حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 732
´بغیر نماز پڑھے مسجد میں بیٹھنے اور اس سے نکلنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنا وہ واقعہ بیان کر رہے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو تشریف لائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کر لیا تو جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کے پاس آئے، آپ سے معذرت کرنے لگے، اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، وہ اسّی سے کچھ زائد لوگ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہری بیان کو قبول کر لیا، اور ان سے بیعت کر لی، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی، اور ان کے دلوں کے راز کو اللہ عزوجل کے سپرد کر دیا، یہاں تک کہ میں آیا تو جب میں نے سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے جیسے کوئی غصہ میں مسکراتا ہے، پھر فرمایا: ”آ جاؤ!“ چنانچہ میں آ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۱؎، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: ”تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہیں لی تھی؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہوتا تو میں اس کے غصہ سے اپنے آپ کو یقیناً بچا لیتا، مجھے باتیں بنانی خوب آتی ہے لیکن اللہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کو خوش کرنے کے لیے میں آج آپ سے جھوٹ موٹ کہہ دوں تو قریب ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے، اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہہ دوں تو آپ مجھ پر ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا، اللہ کی قسم جب میں آپ سے پیچھے رہ گیا تھا تو اس وقت میں زیادہ طاقتور اور زیادہ مال والا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہا یہ شخص تو اس نے سچ کہا، اٹھو چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے“، چنانچہ میں اٹھ کر چلا آیا، یہ حدیث لمبی ہے یہاں مختصراً منقول ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 732]
732 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ واقعہ بہت لمبا ہے، یہاں صرف ایک حصہ بیان ہوا ہے۔ تفصیل صحیحین میں مذکور ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4418: و صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 2769]
➋ حدیث میں صراحت نہیں کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے تحیۃ المسجد پڑھی ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کی تبویب سے یہی غرض ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 732
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3854
´آدمی نذر مانے اور اسے پوری کرنے سے پہلے اسلام قبول کر لے تو اس کی نذر کے حکم کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول کے نام پر صدقہ کر کے اپنے مال سے علیحدہ ہو جاتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اپنا کچھ مال روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا ۱؎۔“ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: ہو سکتا ہے کہ زہری نے اس حدیث کو عبداللہ بن کعب اور عبدالرحمٰن دونوں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3854]
اردو حاشہ:
(1) امام زہری رحمہ اللہ یہ حدیث چار طریق سے بیان کرتے ہیں: ایک طریق میں وہ عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں اور وہ اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے جیسا کہ اس حدیث کی سند میں ہے۔ دوسرے طریق میں عبدالرحمن بن کعب سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ حدیث: 3855 میں ہے۔ تیسرے طریق میں عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں‘ اور وہ اپنے والد عبداللہ بن کعب سے جیسا کہ حدیث: 3856 میں ہے اور چوتھے طریق میں بھی وہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب ہی سے بیان کرتے ہیں‘ لیکن یہاں عبدالرحمن آگے اپنے والد کی بجائے اپنے چچا عبیداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ حدیث: 3857 میں ہے۔ واللہ أعلم۔ اس واقعے کا تعلق غزوۂ تبوک سے تھا۔ اس جنگ میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے سستی ہوگئی۔ وہ شامل نہ ہوسکے۔ ان سے بائیکاٹ کیا گیا جو پچاس دن تک جاری رہا پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا قرآن مجید میں اعلان کیا گیا۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔
(2) یہ حدیث مذکورہ باب سے نہیں بلکہ آئندہ باب سے متعلق ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے بہت سے مقامات پر ایسے کیا ہے۔ جب ایک باب کے تحت بہت سی احادیث ہوں تو آخر میں ایک حدیث ایسی لاتے ہیں جو آئندہ باب سے تعلق رکھتی ہے۔ شاید یہ اشارہ کرنا مقصود ہو کہ آگے نیا باب آرہا ہے۔ یہ اسلوب صرف امام نسائی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3854
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3855
´جب کوئی اپنا مال نذر کے طور پر ہدیہ کر دے۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنا وہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے، وہ کہتے ہیں: جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہو جاؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا“، میں نے عرض کیا: اچھا تو میں اپنا وہ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3855]
اردو حاشہ:
(1) ”آپ کے سامنے بیٹھا“ یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان ہوگیا تھا اور وہ رسول اللہ ﷺ کی ملاقات وزیارت کو بے تابانہ حاضر ہوئے تھے۔ آخر پچاس دن بیت چکے تھے۔
(2) ”میری توبہ میں سے ہے“ گویا انہوں نے جب توبہ کی تھی تو ساتھ نذر بھی مانی تھی کہ اگر میری توبہ قبول ہوگئی تو میں اپنا سارا مال صدقہ کردوں گا۔ اب آپ کے سامنے ذکر کیا تو آپ نے اصلاح فرما دی کہ سارا مال صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کچھ مال اپنے پاس بھی رکھنا چاہیے تاکہ نذر ماننے والا محتاج ہی نہ ہوجائے۔ اس طرح یہ آئندہ کے لیے بھی دستور بن گیا کہ اگر کوئی شخص اپنا سارا مال صدقہ کرنے کی نذر مان لے تو وہ اپنی ضرورت کے مطابق مال رکھ سکتا ہے بلکہ اسے رکھنا چاہیے۔ اور اس حدیث کو مذکورہ باب کے تحت ذکر کرنے کی یہی وجہ ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3855
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3856
´جب کوئی اپنا مال نذر کے طور پر ہدیہ کر دے۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ (کہتے ہیں:) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہو جاؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنا (کچھ) مال اپنے لیے روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا“، میں نے عرض کیا: تو میں اپنے پاس اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3856]
اردو حاشہ:
(1) ”اللہ اور اس کے رسول کے لیے“ کیونکہ اس موقع پر اللہ اور اس کا رسول دونوں ناراض ہوگئے تھے‘ لہٰذا دونوں کو راضی کرنا مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو راضی کرنا منع نہیں‘ مثلاً: والدین کی رضا مندی کا حصول۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی رضا مندی اور ناراضی اکٹھی ہی ہوتی ہے۔ اللہ راضی تو رسول بھی راضی۔ اللہ ناراض تو رسول بھی ناراض‘ البتہ کسی عبادت‘ مثلاً: نماز‘ روزہ وغیرہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا وثواب ہی مقصود ہونا چاہیے۔
(2) ﴿قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ﴾ صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ دینے والے کی طاقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے‘ اس پر اتنا بوجھ ڈالا جائے جتنا وہ اٹھا سکے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3856
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3857
´جب کوئی اپنا مال نذر کے طور پر ہدیہ کر دے۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے مجھے صرف سچ کی وجہ سے نجات دی تو میری توبہ میں سے یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے پاس روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا“، میں نے عرض کیا: تو میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3857]
اردو حاشہ:
(1) ”خیبر والا حصہ“ یعنی غزوۂ خیبر کی غنیمت سے جو مجھے میرا حصہ ملا تھا۔ اور وہ زمین وباغ کی صورت میں تھا۔
(2) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دی گئی رخصت کو قبول کرنا چاہیے‘ خواہ وہ رخصت سفری نمازوں میں ہو یا دیگر معاملات میں‘ اسی میں سعادت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3857
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3321
´جو اپنا سارا مال صدقہ میں دے دینے کی نذر مانے اس کے حکم کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی قصہ میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ میں یہ شامل ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں اپنا سارا مال صدقہ کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: نصف صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: ثلث صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے کہا: تو میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3321]
فوائد ومسائل:
جس شخص نے اپنا کل مال صدقہ کرنے کی نذر مانی ہو تو ا س کی نذر اس طرح پوری کی جائے۔
کہ اس کا تہائی (3/1) مال صدقہ کردیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3321
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4600
´بدعتیوں اور ہوا پرستوں کی صحبت سے بچنے اور ان سے بغض و نفرت رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن کعب سے روایت ہے (جب کعب رضی اللہ عنہ نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں عبداللہ آپ کے قائد تھے) وہ کہتے ہیں: میں نے کعب بن مالک سے سنا (ابن السرح ان کے غزوہ تبوک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ ذکر کر کے کہتے ہیں کہ کعب نے کہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے گفتگو کرنے سے منع فرما دیا یہاں تک کہ جب لمبا عرصہ ہو گیا تو میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار کود کر ان کے پاس گیا، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے، میں نے انہیں سلام کیا تو قسم اللہ کی! انہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4600]
فوائد ومسائل:
1۔
شخصی احوال میں اپنے کسی مسلمان بھائی سے ناراض ہوجائے تو تین دن سے زیادہ بات چیت چھوڑ دینا جائز نہیں۔
لیکن اگر دینی اور شرعی سبب ہو تو یہ مقاطعہ طویل کیا جا سکتا ہے۔
بالخصوص اہل بدعت سے دینی حق کی بناء پر دائمی مقاطعہ (قطع تعلقی) مطلوب ہے۔
2۔
