(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا الحارث بن عبيد ابو قدامة، عن عبيد الله بن الاخنس، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده:" ان امراة اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إني نذرت ان اضرب على راسك بالدف، قال: اوفي بنذرك، قالت: إني نذرت ان اذبح بمكان كذا وكذا مكان كان يذبح فيه اهل الجاهلية، قال: لصنم؟، قالت: لا، قال: لوثن؟، قالت: لا، قال: اوفي بنذرك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ أَبُو قُدَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ:" أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى رَأْسِكَ بِالدُّفِّ، قَالَ: أَوْفِي بِنَذْرِكِ، قَالَتْ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا مَكَانٌ كَانَ يَذْبَحُ فِيهِ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ: لِصَنَمٍ؟، قَالَتْ: لَا، قَالَ: لِوَثَنٍ؟، قَالَتْ: لَا، قَالَ: أَوْفِي بِنَذْرِكِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ میں آپ کے سر پر دف بجاؤں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(بجا کر) اپنی نذر پوری کر لو“ اس نے کہا: میں نے ایسی ایسی جگہ قربانی کرنے کی نذر (بھی) مانی ہے جہاں جاہلیت کے زمانہ کے لوگ ذبح کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا کسی صنم (بت) کے لیے؟“ اس نے کہا: نہیں، پوچھا: ”کسی وثن (بت) کے لیے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کر لو“۔
Narrated Amr bin Suhaib: On his father's authority, said that his grandfather said: A woman came to the Prophet ﷺ and said: Messenger of Allah, I have taken a vow to play the tambourine over you. He said: Fulfil your vow. She said: And I have taken a vow to perform a sacrifice in such a such a place, a place in which people had performed sacrifices in pre-Islamic times. He asked: For an Idol? She replied: No. He asked: For an image? She replied: No. He said: Fulfil your vow.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3306
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3438)
(مرفوع) حدثنا داود بن رشيد، حدثنا شعيب بن إسحاق، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، قال: حدثني ابو قلابة، قال: حدثني ثابت بن الضحاك، قال:" نذر رجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ينحر إبلا ببوانة، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني نذرت ان انحر إبلا ببوانة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هل كان فيها وثن من اوثان الجاهلية يعبد؟، قالوا: لا، قال: هل كان فيها عيد من اعيادهم؟، قالوا: لا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اوف بنذرك، فإنه لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم". (مرفوع) حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ، قَالَ:" نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِن أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ".
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ثابت بن ضحاک نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ (ایک جگہ کا نام ہے) میں اونٹ ذبح کرے گا تو وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت وہاں تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟“ لوگوں نے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کفار کی عیدوں میں سے کوئی عید وہاں منائی جاتی تھی؟“ لوگوں نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کر لو البتہ گناہ کی نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ اس چیز میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہیں“۔
Narrated Thabit ibn ad-Dahhak: In the time of the Prophet ﷺ a man took a vow to slaughter a camel at Buwanah. So he came to the Prophet ﷺ and said: I have taken a vow to sacrifice a camel at Buwanah. The Prophet ﷺ asked: Did the place contain any idol worshipped in pre-Islamic times? They (the people) said: No. He asked: Was any pre-Islamic festival observed there? They replied: No. The Prophet ﷺ said: Fulfil your vow, for a vow to do an act of disobedience to Allah must not be fulfilled, neither must one do something over which a human being has no control.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3307
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (3437، 3438)
