(موقوف) حدثنا مسدد، وسليمان بن داود العتكي، قالا: حدثنا حماد، عن ايوب، عن نافع، قال: قال عبد الله:" فعدل الناس بعد نصف صاع من بر"، قال: وكان عبد الله يعطي التمر فاعوز اهل المدينة التمر عاما، فاعطى الشعير. (موقوف) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" فَعَدَلَ النَّاسُ بَعْدُ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ"، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُعْطِي التَّمْرَ فَأُعْوِزَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ التَّمْرَ عَامًا، فَأَعْطَى الشَّعِيرَ.
نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اس کے بعد لوگوں نے آدھے صاع گیہوں کو ایک صاع کے برابر کر لیا، عبداللہ (ایک صاع) کھجور ہی دیا کرتے تھے، ایک سال مدینے میں کھجور کا ملنا دشوار ہو گیا تو انہوں نے جو دیا۔
Abdullah (bin Umar) said “The people then began to pay half a sa’ of wheat later on. The narrator said: Abdullah (bin Umar) use to pay dried dates as sadaqah one year the people of Madina lacked dried dates, hence he paid barley.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1611
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1511) صحيح مسلم (984)
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا داود يعني ابن قيس، عن عياض بن عبد الله، عن ابي سعيد الخدري، قال:" كنا نخرج إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر عن كل صغير وكبير حر او مملوك، صاعا من طعام، او صاعا من اقط، او صاعا من شعير، او صاعا من تمر، او صاعا من زبيب، فلم نزل نخرجه حتى قدم معاوية حاجا او معتمرا، فكلم الناس على المنبر، فكان فيما كلم به الناس، ان قال: إني ارى ان مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر، فاخذ الناس بذلك، فقال ابو سعيد: فاما انا فلا ازال اخرجه ابدا ما عشت. قال ابو داود: رواه ابن علية، و عبدة وغيرهما، عن ابن إسحاق، عن عبد الله بن عبد الله بن عثمان بن حكيم بن حزام، عن عياض، عن ابي سعيد بمعناه، وذكر رجل واحد فيه عن ابن علية: او صاعا من حنطة، وليس بمحفوظ. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ قَيْسٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" كُنَّا نُخْرِجُ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوكٍ، صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ، فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا، فَكَلَّمَ النَّاسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ، أَنْ قَالَ: إِنِّي أَرَى أَنَّ مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَمَّا أَنَا فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ أَبَدًا مَا عِشْتُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ ابْنُ عُلَيَّةَ، وَ عَبْدَةُ وَغَيْرِهِمَا، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، عَنْ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ بِمَعْنَاهُ، وَذَكَرَ رَجُلٌ وَاحِدٌ فِيهِ عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ: أَوْ صَاعًا مِنْ حِنْطَةٍ، وَلَيْسَ بِمَحْفُوظٍ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان باحیات تھے، ہم لوگ صدقہ فطر ہر چھوٹے اور بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے غلہ یا پنیر یا جو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، پھر ہم اسی طرح نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کرنے آئے تو انہوں نے منبر پر چڑھ کر لوگوں سے کچھ باتیں کیں، ان میں ان کی یہ بات بھی شامل تھی: میری رائے میں اس گیہوں کے جو شام سے آتا ہے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں، پھر لوگوں نے یہی اختیار کر لیا، اور ابوسعید نے کہا: لیکن میں جب تک زندہ رہوں گا برابر ایک ہی صاع نکالتا رہوں گا۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسے ابن علیہ اور عبدہ وغیرہ نے ابن اسحاق سے، ابی اسحاق نے عبداللہ بن عبداللہ بن عثمان بن حکیم بن حزام سے، عبداللہ بن عبداللہ نے عیاض سے اور عیاض نے ابوسعید سے اسی مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہے، ایک شخص نے ابن علیہ سے «أو صاعًا من حنطة» بھی نقل کیا ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے۔