حضرت کعب بن مالک مرارہ بن ربیع اور ہلالبن امیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ معروف ہے۔
تفسیروسیرت اور احادیث کی کتب میں تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
ان حضرات کی توبہ پچاس دن کے بعد قبول ہوئی تھی۔
اس دوران میں تادیب وتنبیہ کے لیے مسلمانوں کو ان سے بعد چیت سے منع کردیا گیا تھا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔
دیکھیے: (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4418، صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 2769)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4600
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4673
4673. عبداللہ بن کعب سے روایت ہے کہ حضرت کعب بن مالک ؓ جب وہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تو میں نے ان سے سنا: اللہ کی قسم! ہدایت کے بعد اللہ تعالٰی نے مجھ پر اتنا بڑا اور کوئی انعام نہیں کیا جتنا رسول اللہ ﷺ کے سامنے سچ بولنے کا کیا کہ میں نے آپ سے جھوٹ نہ بولا، بصورت دیگر میں بھی اسی طرح ہلاک ہو جاتا جس طرح دوسرے جھوٹی معذرتیں بیان کرنے والے لوگ ہلاک ہوئے تھے جب ان کے بارے میں یہ وحی نازل کی گئی: ”جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو وہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں اٹھائیں گے۔۔ جو نافرمان ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4673]
حدیث حاشیہ:
پہلے کعب کے دل میں طرح طرح کے خیال شیطان نے ڈالے تھے کہ کوئی جھوٹا بہانہ کر دینا۔
لیکن اللہ نے ان کو بچالیا۔
انہوں نے سچ سچ اپنے قصور کا اقرار کر لیا اور یہی اللہ کا فضل تھا جس کا وہ مدۃ العمر شاندار لفظوں میں ذکر فرماتے رہے۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو سچ ہی بولنے کی سعادت بخشے۔
(آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4673
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4676
4676. حضرت عبداللہ بن کعب سے روایت ہے۔۔ جب کعب ؓ نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں سے یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے تھے۔۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت کعب بن مالک ؓ سے ان کے اس واقعے کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: ”اور ان تین آدمیوں پر بھی (مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا۔“ آپ نے آخر میں کہا تھا کہ میں اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں صدقہ کرتا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”نہیں کچھ مال اپنے لیے بھی رکھ لو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4676]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ خیرات بھی وہی بہتر ہے جو طاقت کے موافق کی جائے۔
اگر کوئی محض خیرات کے نتیجہ میں خود بھوکا ننگا رہ جائے تو وہ خیرات عند اللہ بہتر نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4676
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6690
6690. عبد الرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے (وہ اپنے باپ عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں)۔ اور جب حضرت کعب بن مالک ؓ نا بینا ہوگئے تھے تو ان کی اولاد میں سے یہی (عبداللہ بن کعب) ان کو لے کر چلا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک ؓ سے ان کی حدیث سنی جو ان حضرات سے متعلق تھی جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنی سرگزشت کے آخر میں کہا: میں نے یہ پیش کش كى کہ اپنی توبہ کی خوشی میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے لیے صدقہ کر کے اس سے خالی ہونا چاہتا ہوں نبی ﷺ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے پاس ہی رکھو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6690]
حدیث حاشیہ:
آیت شریفہ ﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا﴾ الخ (التوبة: 117)
میں ان تینوں صحابیوں کا ذکر ہے جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور رسول کریم ﷺ نے ان سے سخت باز پرس کی تھی وہ تین حضرت کعب بن مالک اور ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیعہ ہیں۔
پچھلے دو نےتو معذرت وغیرہ کر کے چھٹکارا حاصل کر لیا تھا مگر حضرت کعب بن مالک نے اپنے قصور کا اعتراف کیا اور کوئی معذرت کرنا مناسب نہ جانا۔
آخر رسول کریم ﷺ نے وحی الہی کےانتظار میں ان سے بولنا وغیرہ بند کر دیا آخر بہت کافی دنوں بعد ان کی توبہ کی قبولیت کی بشارت ملی اور ان کو مبارک باد دی گئی۔
انصاری خزرجی ہیں دوسری بیعت عقبہ میں یہ شریک تھے۔
77سال کی عمر پا کر 50ھ میں جب کہ بصارت چلی گئی تھی ان کا انتقال ہوا۔
رضي اللہ عنه أرضاہ (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6690
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7225
7225. سیدنا عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے، جس وقت سیدنا کعب ؓ نابینا ہوگئے تو ان کے بیٹوں میں سے یہی ان کے قائد تھے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سیدنا کعب ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جانے سے پیچھے رہ گئے۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا پورا واقعہ بیان کیا۔۔۔۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہمارے ساتھ گفتگو کرنے سے روک دیا تو ہم پچاس راتیں اسی حالت میں رہے پھر رسول اللہ ﷺ نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7225]
