے پندرہ وسق کھجور لے لینا اور اگر وہ تم سے کوئی نشانی طلب کرے تو اپنا ہاتھ اس کے گلے پر رکھ دینا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3131) (ضعیف)» (اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
وضاحت: ۱؎: شاید یہی نشانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وکیل کو بتائی ہو۔
Narrated Jabir ibn Abdullah: I intended to go (on expedition) to Khaybar. So I came to the Holy Prophet ﷺ, greeted him and said: I am intending to go to Khaybar. He said: When you come to my agent, you should take from him fifteen wasqs (of dates). If he asks you for a sign, then place your hand on his collar-bone.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3625
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن إسحاق عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 129
(مرفوع) حدثنا مسدد، وابن ابي خلف، قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا استاذن احدكم اخاه ان يغرز خشبة في جداره فلا يمنعه، فنكسوا، فقال: ما لي اراكم قد اعرضتم؟ لالقينها بين اكتافكم"، قال ابو داود: وهذا حديث ابن ابي خلف وهو اتم. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَةً فِي جِدَارِهِ فَلَا يَمْنَعُهُ، فَنَكَّسُوا، فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكُمْ قَدْ أَعْرَضْتُمْ؟ لَأُلْقِيَنَّهَا بَيْنَ أَكْتَافِكُمْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي خَلَفٍ وَهُوَ أَتَمُّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اس کی دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے“ یہ سن کر لوگوں نے سر جھکا لیا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا بات ہے جو میں تمہیں اس حدیث سے اعراض کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، میں تو اسے تمہارے شانوں کے درمیان ڈال ہی کر رہوں گا (یعنی اسے تم سے بیان کر کے ہی چھوڑوں گا)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن ابی خلف کی حدیث ہے اور زیادہ کامل ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المظالم 20 (2463)، صحیح مسلم/المساقاة 29 (1609)، سنن الترمذی/الأحکام 18 (1353)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 15 (2335)، (تحفة الأشراف: 13954)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 26 (32)، مسند احمد (2/240، 274، 396، 463) (صحیح)»
Abu Hurairah reported the Holy Prophet ﷺ as saying: When one of you asks permission for inserting a wooden peg in his wall, he should not prevent him. So they (the people) lowered down their heads. Then he (Abu Hurairah) said: What is the matter ? I am seeing you are neglecting (to hear this tradition), I shall spread it among you. Abu Dawud said: This is the tradition of Ibn Abi Khalaf is more perfect.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3627
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2463) صحيح مسلم (1609)
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن يحيى، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن لؤلؤة، عن ابي صرمة، قال ابو داود: غير قتيبة في هذا الحديث، عن ابي صرمة صاحب النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" من ضار اضر الله به، ومن شاق شاق الله عليه". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ لُؤْلُؤَةَ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: غَيْرُ قُتَيْبَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ ضَارَّ أَضَرَّ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ".
ابوصرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ اسے تکلیف پہنچائے گا، اور جس نے کسی سے دشمنی کی تو اللہ تعالیٰ اس سے دشمنی کرے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البر والصلة 27 (1940)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 17 (2342)، (تحفة الأشراف: 12063)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/453) (حسن)»
Narrated Abu Sirmah: The Prophet ﷺ said: If anyone harms (others), Allah will harm him, and if anyone shows hostility to others, Allah will show hostility to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3628
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1940) ابن ماجه (2342) لؤلؤة لم يوثقھا غيرالترمذي وللحديث شواھد كثيرة كلھا ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 129
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود العتكي، حدثنا حماد، حدثنا واصل مولى ابي عيينة، قال: سمعت ابا جعفر محمد بن علي يحدث، عن سمرة بن جندب" انه كانت له عضد من نخل في حائط رجل من الانصار، قال: ومع الرجل اهله، قال: فكان سمرة يدخل إلى نخله فيتاذى به ويشق عليه، فطلب إليه ان يبيعه، فابى، فطلب إليه ان يناقله، فابى، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فطلب إليه النبي صلى الله عليه وسلم ان يبيعه، فابى، فطلب إليه ان يناقله، فابى، قال: فهبه له ولك كذا وكذا امرا رغبه فيه، فابى، فقال: انت مضار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للانصاري: اذهب فاقلع نخله". (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ يُحَدِّثُ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ" أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ عَضُدٌ مِنْ نَخْلٍ فِي حَائِطِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالَ: وَمَعَ الرَّجُلِ أَهْلُهُ، قَالَ: فَكَانَ سَمُرَةُ يَدْخُلُ إِلَى نَخْلِهِ فَيَتَأَذَّى بِهِ وَيَشُقُّ عَلَيْهِ، فَطَلَبَ إِلَيْهِ أَنْ يَبِيعَهُ، فَأَبَى، فَطَلَبَ إِلَيْهِ أَنْ يُنَاقِلَهُ، فَأَبَى، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَطَلَبَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَهُ، فَأَبَى، فَطَلَبَ إِلَيْهِ أَنْ يُنَاقِلَهُ، فَأَبَى، قَالَ: فَهِبْهُ لَهُ وَلَكَ كَذَا وَكَذَا أَمْرًا رَغَّبَهُ فِيهِ، فَأَبَى، فَقَالَ: أَنْتَ مُضَارٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِيِّ: اذْهَبْ فَاقْلَعْ نَخْلَهُ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری کے باغ میں ان کے کھجور کے کچھ چھوٹے چھوٹے درخت تھے، اور اس شخص کے ساتھ اس کے اہل و عیال بھی رہتے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ سمرہ رضی اللہ عنہ جب اپنے درختوں کے لیے جاتے تو انصاری کو تکلیف ہوتی اور ان پر شاق گزرتا اس لیے انصاری نے ان سے اسے فروخت کر دینے کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، پھر اس نے ان سے یہ گزارش کی کہ وہ درخت کا تبادلہ کر لیں وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ سے اس واقعہ کو بیان کیا، تو آپ نے بھی ان سے فرمایا: ”اسے بیچ ڈالو“ پھر بھی وہ نہ مانے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے درخت کے تبادلہ کی پیش کش کی لیکن وہ اپنی بات پر اڑے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اسے ہبہ کر دو، اس کے عوض فلاں فلاں چیزیں لے لو“ بہت رغبت دلائی مگر وہ نہ مانے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم «مضار» یعنی ایذا دینے والے ہو“ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے فرمایا: ”جاؤ ان کے درختوں کو اکھیڑ ڈالو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4633) (ضعیف)» (محمد بن علی باقر نے سمرة رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے)
Abu Jafar Muhammad bin Ali reported from Samurah ibn Jundub that he had a row of palm-trees in the garden of a man of the Ansar. The man had his family with him. Samurah used to visit his palm-trees, and the man was annoyed by that and felt it keenly. So he asked him (Samurah) to sell them to him, but he refused. He then asked him to take something else in exchange, but he refused. So he came to the Holy Prophet ﷺ and mentioned it to him. The Holy Prophet ﷺ asked him to sell it to him, but he refused. He asked him to take something else in exchange, but he refused. He then said: Give it to him and you can have such and such, mentioning something with which he tried to please him, but he refused. He then said: You are a nuisance. The Messenger of Allah ﷺ then said to the Ansari: Go and uproot his palm-trees.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3629
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال ابن التركماني في الجوھر النقي: ”ذكر ابن حزم أنه منقطع لأن محمد بن علي لا سماع له من سمرة‘‘ (6 / 157) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 129
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا الليث، عن الزهري، عن عروة، ان عبد الله بن الزبير حدثه:" ان رجلا خاصم الزبير في شراج الحرة التي يسقون بها، فقال الانصاري: سرح الماء يمر، فابى عليه الزبير، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للزبير: اسق يا زبير، ثم ارسل إلى جارك، فغضب الانصاري، فقال: يا رسول الله، ان كان ابن عمتك؟، فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: اسق، ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر، فقال الزبير: فوالله إني لاحسب هذه الآية نزلت في ذلك: فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك سورة النساء آية 65". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ:" أَنَّ رَجُلًا خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ الزُّبَيْرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسَبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ: فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ سورة النساء آية 65".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرۃ کی نالیوں کے سلسلہ میں جھگڑا کیا جس سے وہ سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: پانی کو بہنے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم اپنے کھیت سینچ لو پھر پانی کو اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو“ یہ سن کر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! یہ آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں نا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم اپنے کھیت سینچ لو اور پانی روک لو یہاں تک کہ کھیت کے مینڈھوں تک بھر جائے“۔ زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں یہ آیت «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك»”قسم ہے تیرے رب کی وہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ کو اپنا فیصل نہ مان لیں“(سورة النساء: ۶۵) اسی بابت اتری ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المساقاة 6 (2360)، 8 (2362)، الصلح 12 (2708)، تفسیر سورة النساء 12 (4585)، صحیح مسلم/الفضائل 36 (2357)، سنن الترمذی/الأحکام 26 (1363)، تفسیر النساء (3207)، سنن النسائی/القضاة 26 (5418)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (15)، الرھون 20 (2480)، (تحفة الأشراف: 5275)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/165) (صحیح)»