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا عبد الله بن يزيد بن مقسم الثقفي من اهل الطائف، قال: حدثتني سارة بنت مقسم الثقفي، انها سمعت ميمونة بنت كردم، قالت:" خرجت مع ابي في حجة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت الناس، يقولون: رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعلت ابده بصري، فدنا إليه ابي وهو على ناقة له معه درة كدرة الكتاب، فسمعت الاعراب والناس يقولون: الطبطبية، الطبطبية، فدنا إليه ابي، فاخذ بقدمه، قالت: فاقر له، ووقف، فاستمع منه، فقال:" يا رسول الله، إني نذرت إن ولد لي ولد ذكر، ان انحر على راس بوانة في عقبة من الثنايا عدة من الغنم، قال: لا اعلم إلا انها قالت: خمسين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل بها من الاوثان شيء؟، قال: لا، قال: فاوف بما نذرت به لله، قالت: فجمعها، فجعل يذبحها، فانفلتت منها شاة، فطلبها وهو يقول: اللهم اوف عني نذري، فظفرها، فذبحها". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ مِقْسَمٍ الثَّقَفِيُّ مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَارَّةُ بِنْتُ مِقْسَمٍ الثَّقَفِيِّ، أَنَّهَا سَمِعَتْ مَيْمُونَةَ بِنْتَ كَرْدَمٍ، قَالَتْ:" خَرَجْتُ مَعَ أَبِي فِي حِجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتُ النَّاسَ، يَقُولُونَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلْتُ أُبِدُّهُ بَصَرِي، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي وَهُوَ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ مَعَهُ دِرَّةٌ كَدِرَّةِ الْكُتَّابِ، فَسَمِعْتُ الْأَعْرَابَ وَالنَّاسَ يَقُولُونَ: الطَّبْطَبِيَّةَ، الطَّبْطَبِيَّةَ، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي، فَأَخَذَ بِقَدَمِهِ، قَالَتْ: فَأَقَرَّ لَهُ، وَوَقَفَ، فَاسْتَمَعَ مِنْهُ، فَقَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ إِنْ وُلِدَ لِي وَلَدٌ ذَكَرٌ، أَنْ أَنْحَرَ عَلَى رَأْسِ بُوَانَةَ فِي عَقَبَةٍ مِنَ الثَّنَايَا عِدَّةً مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهَا قَالَتْ: خَمْسِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ بِهَا مِنَ الْأَوْثَانِ شَيْءٌ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَأَوْفِ بِمَا نَذَرْتَ بِهِ لِلَّهِ، قَالَتْ: فَجَمَعَهَا، فَجَعَلَ يَذْبَحُهَا، فَانْفَلَتَتْ مِنْهَا شَاةٌ، فَطَلَبَهَا وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ أَوْفِ عَنِّي نَذْرِي، فَظَفِرَهَا، فَذَبَحَهَا".
میمونہ بنت کردم کہتی ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اور لوگوں کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میں نے آپ پر اپنی نظریں گاڑ دیں، میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوئے آپ اپنی ایک اونٹنی پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معلمین مکتب کے درہ کے طرح ایک درہ تھا، میں نے بدویوں اور لوگوں کو کہتے ہوئے سنا: شن شن (درے کی آواز جو تیزی سے مارتے اور گھماتے وقت نکلتی ہے) تو میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہو گئے اور (جا کر) آپ کے قدم پکڑ لیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتراف و اقرار کیا، آپ کھڑے ہو گئے اور ان کی باتیں آپ نے توجہ سے سنیں، پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ اگر میرے یہاں لڑکا پیدا ہو گا تو میں بوانہ کی دشوار گزار پہاڑیوں میں بہت سی بکریوں کی قربانی کروں گا۔ راوی کہتے ہیں: میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے پچاس بکریاں کہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا وہاں کوئی بت بھی ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اللہ کے لیے جو نذر مانی ہے اسے پوری کرو“ انہوں نے (بکریاں) اکٹھا کیں، اور انہیں ذبح کرنے لگے، ان میں سے ایک بکری بدک کر بھاگ گئی تو وہ اسے ڈھونڈنے لگے اور کہہ رہے تھے اے اللہ! میری نذر پوری کر دے پھر وہ اسے پا گئے تو ذبح کیا۔
