عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کہتے سنا: «لبيك عن شبرمة»”حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”شبرمہ کون ہے؟“، اس نے کہا: میرا بھائی یا میرا رشتے دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم نے اپنا حج کر لیا ہے؟“، اس نے جواب دیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے اپنا حج کرو پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا“۔
وضاحت: ۱؎: بعض علماء کے نزدیک حج بدل (دوسرے کی طرف سے حج کرنا) درست ہے، خواہ اپنی طرف سے حج نہ کر سکا ہو، بعض ائمہ کے نزدیک اگر وہ اپنی طرف سے حج نہیں کر سکا ہے تو دوسرے کی طرف سے حج بدل درست نہ ہو گا، اور یہی صحیح مذہب ہے، اس لئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جو «لبيك عن شبرمة» کہہ رہا تھا حکم دیا: «حج عن نفسك ثم حج عن شبرمة»: ”پہلے اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرو“۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Prophet ﷺ heard a man say: Labbayk (always ready to obey) on behalf of Shubrumah. He asked: Who is Shubrumah? He replied: A brother or relative of mine. He asked: Have you performed hajj on your own behalf? He said: No. He said: perform hajj on your own behalf, then perform it on behalf of Shubrumah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1807
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (2529) وللحديث شاھد حسن لذاته عند الطبراني في الصغير (226/1) وشاھد آخر عند البيهقي (179/5، 180) والطحاوي في مشكل الآثار (381/6 تحت ح2548) وسنده صحيح موقوف وله حكم الرفع
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر،" ان تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم: لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك"، قال: وكان عبد الله بن عمر يزيد في تلبيته: لبيك لبيك لبيك وسعديك والخير بيديك والرغباء إليك والعمل. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،" أَنَّ تَلْبِيَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ"، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَزِيدُ فِي تَلْبِيَتِهِ: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا: «لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك»”حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد و ستائش، نعمتیں اور فرماروائی تیری ہی ہے تیرا ان میں کوئی شریک نہیں“۔ راوی کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر تلبیہ میں اتنا مزید کہتے «لبيك لبيك لبيك وسعديك والخير بيديك والرغباء إليك والعمل»”حاضر ہوں تیری خدمت میں، حاضر ہوں، حاضر ہوں، نیک بختی حاصل کرتا ہوں، خیر تیرے ہاتھ میں ہے، تیری ہی طرف رغبت اور عمل ہے“۔
Ibn Umar said Talbiyah uttered by the Messenger of Allah ﷺ was Labbaik (always ready to obey), O Allaah labbaik, labbaik; Thou hast no partner, praise and grace are Thine, and the Dominion, Thou hast no partner. The narrator said Abd Allaah bin Umar used to add to his talbiyah Labbaik, labbaik, labbaik wa Saadaik (give me blessing after blessing) and good is Thy hands, desire and actions are directed towards Thee.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1808
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1549) صحيح مسلم (1184)
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا جعفر، حدثنا ابي، عن جابر بن عبد الله، قال: اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر التلبية مثل حديث ابن عمر، قال: والناس يزيدون ذا المعارج ونحوه من الكلام، والنبي صلى الله عليه وسلم يسمع فلا يقول لهم شيئا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ التَّلْبِيَةَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: وَالنَّاسُ يَزِيدُونَ ذَا الْمَعَارِجِ وَنَحْوَهُ مِنَ الْكَلَامِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمَعُ فَلَا يَقُولُ لَهُمْ شَيْئًا.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا، پھر انہوں نے تلبیہ کا اسی طرح ذکر کیا جیسے ابن عمر کی حدیث میں ہے اور کہا: لوگ (اپنی طرف سے اللہ کی تعریف میں) «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھے لیکن آپ ان سے کچھ نہیں فرماتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 15 (2919) (کلاھما بدون قولہ: ’’والناس یزیدون الخ)، (تحفة الأشراف: 2604)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 19(1540) (في سیاق حجة النبي صلی اللہ علیہ وسلم الطویل) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خاموشی اور سکوت تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافہ کے جواز کی دلیل ہے، اگرچہ افضل وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ثابت ہے اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت کی ہے۔