Abu Saeed Al-khudri said: When the Messenger of Allah ﷺ lived among us, we use to bring forth zakat, on closing the fast of Ramadan one sa’ of grain or of cheese, or of barley, or of dried dates, or of raisens, payable by every young and old freeman and slave. We continued to pay this till mu-awayah came to perform Haj or Umra and he spoke to the people on the pulpit. What he said to the people was: I think that Mudds of the wheat of syrria is equivalent to one sa’ of dried dates. So the people adopted it. Abu Saeed said: But I continued to pay one sa’ of wheat as long as I lived on. Abu Dawud said: this tradition has also been transmitted by Abu Saeed through a different chain of narrators to the same effect. A man has narrated in this version from Ibn-Ulayyah one sa’ of wheat. But this version is not guarded.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1612
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1505) صحيح مسلم (985)
(مرفوع) حدثنا مسدد، اخبرنا إسماعيل، ليس فيه ذكر الحنطة. قال ابو داود: وقد ذكر معاوية بن هشام في هذا الحديث، عن الثوري، عن زيد بن اسلم، عن عياض، عن ابي سعيد، نصف صاع من بر وهو وهم من معاوية بن هشام، او ممن رواه عنه. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، لَيْسَ فِيهِ ذِكْرُ الْحِنْطَةِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ ذَكَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ الثَّوْرِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ وَهُوَ وَهْمٌ مِنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ هِشَامٍ، أَوْ مِمَّنْ رَوَاهُ عَنْهُ.
اس سند سے اسماعیل (اسماعیل ابن علیہ) سے یہی حدیث (نمبر: ۱۶۱۶ کے اخیر میں مذکور سند سے) مروی ہے اس میں حنطہٰ کا ذکر نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: معاویہ بن ہشام نے اس حدیث میں ثوری سے، ثوری نے زید بن اسلم سے، زیدی اسلم نے عیاض سے، عیاض نے ابوسعید سے «نصف صاع من بُرٍّ» نقل کیا ہے، لیکن یہ زیادتی معاویہ بن ہشام کا یا اس شخص کا وہم ہے جس نے ان سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:4269) (ضعیف)»
The aforesaid tradition has also been transmitted by Abu Saeed through a different chain of narrators. This version adds: “Half a sa’ of wheat “. But this is a misunderstanding on the part of muawayah bin Hisham and of those who narrated from him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1613
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الثوري مدلس و عنعن والحديث السابق (الأصل: 1616) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 65
(مرفوع) حدثنا حامد بن يحيى، اخبرنا سفيان. ح وحدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن عجلان، سمع عياضا، قال: سمعت ابا سعيد الخدري، يقول:" لا اخرج ابدا إلا صاعا، إنا كنا نخرج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاع تمر او شعير او اقط او زبيب"، هذا حديث يحيى، زاد سفيان: او صاعا من دقيق، قال حامد: فانكروا عليه فتركه سفيان، قال ابو داود: فهذه الزيادة وهم من ابن عيينة. (مرفوع) حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، سَمِعَ عِيَاضًا، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ:" لَا أُخْرِجُ أَبَدًا إِلَّا صَاعًا، إِنَّا كُنَّا نُخْرِجُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعَ تَمْرٍ أَوْ شَعِيرٍ أَوْ أَقِطٍ أَوْ زَبِيبٍ"، هَذَا حَدِيثُ يَحْيَى، زَادَ سُفْيَانُ: أَوْ صَاعًا مِنْ دَقِيقٍ، قَالَ حَامِدٌ: فَأَنْكَرُوا عَلَيْهِ فَتَرَكَهُ سُفْيَانُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: فَهَذِهِ الزِّيَادَةُ وَهْمٌ مِنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ ایک ہی صاع نکالوں گا، ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھجور، یا جو، یا پنیر، یا انگور کا ایک ہی صاع نکالتے تھے۔ یہ یحییٰ کی روایت ہے، سفیان کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: یا ایک صاع آٹے کا، حامد کہتے ہیں: لوگوں نے اس زیادتی پر نکیر کی، تو سفیان نے اسے چھوڑ دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ زیادتی ابن عیینہ کا وہم ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد أبو داود بروایة سفیان بن عیینة، وروایة یحییٰ القطان صحیحة موافقة لرقم: 1616، (تحفة الأشراف: 4269) (حسن)» (یحییٰ القطان کی روایت حسن ہے، اور ابن عیینہ کی روایت میں وہم ہے، اس لئے ضعیف ہے)