Narrated Maymunah, daughter of Kardam: I went out with my father to see the hajj performed by the Messenger of Allah ﷺ. I saw the Messenger of Allah ﷺ. I fixed my eyes on him. My father came near him while he was riding his she-camel. He had a whip like the whip of scribes. I heard the bedouin and the people say: The whip, the whip. My father came near him and held his foot. She said: He admitted his Prophethood and stood and listened to him. He said: Messenger of Allah, I have made a vow that if a son is born to me, I shall slaughter a number of sheep at the end of Buwanah in the dale of hill. The narrator said: I do not know (for certain) that she said: Fifty (sheep). The Messenger of Allah ﷺ said: Does it contain any idol? He said: No. Then he said: Fulfil your vow that you have taken for Allah. He then gathered them (i. e. the sheep) and began to slaughter them. A sheep ran away from them. He searched for it saying: O Allah, fulfil my vow on my behalf. So he succeeded (in finding it) and slaughtered it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3308
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف انظر الحديث السابق (2103) و حديث الأصل (3315) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 120
میمونہ اپنے والد کردم بن سفیان سے اسی جیسی لیکن اس سے قدرے اختصار کے ساتھ روایت کرتی ہیں آپ نے پوچھا: ”کیا وہاں کوئی بت ہے یا جاہلیت کی عیدوں میں سے کوئی عید ہوتی ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: یہ میری والدہ ہیں ان کے ذمہ نذر ہے، اور پیدل حج کرنا ہے، کیا میں اسے ان کی طرف سے پورا کر دوں؟ اور ابن بشار نے کبھی یوں کہا ہے: کیا ہم ان کی طرف سے اسے پورا کر دیں؟ (جمع کے صیغے کے ساتھ) آپ نے فرمایا: ”ہاں“۔
A similar tradition has also been transmitted in brief by Maimunah daughter of Kardam son of Sufyan on the authority of her father through a different chain of narrators. This version adds: (The Prophet asked): Does it contain an idol or was a festival of pre-Islamic times celebrated there ? He replied: No. I said: This mother of mine has taken a vow and walking (is binding on her). May I fulfill it on her behalf ? Sometimes the narrator Bashshar said: May we fulfill in on her behalf ? He said: Yes.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3309
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، ومحمد بن عيسى، قالا: حدثنا حماد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين، قال: كانت العضباء لرجل من بني عقيل، وكانت من سوابق الحاج، قال: فاسر، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في وثاق، والنبي صلى الله عليه وسلم على حمار عليه قطيفة، فقال: يا محمد، علام تاخذني وتاخذ سابقة الحاج؟، قال: ناخذك بجريرة حلفائك ثقيف، قال: وكان ثقيف قد اسروا رجلين من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: وقد قال فيما قال: وانا مسلم، او قال: وقد اسلمت، فلما مضى النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو داود: فهمت هذا من محمد بن عيسى، ناداه: يا محمد، يا محمد، قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم رحيما، رفيقا، فرجع إليه، فقال: ما شانك؟ قال: إني مسلم، قال: لو قلتها وانت تملك امرك، افلحت كل الفلاح، قال ابو داود: ثم رجعت إلى حديث سليمان، قال: يا محمد، إني جائع فاطعمني، إني ظمآن فاسقني، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هذه حاجتك، او قال: هذه حاجته، قال: ففودي الرجل بعد بالرجلين، قال: وحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم العضباء لرحله، قال: فاغار المشركون على سرح المدينة، فذهبوا بالعضباء، قال: فلما ذهبوا بها، واسروا امراة من المسلمين، قال: فكانوا إذا كان الليل يريحون إبلهم في افنيتهم، قال: فنوموا ليلة، وقامت المراة، فجعلت لا تضع يدها على بعير إلا رغا، حتى اتت على العضباء، قال: فاتت على ناقة ذلول مجرسة، قال: فركبتها، ثم جعلت لله عليها إن نجاها الله لتنحرنها، قال: فلما قدمت المدينة عرفت الناقة ناقة النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، فارسل إليها، فجيء بها، واخبر بنذرها، فقال: بئس ما جزيتيها او جزتها، إن الله انجاها عليها لتنحرنها، لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم"، قال ابو داود: والمراة هذه امراة ابي ذر. (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَتِ الْعَضْبَاءُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَكَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ، قَالَ: فَأُسِرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي وَثَاقٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، عَلَامَ تَأْخُذُنِي وَتَأْخُذُ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟، قَالَ: نَأْخُذُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ، قَالَ: وَكَانَ ثَقِيفُ قَدْ أَسَرُوا رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَقَدْ قَالَ فِيمَا قَالَ: وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَوْ قَالَ: وَقَدْ أَسْلَمْتُ، فَلَمَّا مَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: فَهِمْتُ هَذَا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى، نَادَاهُ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا، رَفِيقًا، فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ، أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى حَدِيثِ سُلَيْمَانَ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، إِنِّي ظَمْآنٌ فَاسْقِنِي، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذِهِ حَاجَتُكَ، أَوْ قَالَ: هَذِهِ حَاجَتُهُ، قَالَ: فَفُودِيَ الرَّجُلُ بَعْدُ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَحَبَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَاءَ لِرَحْلِهِ، قَالَ: فَأَغَارَ الْمُشْرِكُونَ عَلَى سَرْحِ الْمَدِينَةِ، فَذَهَبُوا بِالْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهَا، وَأَسَرُوا امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَكَانُوا إِذَا كَانَ اللَّيْلُ يُرِيحُونَ إِبِلَهُمْ فِي أَفْنِيَتِهِمْ، قَالَ: فَنُوِّمُوا لَيْلَةً، وَقَامَتِ الْمَرْأَةُ، فَجَعَلَتْ لَا تَضَعُ يَدَهَا عَلَى بَعِيرٍ إِلَّا رَغَا، حَتَّى أَتَتْ عَلَى الْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةٍ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ، قَالَ: فَرَكِبَتْهَا، ثُمَّ جَعَلَتْ لِلَّهِ عَلَيْهَا إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ لَتَنْحَرَنَّهَا، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِينَةَ عُرِفَتِ النَّاقَةُ نَاقَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَجِيءَ بِهَا، وَأُخْبِرَ بِنَذْرِهَا، فَقَالَ: بِئْسَ مَا جَزَيْتِيهَا أَوْ جَزَتْهَا، إِنِ اللَّهُ أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَالْمَرْأَةُ هَذِهِ امْرَأَةُ أَبِي ذَرٍّ.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عضباء ۱؎ بنو عقیل کے ایک شخص کی تھی، حاجیوں کی سواریوں میں آگے چلنے والی تھی، وہ شخص گرفتار کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بندھا ہوا لایا گیا، اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے، اس نے کہا: محمد! آپ نے مجھے اور حاجیوں کی سواریوں میں آگے جانے والی میری اونٹنی (عضباء) کو کس بنا پر پکڑ رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے تمہارے حلیف ثقیف کے گناہ کے جرم میں پکڑ رکھا ہے“۔ راوی کہتے ہیں: ثقیف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو شخصوں کو قید کر لیا تھا۔ اس نے جو بات کہی اس میں یہ بات بھی کہی کہ میں مسلمان ہوں، یا یہ کہا کہ میں اسلام لے آیا ہوں، تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے (آپ نے کوئی جواب نہیں دیا) تو اس نے پکارا: اے محمد! اے محمد! عمران کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحم دل اور نرم مزاج تھے، اس کے پاس لوٹ آئے، اور پوچھا: ”کیا بات ہے؟“ اس نے کہا: میں مسلمان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم یہ پہلے کہتے جب تم اپنے معاملے کے مختار تھے تو تم بالکل بچ جاتے“ اس نے کہا: اے محمد! میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلاؤ، میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلاؤ۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”یہی تمہارا مقصد ہے“ یا: ”یہی اس کا مقصد ہے“۔ راوی کہتے ہیں: پھر وہ دو آدمیوں کے بدلے فدیہ میں دے دیا گیا ۲؎ اور عضباء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کے لیے روک لیا (یعنی واپس نہیں کیا)۔ پھر مشرکین نے مدینہ کے جانوروں پر حملہ کیا اور عضباء کو پکڑ لے گئے، تو جب اسے لے گئے اور ایک مسلمان عورت کو بھی پکڑ لے گئے، جب رات ہوتی تو وہ لوگ اپنے اونٹوں کو اپنے کھلے میدانوں میں سستانے کے لیے چھوڑ دیتے، ایک رات وہ سب سو گئے، تو عورت (نکل بھاگنے کے ارادہ) سے اٹھی تو وہ جس اونٹ پر بھی ہاتھ رکھتی وہ بلبلانے لگتا یہاں تک کہ وہ عضباء کے پاس آئی، وہ ایک سیدھی سادی سواری میں مشاق اونٹنی کے پاس آئی اور اس پر سوار ہو گئی اس نے نذر مان لی کہ اگر اللہ نے اسے بچا دیا تو وہ اسے ضرور قربان کر دے گی۔ جب وہ مدینہ پہنچی تو اونٹنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی حیثیت سے پہچان لی گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ نے اسے بلوایا، چنانچہ اسے بلا کر لایا گیا، اس نے اپنی نذر کے متعلق بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کتنا برا ہے جو تم نے اسے بدلہ دینا چاہا، اللہ نے اسے اس کی وجہ سے نجات دی ہے تو وہ اسے نحر کر دے، اللہ کی معصیت میں نذر کا پورا کرنا نہیں اور نہ ہی نذر اس مال میں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ عورت ابوذر کی بیوی تھیں۔