Narrated Jabir ibn Abdullah: The Messenger of Allah ﷺ raised his voice in talbiyah; he then mentioned the wordings of talbiyah like the tradition narrated by Ibn Umar. The people used to add the words dhal-ma'arij (the Possessor of ladders) and similar other words (to talbiyah) while the Prophet ﷺ heard them utter these words, but he did not say anything to them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1809
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح صححه ابن خزيمة (2626 وسنده صحيح)
سائب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ ۱؎ اور ساتھ والوں کو «الإهلال» یا فرمایا «التلبية» میں آواز بلند کرنے کا حکم دوں“۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 15 (829)، سنن النسائی/الحج 55 (2754)، سنن ابن ماجہ/المناسک 16 (2922)، (تحفة الأشراف: 3788)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 10 (34)، مسند احمد (4/55، 56)، سنن الدارمی/المناسک 14 (1850) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے پتہ چلا کہ مردوں کے لئے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مستحب ہے، «أصحابي» کی قید سے اس حکم سے عورتیں خارج ہو گئی ہیں ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ بلند آواز سے تلبیہ نہ پکاریں۔ ۲؎: اہلال اور تلبیہ دونوں ایک ہی معنی میں ہے، راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلال کہا یا تلبیہ، مراد یہ ہے کہ دونوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایک ہی لفظ کہا۔
Narrated as-Saib al-Ansari: Khalid ibn as-Saib al-Ansari on his father's authority reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Gabriel came to me and commanded me to order my Companions to raise their voices in talbiyah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1810
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (2549) أخرجه الترمذي (829 وسنده صحيح) والنسائي (2754 وسنده صحيح)
وضاحت: ۱؎: «حتى رمى جمرة العقبة» سے احمد اور اسحاق نے استدلال کیا ہے کہ تلبیہ کہنا جمرہ عقبہ کی رمی پوری کر لینے کے بعد موقوف کیا جائے گا، لیکن صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں «لم يزل يلبي حتى بلغ الجمرة» کے الفاظ آئے ہیں جس سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کی پہلی کنکری کے ساتھ ہی تلبیہ بند کر دیا جائے گا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے عرفات کی طرف نکلے ہم میں سے کچھ لوگ تلبیہ پکار رہے تھے اور کچھ «الله أكبر» کہہ رہے تھے۔
Abdullah bin Umar said We proceeded along with the Messenger of Allah ﷺ from Mina to ‘Arafat, some of us were uttering talbiyah and the others were shouting “Allaah is most great. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1812
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا هشيم، عن ابن ابي ليلى، عن عطاء، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يلبي المعتمر حتى يستلم الحجر". قال ابو داود: رواه عبد الملك بن ابي سليمان، و همام، عن عطاء، عن ابن عباس، موقوفا. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يُلَبِّي الْمُعْتَمِرُ حَتَّى يَسْتَلِمَ الْحَجَرَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، وَ هَمَّامٌ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، مَوْقُوفًا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمرہ کرنے والا حجر اسود کا استلام کرنے تک لبیک پکارے“۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالملک بن ابی سلیمان اور ہمام نے عطاء سے، عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 79 (919)، (تحفة الأشراف: 5912) موقوفًا، و (5958) (ضعیف) (اس کے راوی’’محمد بن أبی لیلی‘‘ ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث سندا ضعیف ہے، مگر بہت سارے علماء کا یہی قول ہے، بعض لوگ کہتے ہیں: مکہ کے مکانات پر نظر پڑتے ہی تلبیہ بند کر دے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی تلبیہ بند کر دے، اور یہ دعا پڑھے: «اللهم أنت السلام ومنك السلام الخ» ۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Prophet ﷺ said: A person who performs Umrah should shout talbiyah till he touches the Black Stone. Abu Dawud said: This tradition has been transmitted by Abd al-Malik bin Abi Sulaiman and Hammam from Ata on the authority of Ibn Abbas as his own statement (i. e. the tradition was not attributed to the Prophet)