حدیث حاشیہ:
حضرت کعب بن مالک نے غزوہ تبوک سے بلا اجازت غیر حاضری کی تھی اور یہ بڑا بھاری جرم تھا جو ان سے صادر ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے پورا ترک مواملات فرمایا حتیٰ کہ ان کی توبہ اللہ نے قبول کی۔
اب ایسے معاملات خلیفہ اسلام کی صواب دید پر موقوف کئے جا سکتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7225
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2757
2757. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میری توبہ کا اتمام یہ ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر قربان کرکے اس سے دستبردار ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: ” کچھ اپنے پاس بھی رکھو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔“ میں نے عرض کیا: اپنا وہ حصہ اپنے پاس رکھ لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2757]
حدیث حاشیہ:
یہ کعب بن مالک ؓ وہ صحابی ہیں جو اپنے دو ساتھیوں سمیت جنگ تبوک میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ نہیں نکلے تھے۔
آپ ایک مدت تک زیر عتاب رہے۔
آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی۔
اس کا مفصل ذکر کتاب المغازی میں آئے گا۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ سارا مال خیرات کردینا مکروہ ہے اور یہ بھی نکلا کہ مال منقولہ کا وقف کرنا بھی جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2757
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6255
6255. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کر دی تھی، بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتا تھا پھر دل میں کہتا تھا کہ دیکھوں آپ نے ہونٹ مبارک بلائے ہیں یا نہیں؟ آخر پورے پچاس دن گزر گئے تو نبی ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ قبول کیے جانے کا اعلان نماز پڑھنے کے بعد کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6255]
حدیث حاشیہ:
یہ ایک عظیم واقعہ تھا جس سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ متہم ہوئے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت جہاد کی اہمیت کے پیش نظر کعب بن مالک جیسے نیک وصالح فدائی اسلام کے لئے یہ تساہل مناسب نہ تھا وہ جیسے عظیم المرتبت تھے ان کی کوتاہی کو بھی وہی درجہ دیا گیا اور انہوں نے جس صبر وشکر وپامردی کے ساتھ اس امتحان میں کامیابی حاصل کی وہ بھی لائق صد تبریک ہے اب یہ امر امام وخلیفہ کی دوراندیشی پر موقوف ہے کہ وہ کسی بھی ایسی لغزش کے مرتکب کو کس حد تک قابل سرزنش سمجھتا ہے۔
یہ ہرکس و ناکس کامقام نہیں ہے فافھم ولاتکن من القاصرین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6255
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4418
4418. حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے۔۔ جب حضرت کعب ؓ نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں سے حضرت عبداللہ ہی انہیں جدھر انہوں نے آنا جانا ہوتا لے جاتے۔۔ انہوں نے کہا: میں نے حضرت کعب بن مالک ؓ سے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے کا واقعہ سنا، حضرت کعب ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے جتنے غزوات کیے ہیں میں ان میں سے کسی غزوے میں بھی آپ ﷺ سے پیچھے نہیں رہا۔ میں صرف غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گیا تھا۔ البتہ میں غزوہ بدر میں بھی شریک نہیں تھا لیکن جنگ بدر سے پیچھے رہ جانے پر اللہ تعالٰی نے کسی پر عتاب نہیں فرمایا کیونکہ رسول اللہ ﷺ قریش کے ایک قافلے کا ارادہ کر کے باہر نکلے تھے لیکن اللہ تعالٰی نے وقت طے کیے بغیر مسلمانوں کا سامنا دشمن سے کرا دیا۔ میں تو عقبہ کی رات بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا جہاں میں نے اسلام پر قائم رہنے کا مضبوط قول و قرار کیا تھا۔ اگر لوگوں میں غزوہ بدر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4418]
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث میں اگرچہ مذکورہ تین بزرگوں کا جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے اور ان کی توبہ قبول ہونے کا تفصیلی ذکر ہے مگر اس سے حضرت حافظ ابن حجر ؒ نے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔
جس کی تفصیل کے لیے اہل علم فتح الباری کا مطالعہ فرمائیں۔
اس واقعہ کے ذیل علامہ حسن بصری ؒ کا یہ ارشاد گرامی یاد رکھنے کے قابل ہے۔
یا سبحان اللہ ما أکل ھٰؤلاءالثلاثة مالاحراما ولاسفکوا دما حراماولا أفسدوا في الأرض أصابهم ماسمعتم وضاقت علیهم الأرض بمارحبت فکیف بمن یواقعا لفواحش و الکبائر (فتح الباری)
یعنی سبحان اللہ ان تینوں بزرگوں نے نہ کوئی حرام مال کھایا تھا نہ کوئی خون بہایا تھا اور نہ زمین میں فساد برپا کیا تھا، پھر بھی ان کو یہ سزا دی گئی جس کا ذکر تم نے سنا ہے۔
ان کے لیے زمین اپنی فراخی کے باوجود تنگ ہوگئی پس ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو بے حیائی اور ہر بڑے گناہوں میں ملوث ہوتے رہتے ہیں۔
ان پر خدا اور رسول اکا کس قدر عتاب ہونا چاہیے۔
اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ گناہوں کا ارتکاب کس قدر خطرناک ہے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری خزرجی ہیں۔
بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک ہوئے۔