Imran bin Husain said: Adba belonged to a man of Banu Aqil. It used to go ahead of pligrims. The man was then captivated. He was brought in chains to the Prophet ﷺ. The Prophet ﷺ was riding on a donkey with a blanket on him. He said: Muhammad, why do you arrest me and capture the one (i. e. the she-camel) which goes ahead of the pilgrims. He replied: We are arresting you on account of the crime committed by your allies Thaqid. Thaqif captivated two persons from among the Companions of the Prophet ﷺ. He said (whatever he said) I am a Muslim, or he said: I have embraced Islam. When the Prophet ﷺ went ahead, he called him: O Muhammed, O Muhammed. Abu Dawud said: I learnt it from the version of the narrator Muhammad bin 'Isa. The Prophet ﷺ was compassionate and kind hearted. So he returned to him, and asked: What is the matter with you ? He replied: I am a Muslim. He said: Had you said it when the matter was in your hand, you would have succeeded completely. Abu Dawud said: I then returned to the version of the narrator Sulaiman (b. Harb). He said: Muhammad, I am hungry, so feed me. I am thirsty, so give me water. The Prophet ﷺ said: This is your need, or he said: This is his need (the narrator is doubtful). Later on the man was taken back (by Thaqif) as a ransom for the two men (of the Companions of the Prophet). The Prophet ﷺ retained Adba for his journey. The narrator said: The polytheists raided the pasturing animals of Madina and they took away Adba. When they took away Adba, they also captivated a Muslim woman. They used to leave their camels in the fields for rest at night. One night they slept and the (Muslim) woman stood up. Any camel on which she put her hand brayed until she came to Adba. She came to a she-camel which was docile and experienced. She then rode on her and vowed to Allah that if He saved her, she would sacrifice it. When she came to Madina, the people recognized the she-camel of the Prophet ﷺ. The Prophet ﷺ was then informed about it and he sent for her. She was brought to him and she informed him about her vow. He said: It is a bad return that you have given it. Allah has not saved you, on its (back) that you now sacrifice it. A vow to do an act of disobedience must not be fulfilled, or to do something over which one has no control. Abu Dawud said: This woman was the wife of Abu Dharr.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3310
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے دستبردار ہو کر اسے اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے“ تو میں نے عرض کیا: میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے لیے روک لیتا ہوں۔
Narrated Kab ibn Malik: I said: Messenger of Allah, to make my repentance complete I should divest myself of my property as sadaqah (alms) for Allah and His Messenger. The Messenger of Allah ﷺ said: Retain some of your property, for that will be better for you. So he said: I shall retain the portion I have at Khaybar.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3311
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أصله متفق عليه، صحيح البخاري (4418) ومسلم (2769)
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب ان کی توبہ قبول ہو گئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میں اپنے مال سے دستبردار ہو جاتا ہوں، پھر آگے راوی نے اسی طرح حدیث بیان کی: «خير لك» تک۔
Narrated Kab bin Malik: To the Messenger of Allah ﷺ when his repentance was accepted: I should divest myself of my property. He then mentioned a similar tradition up to the words, "better for you".