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1813
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (919) محمد بن أبي ليلي ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 71
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، ومحمد بن عبد العزيز بن ابي رزمة، اخبرنا عبد الله بن إدريس، اخبرنا ابن إسحاق، عن يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير، عن ابيه، عن اسماء بنت ابي بكر، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجاجا حتى إذا كنا بالعرج نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم ونزلنا، فجلست عائشة رضي الله عنها إلى جنب رسول الله صلى الله عليه وسلم وجلست إلى جنب ابي وكانت زمالة ابي بكر وزمالة رسول الله صلى الله عليه وسلم واحدة مع غلام لابي بكر، فجلس ابو بكر ينتظر ان يطلع عليه فطلع وليس معه بعيره، قال: اين بعيرك؟ قال: اضللته البارحة، قال: فقال ابو بكر: بعير واحد تضله؟ قال: فطفق يضربه ورسول الله صلى الله عليه وسلم يتبسم، ويقول:" انظروا إلى هذا المحرم ما يصنع"، قال ابن ابي رزمة: فما يزيد رسول الله صلى الله عليه وسلم على ان، يقول:" انظروا إلى هذا المحرم ما يصنع" ويتبسم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَّاجًا حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَزَلْنَا، فَجَلَسَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي وَكَانَتْ زِمَالَةُ أَبِي بَكْرٍ وَزِمَالَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحِدَةً مَعَ غُلَامٍ لِأَبِي بَكْرٍ، فَجَلَسَ أَبُو بَكْرٍ يَنْتَظِرُ أَنْ يَطْلُعَ عَلَيْهِ فَطَلَعَ وَلَيْسَ مَعَهُ بَعِيرُهُ، قَالَ: أَيْنَ بَعِيرُكَ؟ قَالَ: أَضْلَلْتُهُ الْبَارِحَةَ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَعِيرٌ وَاحِدٌ تُضِلُّهُ؟ قَالَ: فَطَفِقَ يَضْرِبُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ، وَيَقُولُ:" انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْمُحْرِمِ مَا يَصْنَعُ"، قَالَ ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ: فَمَا يَزِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنْ، يَقُولَ:" انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْمُحْرِمِ مَا يَصْنَعُ" وَيَتَبَسَّمُ.
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کو نکلے، جب ہم مقام عرج میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترے، ہم بھی اترے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں، اور میں اپنے والد کے پہلو میں بیٹھی۔ اس سفر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے سامان اٹھانے کا اونٹ ایک ہی تھا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام کے پاس تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ اس انتظار میں بیٹھے کہ وہ غلام آئے جب وہ آیا تو اس کے ساتھ اونٹ نہ تھا، انہوں نے پوچھا: تیرا اونٹ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کل رات وہ گم ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے: ایک ہی اونٹ تھا اور وہ بھی تو نے گم کر دیا، پھر وہ اسے مارنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”دیکھو اس محرم کو کیا کر رہا ہے؟“(ابن ابی رزمہ نے کہا)”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ کچھ نہیں فرما رہے تھے کہ دیکھو اس محرم کو کیا کر رہا ہے اور آپ مسکرا رہے تھے۔
Narrated Asma bint Abu Bakr: We came out for performing hajj along with the Messenger of Allah ﷺ. When we reached al-Araj, the Messenger of Allah ﷺ alighted and we also alighted. Aishah sat beside the Messenger of Allah ﷺ and I sat beside my father (Abu Bakr). The equipment and personal effects of Abu Bakr and of the Messenger of Allah ﷺ were placed with Abu Bakr's slave on a camel. Abu Bakr was sitting and waiting for his arrival. He arrived but he had no camel with him. He asked: Where is your camel? He replied: I lost it last night. Abu Bakr said: There was only one camel, even that you have lost. He then began to beat him while the Messenger of Allah ﷺ was smiling and saying: Look at this man who is in the sacred state (putting on ihram), what is he doing? Ibn Abu Rizmah said: The Messenger of Allah ﷺ spoke nothing except the words: Look at this man who is in the sacred state (wearing ihram), what is he doing? He was smiling (when he uttered these words).