50ھ میں 77سال کی عمر طویل پاکر انتقال فرمایا۔
(رضي اللہ عنه وأرضاہ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4418
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2757
2757. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میری توبہ کا اتمام یہ ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر قربان کرکے اس سے دستبردار ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: ” کچھ اپنے پاس بھی رکھو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔“ میں نے عرض کیا: اپنا وہ حصہ اپنے پاس رکھ لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2757]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کسی نے اپنی جائیداد میں سے کچھ مال صدقہ یا وقف کیا تو بلا اختلاف جائز ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی بات کی ترغیب دی ہے کہ کل مال صدقہ کرنے کے بجائے کچھ مال صدقہ کیا جائے تاکہ آئندہ دنیاوی آفات میں فقر و فاقہ سے محفوظ رہے۔
ممکن ہے کہ عمر طویل ہو یا بینائی جاتی رہے یا کمزور تر ہو جائے یا کوئی موذی مرض لاحق ہو جائے جس کے باعث کاروبار بدستور قائم نہ رہ سکے اور اپنے پاس کچھ نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن مالک ؓ کو فرمایا:
”اپنا کچھ مال روک لو تاکہ آئندہ تمہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔
“ وقف کی ایک قسم وقف مشاع ہے، یعنی کسی مشترک غیر ممتاز چیز کو وقف کرنا یا وقف منقول جیسا کہ چوپایہ اور آلات زراعت وغیرہ۔
ان کو وقف کرنے کے متعلق آئندہ احادیث ذکر ہوں گی۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے یہ باب منقول کے لیے قائم کیا ہے جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ اس کے قائل نہیں ہیں۔
اس سے وقف مشاع کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے جبکہ امام محمد بن حسن اس کے مخالف ہیں۔
(فتح الباري: 473/5)
لیکن ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ نے اپنے مال سے کچھ حصہ وقف یا صدقہ کرنے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ وقف مشاع اور منقول سے متعلق احادیث آگے بیان ہوں گی۔
واللہ أعلم۔
واضح رہے کہ حضرت کعب بن مالک ؓ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ آئندہ بیان ہو گا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4418)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2757
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3556
3556. حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، اور وہ جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ بیان کر رہے تھے، انھوں نے کہا: جب میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو سلام کیا تو خوشی و مسرت سےآپ کی پیشانی کے خطوط سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ جب بھی کسی بات پر خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور روشن ہو جا تا تھا گویا چاند کا ٹکڑا ہو۔ آپ کی مسرت و شاد مانی کو ہم اس سے پہچان جاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3556]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اس قدر روشن اورتابندہ تھی گویا اس سے سورج کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔
(صحیح ابن حبان: 74/9)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے حدروشن جبین تھے۔
جب رات کی تاریکی میں تشریف لاتے تو سیاہ بالوں کے درمیان آپ کی تابناک اور کشادہ پیشانی روشن چراغ کی طرح جگمگا اٹھتی تھی۔
(دلائل النبوة: 317/1)
حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ہماری طرف التفات فرمایا،گویا آپ کا چہرہ چاند کا ٹکڑا تھا۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 136/2 طبع مکتبة العلوم والحکم و فتح الباري: 701/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3556
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4418
4418. حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے۔۔ جب حضرت کعب ؓ نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں سے حضرت عبداللہ ہی انہیں جدھر انہوں نے آنا جانا ہوتا لے جاتے۔۔ انہوں نے کہا: میں نے حضرت کعب بن مالک ؓ سے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے کا واقعہ سنا، حضرت کعب ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے جتنے غزوات کیے ہیں میں ان میں سے کسی غزوے میں بھی آپ ﷺ سے پیچھے نہیں رہا۔ میں صرف غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گیا تھا۔ البتہ میں غزوہ بدر میں بھی شریک نہیں تھا لیکن جنگ بدر سے پیچھے رہ جانے پر اللہ تعالٰی نے کسی پر عتاب نہیں فرمایا کیونکہ رسول اللہ ﷺ قریش کے ایک قافلے کا ارادہ کر کے باہر نکلے تھے لیکن اللہ تعالٰی نے وقت طے کیے بغیر مسلمانوں کا سامنا دشمن سے کرا دیا۔ میں تو عقبہ کی رات بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا جہاں میں نے اسلام پر قائم رہنے کا مضبوط قول و قرار کیا تھا۔ اگر لوگوں میں غزوہ بدر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4418]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ادائے فرض میں سستی اور غفلت کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ بسااوقات انسان سستی اور غفلت کے وقت کسی ایسے قصور کا مرتکب ہوجاتا ہے جس کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے، نیز اس سے پتہ چلتا ہے کہ کفرواسلام کی کشمکش کا معاملہ کس قدر نزاکت کاحامل ہے، اس میں کفر کا ساتھ دینا تو درکنار جو شخص اسلام کا ساتھ دینے میں کسی ایک موقع پر بھی کوتاہی برت جاتا ہے اس کی بھی زندگی بھر کی عبادت گزاریاں خطرے میں پڑجاتی ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے حسن بصری ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے کہا:
سبحان اللہ! ان تین آدمیوں نے نہ تو مالِ حرام کھایا اور نہ ناحق خون ریزی کی، نہ زمین پر فساد کیا، اس کے باوجود جو مصیبت انھیں پہنچی وہ سب جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی وسیع اور کشادہ زمین ان پر تنگ ہوگئی جو شخص فواحش ومنکرات اور بڑے بڑے گناہوں کا مرتکب ہوا اس کا کیا حال ہوگا، اس لیے ہمیں اپنے طرز ِعمل کے متعلق غوروخوض کرنا ہوگا۔
(فتح الباري: 155/8)
حضرت کعب بن مالک ؓ اس طرز عمل پر بہت فکر مند تھےجیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
فرماتے ہیں کہ مجھے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ اگر اسی حالت میں میری وفات ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ میری نماز جنازہ نہیں پڑھیں گے یا میری اس حالت کے دوران میں رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگیا اور لوگوں میں میرا یہی حال رہا تووہ مجھ سے گفتگو نہیں کریں گے اور نہ کوئی اور میرا جنازہ ہی پڑھے گا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4677)
حافظ ابن حجر ؒ حضرت کعب بن مالک ؓ کی قوتِ ایمانی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں، جب کعب بن مالک ؓ نے غسانی کا خط تنور میں پھینک دیا تو ان کا یہ عمل اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت پر دلالت کرتا ہے بصورت دیگر ایسے موقع پر جب سوشل بائیکاٹ کا یہ عالم ہو کہ سلام و کلام تک بند ہو، کوئی توجہ نہ کرے تو کمزور ایمان والا آدمی بیزار ہو جاتا ہے اورجاہ ومال کی طرف رغبت کرتا ہے۔
انسان ایسے حالات میں اپنے دل سے کہتا ہے کہ بائیکاٹ کرنے والوں کو چھوڑو اور کچھ دن آرام سے گزارو، خاص طور پر جب ایک بادشاہ کی طرف سے امن و خوشحالی کا پیغام پہنچ چکا ہو۔
اس کایہ بھی کہنا کہ تمھیں دین چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن اس سب کچھ کے باوجود انھوں نے اس پیشکش کو امتحان خیال کیا بلکہ انھوں نے اس خط ہی کو جلا دیا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
اسے کہلا بھیجا:
یہ ہے تمہارے اس خط کا جواب۔
اس طرف کسی قسم کے جھکاؤ کا اظہارنہ کیا۔
انھوں نے اس بات کو ثابت کر دکھایا کہ ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے سے قطعاً کوئی محبت نہیں۔
(فتح الباري: 152/8)
2۔
اس طویل حدیث میں اگرچہ تین حضرات کے غزوہ تبو ک سے پیچھے رہ جانے اور ان کی توبہ قبول ہونے کا تفصیلی ذکر ہے، مگر اس سے حافظ ابن حجر ؒ نے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں۔
*۔
اچھی چیز کے ضائع ہوجانے پر افسوس جائز ہے۔
*۔
اہل بدعت سے دور رہنا اور ان سے بچنا چاہیے۔
*۔
کسی سنگین معصیت کے ارتکاب پر بائیکاٹ کرنا جائز ہے حتی کہ بیوی کے قریب نہ جانے کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
*۔
باہر سے آنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ گھر جانے سے پہلے مسجد میں آئے اور دورکعتیں پڑھے۔
*۔
نماز میں نظر پھیر کر دیکھنا نماز کو باطل نہیں کرتا، نیز سلام کرنا اور اس کا جواب دینا کلام ہے۔
*۔
جب کاغذ پر اللہ کا نام لکھا ہوتو کسی مصلحت کے پیش نظر اسے جلانا جائزہے۔
*۔
نعمت کے ملنے اور مصیبت کے ختم ہونے پر خوشخبری دینا پسندیدہ امر ہے۔
*۔
آنے والے سے مصافحہ کرنا اور اس کے استقبال کے لیے کھڑا ہونا جائز ہے۔
*۔
جس اچھی چیز سے نفع ہو، اس کا التزام ہمیشہ کرنا چاہیے۔
*۔
جو شخص دین میں قوی ہو، اس کا مواخذہ کمزور آدمی کی بانسبت زیادہ سخت ہوتا ہے۔
*۔
ضروری امور میں امام کے پاس اکھٹے ہونا چاہیے اور جس سے امام کے ساتھی خوش ہوں امام کو بھی خوش ہونا چاہیے۔
*۔
اشارے کنائے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، ہاں! اگرنیت طلاق دینے کی ہوتو واقع ہوجائے گی۔
*۔
قریبی لوگوں کی محبت پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کوترجیح دینا ایمان کاحصہ ہے۔
*۔
جس شخص سے شرعی بائیکاٹ ہو اس کے سلام وکلام کا جواب نہ دینا جائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4418
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4673
4673. عبداللہ بن کعب سے روایت ہے کہ حضرت کعب بن مالک ؓ جب وہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تو میں نے ان سے سنا: اللہ کی قسم! ہدایت کے بعد اللہ تعالٰی نے مجھ پر اتنا بڑا اور کوئی انعام نہیں کیا جتنا رسول اللہ ﷺ کے سامنے سچ بولنے کا کیا کہ میں نے آپ سے جھوٹ نہ بولا، بصورت دیگر میں بھی اسی طرح ہلاک ہو جاتا جس طرح دوسرے جھوٹی معذرتیں بیان کرنے والے لوگ ہلاک ہوئے تھے جب ان کے بارے میں یہ وحی نازل کی گئی: ”جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو وہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں اٹھائیں گے۔۔ جو نافرمان ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4673]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے حضر ت کعب بن مالکؓ کے دل میں شیطان نے طرح طرح کے خیالات ڈالے تھے کہ کوئی جھوٹا بہانہ کرکے دنیا کی ذلت سے نجات حاسل کرلی جائے جیسا کہ درج ذیل روایت میں اس کی تفصیل ہے، حضرت کعب بن مالک ؒ کہتے ہیں:
اللہ کی قسم! اگر میں آج آپ کے علاوہ کسی دنیا دار کے سامنے بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذرگھڑ کر اس کی ناراضی سے بچ سکتاتھا۔
مجھے خوبصورتی کے ساتھ بات بنانے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے لیکن اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اگرآج میں آپ کے سامنے کوئی جھوٹا عذر بیان کرکے آپ کو راضی کرلوں توبہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کردے گا۔
اس کی بجائے اگر میں آپ سے سی بات بیان کردوں تو یقیناً آپ مجھ سے ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے اللہ تعالیٰ سے معافی کی پوری اُمیدہے۔
اللہ کی قسم! مجھے کوئی معذوری نہیں تھی۔
اللہ کی قسم! اس وقت سے پہلے میں کبھی اتنا فارغ البال اور خوش حال نہیں تھا، لیکن پھر بھی آپ کے ساتھ شریک سفر نہ ہوسکا۔
(فتح الباري: 427/8)
2۔
الغرض امام بخاری ؒ نے یہ حدیث اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں فضول عذر کرنے والوں کا واضح تذکرہ ہے بلکہ اس آیت کابھی حوالہ ہے جو بطور عنوان پیش کی گئی ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4673
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4676
4676. حضرت عبداللہ بن کعب سے روایت ہے۔۔ جب کعب ؓ نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں سے یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے تھے۔۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت کعب بن مالک ؓ سے ان کے اس واقعے کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: ”اور ان تین آدمیوں پر بھی (مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا۔“ آپ نے آخر میں کہا تھا کہ میں اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں صدقہ کرتا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”نہیں کچھ مال اپنے لیے بھی رکھ لو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4676]
حدیث حاشیہ:
1۔
عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس میں کعب ؓ کی توبہ،اللہ کی طرف سے شرف قبولیت اور پھر اس کی خوشی میں حضرت کعب ؓ کے صدقہ کرنے کا ذکر ہے۔
2۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خیرات بھی وہی بہتر ہے جو طاقت کے مطابق کی جائے۔
اگر کوئی خیرات کرکے خود بھوکا ننگا ہوجاتا ہے تو وہ خیرات اللہ کے ہاں بہترنہیں ہے۔
3۔
امام بخاری ؒ نے بقدر ضرورت حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا ہے، مفصل حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔
دیکھئے:
(حدیث: 4418)
اس کے فوائد وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4676
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4678
4678. حضرت عبداللہ بن کعب سے روایت ہے، جو حضرت کعب ؓ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلایا کرتے تھے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت کعب بن مالک ؓ سے سنا، جب آپ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے تو اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے: ”اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالٰی نے کسی شخص کو سچ کہنے کی توفیق دے کر اس پر اتنا بڑا احسان کیا ہو جتنا کہ مجھ پر کیا۔ میں نے اس وقت سے لے کر آج تک قصدا کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اللہ تعالٰی نے اسی باب میں یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿لَّقَد تَّابَ ٱللَّـهُ عَلَى ٱلنَّبِىِّ وَٱلْمُهَـٰجِرِينَ۔۔۔ وَكُونُوا۟ مَعَ ٱلصَّـٰدِقِينَ﴾ ﴿١١٩﴾ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4678]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت کعب بن مالک ؓ اور ان کے دونوں ساتھیوں کو سچائی کی وجہ سے یہ صلا ملا کہ ان کی توبہ کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے سچائی کے متعلق فرمایا ہے:
”تم سچائی کو اختیار کرو کیونکہ سچائی نیکی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
آدمی سچ بولتارہتا ہے اور سچائی کا متلاشی رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیاجاتا ہے۔
اورتم جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف رہنمائی کرتاہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتے ہیں۔
آدمی جھوٹ بولتارہتا ہے اور جھوٹ کا طلب گاررہتا ہے حتی کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔
“ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6094)
2۔
ایک روایت میں ہے:
”بے شک سچ نیکی ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بے شک جھوٹ گناہ ہے اور گناہ جہنم کی راہ دکھاتا ہے۔
“ (صحیح مسلم، البر والصلة والأدب، حدیث: 6638(2607)
ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ سچائی کے متلاشی رہیں۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4678
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6255