Narrated Abu Saeed al-Khudri: I shall always pay one sa'. We used to pay during the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ one sa' of dried dates or of barley, or of cheese, or of raisins. This is the version of Yahya. Sufyan added in his version: "or one sa' of flour. " The narrator Hamid (ibn Yahya) said: The people objected to this (addition); Sufyan then left it. Abu Dawud said: This addition is a misunderstanding on the part of Ibn Uyainah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1614
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف شاذ سنده حسن بالظاهر إلا قوله ”صاعًا من دقيق“ فإنه شاذ وانظر الحديثين السابقين انوار الصحيفه، صفحه نمبر 65
عبداللہ بن ابوصعیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گیہوں کا ایک صاع ہر دو آدمیوں پر لازم ہے (ہر ایک کی طرف سے آدھا صاع) چھوٹے ہوں یا بڑے، آزاد ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، رہا تم میں جو غنی ہے، اللہ اسے پاک کر دے گا، اور جو فقیر ہے اللہ اسے اس سے زیادہ لوٹا دے گا، جتنا اس نے دیا ہے“۔ سلیمان نے اپنی روایت میں «غنيٍ أو فقيرٍ» کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:2073)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/432) (ضعیف)» (نعمان بن راشد کے سبب یہ روایت ضعیف ہے)
Abdullah bin Thalabah or Thalabah bin Abdullah bin Abu Suair reported on his father's authority that the Messenger of Allah ﷺ said: One sa' of wheat is to be taken from every two, young or old, freeman or slave, male or female. Those of you who are rich will be purified by Allah, and those of you who are poor will have more than they gave returned by Him to them. Sulayman added in his version: "rich or poor"
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1615
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الزھري عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 65
ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر شخص کی جانب سے نکالنے کا حکم دیا۔ علی بن حسین نے اپنی روایت میں «أو صاع بر أو قمح بين اثنين» کا اضافہ کیا ہے (یعنی دو آدمیوں کی طرف سے گیہوں کا ایک صاع نکالنے کا)، پھر دونوں کی روایتیں متفق ہیں: ”چھوٹے بڑے آزاد اور غلام ہر ایک کی طرف سے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:2073)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/432) (صحیح)»
Abdullah bin Thalabah ibn Suayr reported on the authority of his father: The Messenger of Allah ﷺ stood and gave a sermon; he commanded to give sadaqah, at the end of Ramadan when the fasting is closed, one sa' of dried dates or of barley payable by every person. The narrator Ali added in his version: "or one sa' of wheat to be taken from every two. " Both the chains of narrators are then agreed upon the version: "payable by young and old, freeman and slave. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1616
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (1619) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 65
عبدالرزاق کہتے ہیں ابن جریج نے ہمیں خبر دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ابن شہاب نے اپنی روایت میں عبداللہ بن ثعلبہ (جزم کے ساتھ بغیر شک کے) کہا ۱؎۔ احمد بن صالح کہتے ہیں کہ عبدالرزاق نے عبداللہ بن ثعلبہ کے تعلق سے کہا ہے کہ وہ عدوی ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ احمد بن صالح نے عبداللہ صالح کو عذری کہا ہے ۲؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دو دن پہلے لوگوں کو خطبہ دیا، یہ خطبہ مقری (عبداللہ بن یزید) کی روایت کے مفہوم پر مشتمل تھا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:2073) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نعمان بن راشد اور بکر بن وائل کی جو روایت زہری سے اوپر گزری ہے اس میں شک کے ساتھ آیا ہے۔ ۲؎: عدوی تصحیف ہے۔
Abdullah bin Thalabah said (the narrator Ahmad bin salih said: He, i. e “Abd al-Razzaq, said: He is ‘Adawl. Abu Dawud said: Ahmed bin Salih said: He is ‘Adhri): The Messenger of Allah ﷺ delivered a speech before the closing fast (‘Id) by two days. He then transmitted the tradition like that of al Muqri (Abdullah bin Yazid).