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3312
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (3317)
(مرفوع) حدثني عبيد الله بن عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن ابن كعب بن مالك، عن ابيه، انه قال للنبي صلى الله عليه وسلم، او ابو لبابة، او من شاء الله:" إن من توبتي ان اهجر دار قومي التي اصبت فيها الذنب، وان انخلع من مالي كله صدقة، قال: يجزئ عنك الثلث". (مرفوع) حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَبُو لُبَابَةَ، أَوْ مَنْ شَاءَ اللَّهُ:" إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَهْجُرَ دَارَ قَوْمِي الَّتِي أَصَبْتُ فِيهَا الذَّنْبَ، وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ صَدَقَةً، قَالَ: يُجْزِئُ عَنْكَ الثُّلُثُ".
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں انہوں نے یا ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے یا کسی اور نے جسے اللہ نے چاہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری توبہ میں شامل ہے کہ میں اپنے اس گھر سے جہاں مجھ سے گناہ سرزد ہوا ہے ہجرت کر جاؤں اور اپنے سارے مال کو صدقہ کر کے اس سے دستبردار ہو جاؤں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس ایک ثلث کا صدقہ کر دینا تمہیں کافی ہو گا“۔
Narrated Kab ibn Malik: Kab ibn Malik said to AbuLubabah; or someone else whom Allah wished; or to the Prophet ﷺ: To make my repentance complete I should depart from the house of my people in which I fell into sin, and that I should divest myself of all my property as sadaqah (alms). He said: A third (of your property) will be sufficient for you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3313
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (3439) انظر الحديث السابق (3317)
(مرفوع) حدثنا محمد بن المتوكل، حدثنا عبد الرزاق، قال: اخبرني معمر، عن الزهري، قال: اخبرني ابن كعب بن مالك، قال: كان ابو لبابة، فذكر معناه، والقصة لابي لبابة قال ابو داود: رواه يونس، عن ابن شهاب، عن بعض بني السائب بن ابي لبابة، ورواه الزبيدي، عن الزهري، عن حسين بن السائب بن ابي لبابة، مثله. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو لُبَابَةَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَالْقِصَّةُ لِأَبِي لُبَابَةَ قَال أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ بَعْضِ بَنِي السَّائِبِ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، وَرَوَاهُ الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، مِثْلَهُ.
زہری کہتے ہیں: مجھے ابن کعب بن مالک نے خبر دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ ابولبابہ رضی اللہ عنہ تھے پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی اور واقعہ ابولبابہ کا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے یونس نے ابن شہاب سے اور ابن شہاب نے سائب بن ابولبابہ کے بیٹوں میں سے کسی سے روایت کیا ہے نیز اسے زبیدی نے زہری سے، زہری نے حسین بن سائب بن ابی لبابہ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12149) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوی محمد بن متوکل حافظہ کے سخت کمزور ہیں اور حسین بن ابی السائب یا بعض بنی السائب مجہول ہیں)
This tradition has also been transmitted by Ibn Kab bin Malik through a different chain of narrators. This version has: "He then mentioned the tradition to the same effect. This versions attributes this story to Abu Lubabah. " Abu Dawud said: This tradition has been narrated by Yunus from Ibn Shihab from some of the children of al-Saib son of Abu Lubabah. A similar tradition has also been transmitted by al-Zabidi from al-Zuhri from Husain bin al-Saib son of Abu Lubabah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3314
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف السند مرسل انوار الصحيفه، صفحه نمبر 120
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی قصہ میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ میں یہ شامل ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں اپنا سارا مال صدقہ کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: نصف صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: ثلث صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے کہا: تو میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، انظر رقم (2202)، (تحفة الأشراف: 11135) (حسن صحیح)»
Narrated Kab ibn Malik: I said: Messenger of Allah, to make my atonement complete I should divest myself of my all property as sadaqah (alms) for Allah and His Messenger. He said: No. I said: The half of it. He said: No. I said: Then a third of it. He said: Yes. I said: I shall retain the portion I have at Khaybar.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3315
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن انظر الحديث السابق (3317)