6255. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کر دی تھی، بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتا تھا پھر دل میں کہتا تھا کہ دیکھوں آپ نے ہونٹ مبارک بلائے ہیں یا نہیں؟ آخر پورے پچاس دن گزر گئے تو نبی ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ قبول کیے جانے کا اعلان نماز پڑھنے کے بعد کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6255]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابتلاء وآزمائش کا یہ عظیم واقعہ تھا جس سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دوچار ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت جہاد کی اہمیت کے پیش نظر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جیسے جاں نثار اور اسلام کے فدائی کے لیے قطعاً یہ مناسب نہ تھا کہ وہ اس موقع پر سستی کا مظاہرہ کرتے، جیسے وہ خود عظیم المرتبت تھے، ان کی کوتاہی کو بھی وہی درجہ دیا گیا، ان سے سلام وکلام ختم کر دیا گیا حتی کہ ان کے جگری دوست حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے سلام کا جواب نہ دیا اور ان سے بات کرنا بھی گوارانہ کی۔
(2)
اگرچہ اسلام میں سلام عام کرنے کا حکم ہے لیکن جمہور اہل علم نے سلام کے اس عام حکم سے فاسق و فاجر کے ساتھ سلام وکلام ختم کرنے کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر فاسق وفاجر سے کسی فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو سلام کہنے یا سلام کا جواب دینے میں کوئی حرج نہیں اور سلام کرتے وقت یہ نیت کرے کہ سلام اللہ تعالیٰ کا نام ہے گویا وہ سلام کے وقت یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔
(فتح الباري: 49/11)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6255
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6690
6690. عبد الرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے (وہ اپنے باپ عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں)۔ اور جب حضرت کعب بن مالک ؓ نا بینا ہوگئے تھے تو ان کی اولاد میں سے یہی (عبداللہ بن کعب) ان کو لے کر چلا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک ؓ سے ان کی حدیث سنی جو ان حضرات سے متعلق تھی جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنی سرگزشت کے آخر میں کہا: میں نے یہ پیش کش كى کہ اپنی توبہ کی خوشی میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے لیے صدقہ کر کے اس سے خالی ہونا چاہتا ہوں نبی ﷺ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے پاس ہی رکھو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6690]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے توبہ قبول ہونے کی خوشی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔
آپ نے فرمایا:
”نہیں۔
“ پھر انہوں نے نصف مال دینے کی اجازت مانگی تو بھی آپ نے انکار کر دیا۔
آخر میں ایک تہائی مال دینے کے متعلق کہا تو آپ نے فرمایا:
”ہاں۔
“ اس کے بعد حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
میں اپنا خیبر سے ملنے والا حصہ روک لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ کر باقی تمام مال صدقہ کر دیا۔
(سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3321)
اس تفصیل کی بنا پر ہمارا موقف ہے کہ اگر کسی نے نذر مانی کہ میرے مریض کو شفا ملنے پر میرا تمام مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال دینے کی اجازت ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک دوسرا موقف بیان کیا ہے کہ تمام مال صدقہ کرنا انسان کے اپنے حالات پر موقوف ہے، اگر مال دار صابر و شاکر ہے تو اسے تمام مال صدقہ کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے اور جیسا کہ انصار کے ایثار کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔
اگر وہ غریب ہے تو سارا مال صدقہ کرنے کی اجازت نہیں جیسا کہ حدیث میں بہترین صدقہ اسے قرار دیا گیا ہے کہ اس کے بعد انسان کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو جائے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 699/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6690
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7225
7225. سیدنا عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے، جس وقت سیدنا کعب ؓ نابینا ہوگئے تو ان کے بیٹوں میں سے یہی ان کے قائد تھے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سیدنا کعب ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جانے سے پیچھے رہ گئے۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا پورا واقعہ بیان کیا۔۔۔۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہمارے ساتھ گفتگو کرنے سے روک دیا تو ہم پچاس راتیں اسی حالت میں رہے پھر رسول اللہ ﷺ نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7225]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کئی جنگوں میں شریک رہے ہیں لیکن غزوہ تبوک میں محض سستی کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے اور یہ بہت بڑا قومی جرم تھا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے باز پرس کی تو انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میرے پاس پیچھے رہنے کے متعلق کوئی معقول عذر نہیں ہے۔
ان کےساتھ دو صحابی اور بھی تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں سے سوشل بائیکاٹ کیا اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ان کے ساتھ میل ملاپ اور بات چیت کرنے سے منع فرما دیا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔
2۔
اب بھی ایسے معاملات امامِ وقت کی صوابدید پر موقوف کیے جا سکتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7225