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1617
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن جريج عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 65 ِ
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا سهل بن يوسف، قال حميد: اخبرنا، عن الحسن، قال:" خطب ابن عباس رحمه الله في آخر رمضان على منبر البصرة، فقال: اخرجوا صدقة صومكم، فكان الناس لم يعلموا، فقال: من هاهنا، من اهل المدينة قوموا إلى إخوانكم فعلموهم، فإنهم لا يعلمون، فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الصدقة صاعا من تمر او شعير او نصف صاع من قمح على كل حر او مملوك، ذكر او انثى، صغير او كبير، فلما قدم علي رضي الله عنه راى رخص السعر، قال: قد اوسع الله عليكم، فلو جعلتموه صاعا من كل شيء"، قال حميد: وكان الحسن يرى صدقة رمضان على من صام. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ حُمَيْدٌ: أَخْبَرَنَا، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ:" خَطَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي آخِرِ رَمَضَانَ عَلَى مِنْبَرِ الْبَصْرَةِ، فَقَالَ: أَخْرِجُوا صَدَقَةَ صَوْمِكُمْ، فَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا، فَقَالَ: مَنْ هَاهُنَا، مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قُومُوا إِلَى إِخْوَانِكُمْ فَعَلِّمُوهُمْ، فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ، فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ شَعِيرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوكٍ، ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَأَى رُخْصَ السِّعْرِ، قَالَ: قَدْ أَوْسَعَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ، فَلَوْ جَعَلْتُمُوهُ صَاعًا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ"، قَالَ حُمَيْدٌ: وَكَانَ الْحَسَنُ يَرَى صَدَقَةَ رَمَضَانَ عَلَى مَنْ صَامَ.
حسن کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے اخیر میں بصرہ کے منبر پر خطبہ دیا اور کہا: ”اپنے روزے کا صدقہ نکالو“، لوگ نہیں سمجھ سکے تو انہوں نے کہا: ”اہل مدینہ میں سے کون کون لوگ یہاں موجود ہیں؟ اٹھو اور اپنے بھائیوں کو سمجھاؤ، اس لیے کہ وہ نہیں جانتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدقہ فرض کیا کھجور یا جَو سے ایک صاع، اور گیہوں سے آدھا صاع ہر آزاد اور غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر“، پھر جب علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے ارزانی دیکھی اور کہنے لگے: ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی کر دی ہے، اب اسے ہر شے میں سے ایک صاع کر لو ۱؎ تو بہتر ہے“۔ حمید کہتے ہیں: حسن کا خیال تھا کہ صدقہ فطر اس شخص پر ہے جس نے رمضان کے روزے رکھے ہوں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزکاة 36 (2510)، (تحفة الأشراف:5394) (ضعیف)» (حسن بصری کا سماع ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نہیں ہے)
Al-Hasan said: Ibn Abbas preached towards the end of Ramadan on the pulpit (in the mosque) of al-Basrah. He said: Bring forth the sadaqah relating to your fast. The people, as it were, could not understand. Which of the people of Madina are present here? Stand for your brethren, and teach them, for they do not know. The Messenger of Allah ﷺ prescribed this sadaqah as one sa' of dried dates or barley, or half a sa' of wheat payable by every freeman or slave, male or female, young or old. When Ali came (to Basrah), he found that price had come down. He said: Allah has given prosperity to you, so give one sa' of everything (as sadaqah). The narrator Humayd said: Al-Hasan maintained that the sadaqah at the end of Ramadan was due on a person who fasted.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1618
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (1581،2510) وقال النسائي: ”الحسن لم يسمع من ابن عباس“ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 65