Narrated Abdullah ibn az-Zubayr: A man disputed with az-Zubayr about streamlets in the lava plain which was irrigated by them. The Ansari said: Release the water and let it run, but az-Zubayr refused. The Holy Prophet ﷺ said to az-Zubayr: Water (your ground), Zubayr, then let the water run to your neighbour. The Ansari then became angry and said: Messenger of Allah! it is because he is your cousin! Thereupon the face of the Messenger of Allah ﷺ changed colour and he said: Water (your ground), then keep back the water till it returns to the embankment. Az-Zubayr said: By Allah! I think this verse came down about that: "But no, by thy Lord! they can have no (real) faith, until they make thee judge. . . . . "
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3630
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2359، 2360) صحيح مسلم (2357)
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، عن الوليد يعني ابن كثير، عن ابي مالك بن ثعلبة، عن ابيه ثعلبة بن ابي مالك، انه سمع كبراءهم يذكرون: ان رجلا من قريش كان له سهم في بني قريظة، فخاصم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في مهزور يعني السيل الذي يقتسمون ماءه، فقضى بينهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الماء إلى الكعبين لا يحبس الاعلى على الاسفل". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ يَعْنِي ابْنَ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي مَالِكِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ أَبِيهِ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ كُبَرَاءَهُمْ يَذْكُرُونَ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ كَانَ لَهُ سَهْمٌ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ، فَخَاصَمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَهْزُورٍ يَعْنِي السَّيْلَ الَّذِي يَقْتَسِمُونَ مَاءَهُ، فَقَضَى بَيْنَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْمَاءَ إِلَى الْكَعْبَيْنِ لَا يَحْبِسُ الْأَعْلَى عَلَى الْأَسْفَلِ".
ثعلبہ بن ابی مالک قرظی کہتے ہیں انہوں نے اپنے بزرگوں سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ قریش کے ایک آدمی نے جو بنو قریظہ کے ساتھ (پانی میں) شریک تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہزور کے نالے کے متعلق جھگڑا لے کر آیا جس کا پانی سب تقسیم کر لیتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ جب تک پانی ٹخنوں تک نہ پہنچ جائے اوپر والا نیچے والے کے لیے نہ روکے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15538)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الرہون 20 (2481) (صحیح)»
Narrated Thalabah ibn Abu Malik: Thalabah heard his elders say that a man from the Quraysh had his share with Banu Qurayzah (in water). He brought the dispute to the Messenger of Allah ﷺ about al-Mahzur, a stream whose water they shared together. The Messenger of Allah ﷺ then decided that when water reached the ankles waters should not be held back to flow to the lower.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3631
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن رواه ابن ماجه (2481 وسنده حسن) والحديث الآتي (3639) شاھد له
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہزور کے نالے کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ پانی اس وقت تک روکا جائے جب تک کہ ٹخنے کے برابر نہ پہنچ جائے، پھر اوپر والا نیچے والے کے لیے چھوڑ دے۔
Amr bin Shuaib on his father's authority said that his grandfather told that the Messenger of Allah ﷺ decided regarding the stream al-Mahzur that its water should be held back till it reached the ankles, and that the upper waters should then be allowed to flow to the lower.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3632
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3005) رواه ابن ماجه (2482 وسنده حسن)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص ایک کھجور کے درخت کی حد کے سلسلے میں جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ایک روایت میں ہے آپ نے اس کے ناپنے کا حکم دیا جب ناپا گیا تو وہ سات ہاتھ نکلا، اور دوسری روایت میں ہے وہ پانچ ہاتھ نکلا تو آپ نے اسی کا فیصلہ فرما دیا۔ عبدالعزیز کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی درخت کی ایک ٹہنی سے پیمائش کرنے کے لیے کہا تو پیمائش کی گئی۔
Narrated Abu Saeed al-Khudri: Two men brought their dispute about the precincts of a palm-tree to the Messenger of Allah ﷺ. According to a version of this tradition, he ordered to measure and it was measured. It was found seven yards. According to another version, it was found five yards. He made a decision according to that. Abdul Aziz said: He ordered to measure with a branch of its branches. It was then measured.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3633