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1814
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (3392) ابن إسحاق عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 71
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا همام، قال: سمعت عطاء، اخبرنا صفوان بن يعلى بن امية، عن ابيه، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم وهو بالجعرانة وعليه اثر خلوق، او قال: صفرة وعليه جبة، فقال: يا رسول الله، كيف تامرني ان اصنع في عمرتي؟ فانزل الله تبارك وتعالى على النبي صلى الله عليه وسلم الوحي، فلما سري عنه، قال:" اين السائل عن العمرة؟" قال:" اغسل عنك اثر الخلوق، او قال: اثر الصفرة، واخلع الجبة عنك واصنع في عمرتك ما صنعت في حجتك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً، أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْجِعْرَانَةِ وَعَلَيْهِ أَثَرُ خَلُوقٍ، أَوْ قَالَ: صُفْرَةٍ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصْنَعَ فِي عُمْرَتِي؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيَ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ الْعُمْرَةِ؟" قَالَ:" اغْسِلْ عَنْكَ أَثَرَ الْخَلُوقِ، أَوْ قَالَ: أَثَرَ الصُّفْرَةِ، وَاخْلَعِ الْجُبَّةَ عَنْكَ وَاصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ مَا صَنَعْتَ فِي حَجَّتِكَ".
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ جعرانہ میں تھے، اس کے بدن پر خوشبو یا زردی کا نشان تھا اور وہ جبہ پہنے ہوئے تھا، پوچھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کس طرح عمرہ کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی، جب وحی اتر چکی تو آپ نے فرمایا: ”عمرے کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے؟“ فرمایا: ”خلوق کا نشان، یا زردی کا نشان دھو ڈالو، جبہ اتار دو، اور عمرے میں وہ سب کرو جو حج میں کرتے ہو“۔
Narrated Yala ibn Umayyah: A man came to the Prophet ﷺ when he was at al-Ji'ranah. He was wearing perfume or the mark of saffron was on him and he was wearing a tunic. He said: Messenger of Allah, what do you command me to do while performing my Umrah. In the meantime, Allah, the Exalted, sent a revelation to the Prophet ﷺ. When he (the Prophet) came to himself gradually, he asked: Where is the man who asking about Umrah? (When the man came) he (the Prophet) said: Wash the perfume which is on you, or he said: (Wash) the mark of saffron (the narrator is doubtful), take off the tunic, then do in your Umrah as you do in your hajj.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1815
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1789) صحيح مسلم (1180) مشكوة المصابيح (2528)
اس سند سے بھی یعلیٰ سے یہی قصہ مروی ہے البتہ اس میں یہ ہے کہ اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا جبہ اتار دو“، چنانچہ اس نے اپنے سر کی طرف سے اسے اتار دیا، اور پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، سنن الترمذی/الحج 20 (835) سنن النسائی/الکبری/ فضائل القرآن (7981)، (من 1820 حتی 1822)، (تحفة الأشراف: 11836، 11844)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/224) (صحیح)» (حدیث میں واقع یہ لفظ «من رأسه» منکر ہے) (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود 6؍ 84)
This tradition has also been narrated by Yala bin Umayyah through a different chain of narrators. This version adds The Prophet ﷺ said to him “Take off your tunic”. He then took it off from his head. The narrator then narrated the rest of the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1816
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ومن رأسه فإنه منكر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عطاء عن يعلي منقطع والحجاج بن أرطاة ضعيف مدلس (الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين ص 70 وتحفة الأقوياء:75) و قال النووي: ضعيف عند الجمھور (المجموع شرح المھذب 1/ 274) و قال ابن حجر: فإن الأكثر علي تضعيفه (التلخيص الحبير 2/ 226 ح 962) و الحديث السابق (الأصل: 1819) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 72