(مرفوع) حدثنا الحسن بن الصباح، حدثنا شبابة، عن ورقاء، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم عمر بن الخطاب على الصدقة، فمنع ابن جميل و خالد بن الوليد و العباس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما ينقم ابن جميل إلا ان كان فقيرا فاغناه الله، واما خالد بن الوليد فإنكم تظلمون خالدا فقد احتبس ادراعه واعتده في سبيل الله، واما العباس عم رسول الله صلى الله عليه وسلم فهي علي ومثلها"، ثم قال:" اما شعرت ان عم الرجل صنو الاب او صنو ابيه". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَمَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَ الْعَبَّاسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنْ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا فَقَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَمَّا الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيَّ وَمِثْلُهَا"، ثُمَّ قَالَ:" أَمَا شَعَرْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ الْأَبِ أَوْ صِنْوُ أَبِيهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس رضی اللہ عنہم نے (زکاۃ دینے سے) انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن جمیل اس لیے نہیں دیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اس کو غنی کر دیا، رہے خالد بن ولید تو خالد پر تم لوگ ظلم کر رہے ہو، انہوں نے اپنی زرہیں اور سامان جنگ اللہ کی راہ میں دے رکھے ہیں ۱؎، اور رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس تو ان کی زکاۃ میرے ذمہ ہے اور اسی قدر اور ہے ۲؎“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں نہیں معلوم کہ چچا والد کے برابر ہے“۔ راوی کو شک ہے «صنو الأب» کہا، یا «صنو أبيه» کہا۔
وضاحت: ۱؎: یعنی انہوں نے اپنی زرہیں اور اپنے سامان اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے وقف کر رکھا ہے، پھر ان کی زکاۃ کیسی، اسے تو انہوں نے اللہ ہی کی راہ میں دے رکھا ہے، یا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بن مانگے اپنی خوشی سے یہ چیزیں اللہ کی راہ میں دیدیں ہیں، تو وہ بھلا زکاۃ کیوں نہیں دیں گے، تمہیں لوگوں نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہو گی۔ ۲؎: باب سے مطابقت اسی لفظ سے ہے یعنی: ”اس سال کی زکاۃ اور اسی کے مثل آئندہ کی زکاۃ بھی“۔
Abu Hurairah said: The Prophet ﷺ sent Umar bin al-Khattab to collect sadaqa (All the people paid the zakat but ibn-jamil, Khalid bin al-walid and al-abbas refused. So the Messenger of Allah ﷺ said: Ibn-jamil is not (so much) objecting, but he was poor and Allah enriched him. As for Khalid bin Walid, you are wronging him, for he has kept back his courts of mail and weapons to use them in Allah’s path. As for al-Abbas, the uncle of the Messenger of Allah ﷺ, I shall be responsible for it and an equal amount along with it. Then he said did you not know (Umar) that a man’s paternal uncle is of the same stock as the father or his father?
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1619
قال الشيخ الألباني: صحيح م خ دون قوله أما شعرت
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1468) صحيح مسلم (983)
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زکاۃ جلدی (یعنی سال گزرنے سے پہلے) دینے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ان کو اس کی اجازت دی۔ راوی نے ایک بار «فرخص له في ذلك» کے بجائے «فأذن له في ذلك» روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ہشیم نے منصور بن زاذان سے، منصور نے حکم سے حکم نے حسن بن مسلم سے اور حسن بن مسلم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (مرسلاً) روایت کی ہے اور ہشیم کی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے، (یعنی: اس روایت کا مرسل بلکہ معضل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزکاة 37 (678)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 7 (1795)، (تحفة الأشراف:10063)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/104)، سنن الدارمی/الزکاة 12 (1676) (حسن)»
Narrated Ali ibn Abu Talib: Al-Abbas asked the Prophet ﷺ about paying the sadaqah (his zakat) in advance before it became due, and he gave permission to do that. Abu Dawud said: This tradition has also been transmitted by Hushaim through a different chain of narrators. The version of Hushaim is more sound.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1620
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (678) ابن ماجه (1795) الحكم بن عتيبة عنعن وللحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 66