ابوزبیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے ہدی پر سوار ہونے کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، جب تم اس کے لیے مجبور کر دئیے جاؤ تو اس پر سوار ہو جاؤ بھلائی کے ساتھ یہاں تک کہ تمہیں کوئی دوسری سواری مل جائے ۱؎۔
Abu al-Zubair said: I asked Jabir bin Abdallah about riding on the sacrificial camels. He said I heard The Messenger of Allah ﷺ saying ride on them gently when you have nothing else till you find a mount.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1757
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن هشام، عن ابيه، عن ناجية الاسلمي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث معه بهدي، فقال:" إن عطب منها شيء فانحره، ثم اصبغ نعله في دمه، ثم خل بينه وبين الناس". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَاجِيَةَ الْأَسْلَمِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مَعَهُ بِهَدْيٍ، فَقَالَ:" إِنْ عَطِبَ مِنْهَا شَيْءٌ فَانْحَرْهُ، ثُمَّ اصْبُغْ نَعْلَهُ فِي دَمِهِ، ثُمَّ خَلِّ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ".
ناجیہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہدی بھیجا اور فرمایا: ”اگر ان میں سے کوئی مرنے لگے تو اس کو نحر کر لینا پھر اس کی جوتی اسی کے خون میں رنگ کر اسے لوگوں کے واسطے چھوڑ دینا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 71 (910)، سنن النسائی/الکبری /الأطعمة (6639)، سنن ابن ماجہ/المناسک 101 (3106)، (تحفة الأشراف: 11581)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 47(148)، مسند احمد (4/334)، سنن الدارمی/المناسک 66 (1950) (صحیح)»
Narrated Najiyah al-Aslami: The Messenger of Allah ﷺ sent sacrificial camels with him (as offering to the Kabah). He then said: If any one of them becomes fatigued, slaughter it, dip its shoes in its blood, and leave it for the people (to eat).
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1758
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (2642) أخرجه الترمذي (910 وسنده صحيح) وابن ماجه (3106 وسنده صحيح) وصححه ابن خزيمة (2577 وسنده صحيح)
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، ومسدد، قالا: حدثنا حماد. ح وحدثنا مسدد، حدثنا عبد الوارث، وهذا حديث مسدد، عن ابي التياح، عن موسى بن سلمة، عن ابن عباس، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم فلانا الاسلمي وبعث معه بثمان عشرة بدنة، فقال: ارايت إن ازحف علي منها شيء؟ قال:" تنحرها، ثم تصبغ نعلها في دمها، ثم اضربها على صفحتها ولا تاكل منها انت ولا احد من اصحابك، او قال: من اهل رفقتك". قال ابو داود: الذي تفرد به من هذا الحديث قوله:" ولا تاكل منها انت ولا احد من رفقتك"، وقال في حديث عبد الوارث:" ثم اجعله على صفحتها مكان اضربها". قال ابو داود: سمعت ابا سلمة، يقول: إذا اقمت الإسناد والمعنى كفاك. (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، وَهَذَا حَدِيثُ مُسَدَّدٍ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فُلَانًا الْأَسْلَمِيَّ وَبَعَثَ مَعَهُ بِثَمَانِ عَشْرَةَ بَدَنَةً، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ أُزْحِفَ عَلَيَّ مِنْهَا شَيْءٌ؟ قَالَ:" تَنْحَرُهَا، ثُمَّ تَصْبُغُ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ اضْرِبْهَا عَلَى صَفْحَتِهَا وَلَا تَأْكُلْ مِنْهَا أَنْتَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ، أَوْ قَالَ: مِنْ أَهْلِ رُفْقَتِكَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: الَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ قَوْلُهُ:" وَلَا تَأْكُلْ مِنْهَا أَنْتَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ رُفْقَتِكَ"، وَقَالَ فِي حَدِيثِ عَبْدِ الْوَارِثِ:" ثُمَّ اجْعَلْهُ عَلَى صَفْحَتِهَا مَكَانَ اضْرِبْهَا". قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: إِذَا أَقَمْتَ الْإِسْنَادَ وَالْمَعْنَى كَفَاكَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں اسلمی کو ہدی کے اٹھارہ اونٹ دے کر بھیجا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کوئی (چلنے سے) عاجز ہو جائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے نحر کر دینا پھر اس کے جوتے کو اسی کے خون میں رنگ کر اس کی گردن کے ایک جانب چھاپ لگا دینا اور اس میں سے کچھ مت کھانا ۱؎ اور نہ ہی تمہارے ساتھ والوں میں سے کوئی کھائے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا: «من أهل رفقتك»”یعنی تمہارے رفقاء میں سے کوئی نہ کھائے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبدالوارث کی حدیث میں «اضربها» کے بجائے «ثم اجعله على صفحتها» ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے ابوسلمہ کو کہتے سنا: جب تم نے سند اور معنی درست کر لیا تو تمہیں کافی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 66 (1325)، سنن النسائی/الکبری /الحج (4136)، وانظر أیضا ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 6503)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/217، 244، 279) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تاکہ یہ الزام نہ آئے کہ ہدی کے جانور کو کھانا چاہتا تھا، اس لئے نحر (ذبح) کر ڈالا۔
Ibn Abbas said: The Messenger of Allah ﷺ sent a man of al-Aslam tribe and sent with him eighteen sacrificial camels (as offering to Makkah). What do you think if any one of them becomes fatigued. He replied: You should sacrifice it then dye its shoe with its blood, then mark with it on its neck. But you or any of your companions should not eat out of it. Abu Dawud said: The following words of this tradition are not supported by any other tradition “You should not eat of it yourself nor any of your companions”. The version of Abdal Warith has the words “then hang it in its neck” instead of the words “mark or strike with it”. Abu Dawud said I heard Abu Salamah say if the chain of narrators and the meaning are correct, it is sufficient for you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1759
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہدی کے اونٹوں کا نحر کیا تو اپنے ہاتھ سے تیس (۳۰) اونٹ نحر کئے پھر مجھے حکم دیا تو باقی سارے میں نے نحر کئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10221) (منکر)» (یہ روایت صحیح مسلم کی روایت کے خلاف ہے جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (63) اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح کئے، باقی علی رضی اللہ عنہ نے کئے)
Narrated Ali ibn Abu Talib: When the Messenger of Allah ﷺ sacrificed the camels, he sacrificed thirty of them with his own hand, and then commanded me (to sacrifice them), so I sacrificed the rest of them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1760
قال الشيخ الألباني: منكر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن إسحاق سمعه من رجل،مجهول،عن ابن أبي نجيح به(أحمد 1/ 260) وابن أبي نجيح مدلس انوار الصحيفه، صفحه نمبر 70
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى الرازي، اخبرنا عيسى. ح وحدثنا مسدد، اخبرنا عيسى، وهذا لفظ إبراهيم، عن ثور، عن راشد بن سعد،عن عبد الله بن عامر بن لحي، عن عبد الله بن قرط، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن اعظم الايام عند الله تبارك وتعالى يوم النحر ثم يوم القر"، قال عيسى: قال ثور: وهو اليوم الثاني، وقال: وقرب لرسول الله صلى الله عليه وسلم بدنات خمس او ست فطفقن يزدلفن إليه بايتهن يبدا، فلما وجبت جنوبها، قال: فتكلم بكلمة خفية لم افهمها، فقلت: ما قال؟، قال:" من شاء اقتطع". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، وَهَذَا لَفْظُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ لُحَيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُرْطٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ"، قَالَ عِيسَى: قَالَ ثَوْرٌ: وَهُوَ الْيَوْمُ الثَّانِي، وَقَالَ: وَقُرِّبَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَنَاتٌ خَمْسٌ أَوْ سِتٌّ فَطَفِقْنَ يَزْدَلِفْنَ إِلَيْهِ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ، فَلَمَّا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا، قَالَ: فَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ خَفِيَّةٍ لَمْ أَفْهَمْهَا، فَقُلْتُ: مَا قَالَ؟، قَالَ:" مَنْ شَاءَ اقْتَطَعَ".
عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر ہے پھر یوم القر ہے ۱؎“، اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پانچ یا چھ اونٹنیاں لائی گئیں، تو ان میں سے ہر ایک آگے بڑھنے لگی کہ آپ نحر کی ابتداء اس سے کریں جب وہ گر گئیں تو آپ نے آہستہ سے کچھ کہا جو میں نہ سمجھ سکا تو میں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چاہے اس میں سے گوشت کاٹ لے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8977)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری/الحج (4098)، مسند احمد (4/350) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عیسیٰ کہتے ہیں: ثور نے کہا: وہ دوسرا دن ہے، یعنی گیارہویں ذی الحجہ کا دن۔
Narrated Abdullah ibn Qurt: The Prophet ﷺ said: The greatest day in Allah's sight is the day of sacrifice and next the day of resting which Isa said on the authority of Thawr is the second day. Five or six sacrificial camels were brought to the Messenger of Allah ﷺ and they began to draw near to see which he would sacrifice first. When they fell down dead, he said something in a low voice, which I could not catch. So I asked: What did he say? He was told that he had said: Anyone who wants can cut off a piece.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1761
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (2643) صححه ابن خزيمة (2866، 2917، 2966 وسندھم صحيح)
عرفہ بن حارث کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، ہدی کے اونٹ لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوالحسن (علی رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) کو بلاؤ“، چنانچہ آپ کے پاس علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم برچھی کا نچلا سرا پکڑو“، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر کا سرا پکڑا پھر اونٹوں کو نحر کیا جب فارغ ہو گئے تو اپنے خچر پر سوار ہوئے اور علی کو اپنے پیچھے سوار کر لیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11019) (ضعیف)» (اس کے راوی عبداللہ بن حارث کندی ازدی لین الحدیث ہیں)
Narrated Arfah ibn al-Harith al-Kandi: I was present with the Messenger of Allah ﷺ at the Farewell Pilgrimage. When the sacrificial camels were brought to him, he said: Call AbulHasan (Ali) to me. Ali was then called for and he (the Prophet) said to him: Catch hold of the lower end of the lance, and the Messenger of Allah ﷺ himself caught hold of the upper end. He then pierced the camels with it. When he finished slaughtering, he rode on his mule and mounted Ali behind him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1762
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اللّٰه بن الحارث الأزدي(الكندي) لم يوثقه غير ابن حبان وجھله ابن القطان الفاسي فھو مجهول،انظر التحرير (3267) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 70
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (ابن جریج کہتے ہیں: نیز مجھے عبدالرحمٰن بن سابط نے (مرسلاً) خبر دی ہے) کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر اور باقی پیروں پر کھڑا کر کے اسے نحر کرتے ۱؎۔
Abd al Rahman bin Thabit said: The Prophet ﷺ and his companions used to sacrifice the camel with its left leg tied and it remained standing on the rest of his legs.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1763
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو الزبيرمدلس وابن جريج مدلس عنعنا وحديث ابن سابط مرسل انوار الصحيفه، صفحه نمبر 70
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا هشيم، اخبرنا يونس، اخبرني زياد بن جبير، قال:" كنت مع ابن عمر بمنى فمر برجل وهو ينحر بدنته وهي باركة، فقال: ابعثها قياما مقيدة سنة محمد صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِمِنًى فَمَرَّ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَنْحَرُ بَدَنَتَهُ وَهِيَ بَارِكَةٌ، فَقَالَ: ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
یونس کہتے ہیں مجھے زیاد بن جبیر نے خبر دی ہے، وہ کہتے ہیں میں منیٰ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا کہ ان کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا جو اپنا اونٹ بٹھا کر نحر کر رہا تھا انہوں نے کہا: کھڑا کر کے (بایاں پیر) باندھ کر نحر کرو، یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔
Ziyad bin Jubair said: I was present with Ibn Umar at Minah. He passed a man who was sacrificing his camel while it was sitting. He said make it stand and tie its leg ; thus follow the practice (sunnah) of Muhammad ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1764
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1713) صحيح مسلم (1320)
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے ہدی کے اونٹوں کے پاس کھڑا ہو کر ان کی کھالیں اور جھولیں تقسیم کروں اور مجھے حکم دیا کہ اس میں سے قصاب کو کچھ بھی نہ دوں اور فرمایا: اسے ہم اپنے پاس سے (اجرت) دیں گے۔
Ali said: The Messenger of Allah ﷺ commanded me to take charge of (his) sacrificial camels and to distribute the skins and saddle clothes (after sacrifice) as sadaqah. He commanded me not to give anything from it to the butcher. He said we used to give it (the wages) to the butcher ourselves.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1765
قال الشيخ الألباني: صحيح ق وليس عند خ
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1716) صحيح مسلم (1317)
(مرفوع) حدثنا محمد بن منصور، حدثنا يعقوب يعني ابن إبراهيم، حدثنا ابي، عن ابن إسحاق، قال: حدثني خصيف بن عبد الرحمن الجزري،عن سعيد بن جبير، قال: قلت لعبد الله بن عباس: يا ابا العباس، عجبت لاختلاف اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في إهلال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اوجب، فقال:" إني لاعلم الناس بذلك، إنها إنما كانت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة واحدة فمن هناك اختلفو اخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجا، فلما صلى في مسجده بذي الحليفة ركعتيه اوجب في مجلسه، فاهل بالحج حين فرغ من ركعتيه، فسمع ذلك منه اقوام فحفظته عنه، ثم ركب فلما استقلت به ناقته اهل، وادرك ذلك منه اقوام، وذلك ان الناس إنما كانوا ياتون ارسالا فسمعوه حين استقلت به ناقته يهل، فقالوا: إنما اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم حين استقلت به ناقته، ثم مضى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما علا على شرف البيداء اهل، وادرك ذلك منه اقوام، فقالوا: إنما اهل حين علا على شرف البيداء، وايم الله، لقد اوجب في مصلاه واهل حين استقلت به ناقته واهل حين علا على شرف البيداء". قال سعيد: فمن اخذ بقول عبد الله بن عباس اهل في مصلاه إذا فرغ من ركعتيه. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُصَيْفُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجَزَرِيُّ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: يَا أَبَا الْعَبَّاسِ، عَجِبْتُ لِاخْتِلَافِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِهْلَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَوْجَبَ، فَقَالَ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّاسِ بِذَلِكَ، إِنَّهَا إِنَّمَا كَانَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةً وَاحِدَةً فَمِنْ هُنَاكَ اخْتَلَفُو اخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجًّا، فَلَمَّا صَلَّى فِي مَسْجِدِهِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْهِ أَوْجَبَ فِي مَجْلِسِهِ، فَأَهَلَّ بِالْحَجِّ حِينَ فَرَغَ مِنْ رَكْعَتَيْهِ، فَسَمِعَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ فَحَفِظْتُهُ عَنْهُ، ثُمَّ رَكِبَ فَلَمَّا اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ أَهَلَّ، وَأَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ، وَذَلِكَ أَنَّ النَّاسَ إِنَّمَا كَانُوا يَأْتُونَ أَرْسَالًا فَسَمِعُوهُ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ يُهِلُّ، فَقَالُوا: إِنَّمَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ، ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا عَلَا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ، وَأَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ، فَقَالُوا: إِنَّمَا أَهَلَّ حِينَ عَلَا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ، وَايْمُ اللَّهِ، لَقَدْ أَوْجَبَ فِي مُصَلَّاهُ وَأَهَلَّ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ وَأَهَلَّ حِينَ عَلَا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ". قَالَ سَعِيدٌ: فَمَنْ أَخَذَ بِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَهَلَّ فِي مُصَلَّاهُ إِذَا فَرَغَ مِنْ رَكْعَتَيْهِ.
سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: ابوالعباس! مجھے تعجب ہے کہ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ آپ نے احرام کب باندھا؟ تو انہوں نے کہا: اس بات کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی حج کیا تھا اسی وجہ سے لوگوں نے اختلاف کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کی نیت کر کے مدینہ سے نکلے، جب ذی الحلیفہ کی اپنی مسجد میں آپ نے اپنی دو رکعتیں ادا کیں تو اسی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا اور دو رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد حج کا تلبیہ پڑھا، لوگوں نے اس کو سنا اور میں نے اس کو یاد رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پڑھا، بعض لوگوں نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پڑھتے ہوئے پایا، اور یہ اس وجہ سے کہ لوگ الگ الگ ٹکڑیوں میں آپ کے پاس آتے تھے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر اٹھی تو انہوں نے آپ کو تلبیہ پکارتے ہوئے سنا تو کہا: آپ نے تلبیہ اس وقت کہا ہے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے، جب مقام بیداء کی اونچائی پر چڑھے تو تلبیہ کہا تو بعض لوگوں نے اس وقت اسے سنا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت تلبیہ کہا ہے جب آپ بیداء کی اونچائی پر چڑھے حالانکہ اللہ کی قسم آپ نے وہیں تلبیہ کہا تھا جہاں آپ نے نماز پڑھی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تلبیہ کہا جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی ہوئی اور پھر آپ نے بیداء کی اونچائی چڑھتے وقت تلبیہ کہا۔ سعید کہتے ہیں: جس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کو لیا تو اس نے اس جگہ پر جہاں اس نے نماز پڑھی اپنی دونوں رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد تلبیہ کہا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5503)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/260) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوی خصیف کا حافظہ کمزور تھا، مگر حدیث میں مذکور تفصیل صحیح ہے)
Narrated Abdullah ibn Abbas: Saeed ibn Jubayr said: I said to Abdullah ibn Abbas: AbulAbbas, I am surprised to see the difference of opinion amongst the companions of the Messenger ﷺ about the wearing of ihram by the Messenger of Allah ﷺ when he made it obligatory. He replied: I am aware of it more than the people. The Messenger of Allah ﷺ performed only one hajj. Hence the people differed among themselves. The Messenger of Allah ﷺ came out (from Madina) with the intention of performing hajj. When he offered two rak'ahs of prayer in the mosque at Dhul-Hulayfah, he made it obligatory by wearing it. At the same meeting, he raised his voice in the talbiyah for hajj, when he finished his two rak'ahs. Some people heard it and I retained it from him. He then rode (on the she-camel), and when it (the she-camel) stood up, with him on its back, he raised his voice in the talbiyah and some people heard it at that moment. This is because the people were coming in groups, so they heard him raising his voice calling the talbiyah when his she-camel stood up with him on its back, and they thought that the Messenger of Allah ﷺ had raised his voice in the talbiyah when his she-camel stood up with him on its back. The Messenger of Allah ﷺ proceeded further; when he ascended the height of al-Bayda' he raised his voice in the talbiyah. Some people heard it at that moment. They thought that he had raised his voice in the talbiyah when he ascended the height of al-Bayda'. I swear by Allah, he raised his voice in the talbiyah at the place where he prayed, and he raised his voice in the talbiyah when his she-camel stood up with him on its back, and he raised his voice in the talbiyah when he ascended the height of al-Bayda'. Saeed (ibn Jubayr) said; He who follows the view of Ibn Abbas raises his voice in talbiyah (and ihram) at the place of is prayer after he finishes two rak'ahs of his prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1766
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف خصيف: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 70