سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
21. باب مَنْ رَوَى نِصْفَ، صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ
باب: گیہوں میں آدھا صاع صدقہ فطر دینے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 1620
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ الدَّرَابِجِرْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا بَكْرٌ هُوَ ابْنُ وَائِلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَوْ قَالَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ،عَنْ بَكْرٍ الْكُوفِيِّ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: هُوَ بَكْرُ بْنُ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ، أَنَّ الزُّهْرِيَّ حَدَّثَهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ صُعَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا، فَأَمَرَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ صَاعِ تَمْرٍ أَوْ صَاعِ شَعِيرٍ عَنْ كُلِّ رَأْسٍ"، زَادَ عَلِيٌّ فِي حَدِيثِهِ: أَوْ صَاعِ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ثُمَّ اتَّفَقَا عَنِ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ وَالْحُرِّ وَالْعَبْدِ".
ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر شخص کی جانب سے نکالنے کا حکم دیا۔ علی بن حسین نے اپنی روایت میں «أو صاع بر أو قمح بين اثنين» کا اضافہ کیا ہے (یعنی دو آدمیوں کی طرف سے گیہوں کا ایک صاع نکالنے کا)، پھر دونوں کی روایتیں متفق ہیں: ”چھوٹے بڑے آزاد اور غلام ہر ایک کی طرف سے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:2073)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/432) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
انظر الحديث السابق (1619)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 65
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1620 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1620
1620. اردو حاشیہ: سنن دارقطنی میں ہے۔ <حدیث> (ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قام خطيبا فامر بصدقه الفطر عن الصغير الكبير والحر والعبد صاعا من تمر او تمامامن شعير عن كل واهد او عن كل راس او صاع قمح)(کتاب الذکواۃ الفطر 147/2حدیث 2090) رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کےلئے کھڑے ہوئے تو آپﷺنے صدقہ فطر کاحکم دیا۔ہرچھوٹے بڑے آذاد غلام کی طرف سے کھجور یا جو کا ایک ایک صاع دیاجائے یا ایک صاع گندم کا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1620
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1619
´گیہوں میں آدھا صاع صدقہ فطر دینے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن ابوصعیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گیہوں کا ایک صاع ہر دو آدمیوں پر لازم ہے (ہر ایک کی طرف سے آدھا صاع) چھوٹے ہوں یا بڑے، آزاد ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، رہا تم میں جو غنی ہے، اللہ اسے پاک کر دے گا، اور جو فقیر ہے اللہ اسے اس سے زیادہ لوٹا دے گا، جتنا اس نے دیا ہے۔“ سلیمان نے اپنی روایت میں «غنيٍ أو فقيرٍ» کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1619]
1619. اردو حاشیہ: زکواۃ المال کی طرح رسول اللہ ﷺ نے زکواۃ الفطر بنیادی غذائی اجناس سے ایک صاع کے برابر ادا کرنے کا حکم فرمایا۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضاحت سے بیان فرماتے ہیں۔ کے رسول اللہ ﷺکے عہد میں آپﷺ کے حکم پر ہم کھانے کی اشیاء میں سے ایک صاع زکواۃ الفطر ادا کرتے تھے۔اور ہمارے کھانے کی اجناس جو کشمش۔کھجور۔اور پنیر تھیں۔(صحیح البخاری صدقہ الفطر باب الصدقۃ قبل العید حدیث 1510)یعنی اد دوور میں گندم عام نہ تھی۔ بعد میں جب گندم عام ہوگئی۔تو زکواۃ الفطر اس میں ادا کی جانے لگی۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے۔کہ لوگوں نے قیمت کو بنیاد بنا کر گندم سے ایک صاع یا چار مد کی بجائے دو مد یا نصف صاع ادا کرنا شروع کردیا۔(صحیح البخاری صدقۃ الفطر۔باب الصدقہ الفطر صاعا من تمر حدیث 1507) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہی وضاحت فرماتے ہیں۔ کہ گندم میں آدھا صاع دینے کا طریقہ لوگوں میں اس وقت شروع ہوا جب (فلما جاء معاوية وجاءت السمراء......) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور سمراء یعنی شامی گندم آئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میری رائے میں اس گندم کا ایک مد (دوسری غذائی اجناس کے)دو مدوں کےبرابر ہے۔ صحیح البخاری صدقۃ الفطر باب صاع من زبیب حدیث 1508) ابو دائود میں حجرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت (حدیث نمبر 1614) میں یہ کہا گیا ہے کہ گندم کے آدھے صاع کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقی اشیاء کے نصف صاع کے برابرقرار دیا تھا۔لیکن یہ روایت بعض علمائے جرح وتعدیل کے نزدیک تو سرے سے ضعیف ہے۔(ضعیف ابی دائود للبانی الزکواۃ باب کم یودی فی صدقۃ الفطر) ورنہ اس پر اتفاق ہے کہ اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے ر اوی عبد العزیز بن ابی رواد کا وہم قرار دیا ہے۔(فتح الباری الزکاۃ باب الصدقۃ الفطر صاعا من تمر)نصف صاع کی رائے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےعلاوہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے۔ لیکن اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اجماع نہیں کیونکہ بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین مثلا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس رائے کے مخالف ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جس طرح یہ مروی ہے کہ آپ نے قیمت کا لہاظ کرتے ہوئے ایک وقت میں نصف صا ع کی اجازت دی۔ وہاں یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے بعد میں گندم کی ارزانی دیکھ کر دوبارہ پورا صاع ادا کرنے کا حکمدیا۔(سنن ابی دائود الزکواۃ حدیث 1622)حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا یہ اختلاف بیان کرنے کے بعد یہ تبصرہ کرتے ہیں۔کہ ہر زمانے میں اگر قیمت کو بنیاد بنا کر زکواۃ الفطر کی ادایئگی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تو اس کی مقدار کبھی منظبط نہیں رہ سکے گی۔بلکہ ہوسکتا ہے کہ (قیمتوں کے اُتارچڑھائو کی وجہ سے)کسی وقت خود گندم کے بہت سے صاع مقرر کرنے پڑیں۔(فتح الباری الزکواۃ باب صاع من زبیب)اور اب یہ وقت آگیا ہے کہ اگرکشمش اور کھجور کی قیمت کو بنیاد بنایئں تو واقعی گندم اب منوں کے حساب سے دینی پڑے گی۔ اس لئے قیمتوں سے قطع نظر ہر علاقے کی بنیادی غذائی جنس سے ایک صاع زکواۃ الفطر کا طریقہ ہی قابل عمل ہے۔ جو رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے دور کئے مختلف بنیادی اجناس کے حوالے سے مقرر فرمایا آپ نے جن اشیاء کا نام لیا وہ سو فیصد ہم قیمت نہ تھیں۔لیکن آپ نے قیمتوں کے فرق کو ایک طرف رکھتے ہوئے رائج چیز کا نام لے کر ہر ایک میں صاع کی مقدار متعین فرمائی۔دوسرے لفظوں میں رسالت مآب ﷺنے بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں کو بنیاد بنانے کی بجائے مقدارکو بنیاد بنایا اور تمام اجناس میں یکساں مقدار مقرر فرمائی۔امام ابو دائود رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں رسول اللہ ﷺکی طرف منسوب روایات جمع کردی ہیں۔ جو آدھے صاع کا نقطہ نظر رکھنے والے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور ان کی پوری سندیں بیان کردی ہیں۔جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب روایتیں ضعیف ہیں۔ اور آخری روایت میں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قیمتوں کے حوالے سے گندم کی مقدار میں تبدیلی کا بھی زکرآگیا ہے۔امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے۔(المستدرک الذکواۃ حدیث 1464) اس کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ مثلا امام حاکم سہل بن ابی حشمہ ہی سے روایت کرتے ہیں۔کہ حضرت عمر نے بھی ان کو کھجور کے پھل کا تخمینہ لگانے کےلئے بھیجا اور فرمایا جب تم کسی اراضی میں پہنچو تو تخمینہ لگائو اور جتنی وہ کھالیں اتنی مقدارچھوڑ دو۔امام حاکم نے اس شواہد کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی صحت پر سب کااتفاق ہے۔(المستدرک الذکواۃ حدیث 1465 مروان بن حکم نے بھی ان کو بھیجا تھا۔یہ کاشت کاروں کےلئے اسلام کی رحمت وشفقت کا بہترین مظاہرہ ہے۔کے تخمینے کے بعد پیداوار تیار حالت میں گھر لے جانے سے جو پہلے کمی آسکتی ہے۔ چاہے لوگوں کے کھانے سے ہی آئے۔اور اس کو تخمینے سے نکال کر زکواۃ دی جائے۔آجکل کھیتیاں مختلف آفات سماوی سے ضائع ہوجاتی ہیں۔یا ان کی پیداور بہت کم ہوجاتی ہے۔بیماریاں بکثرت فصلوں اور باغوں پر حملہ آوارہوتی ہیں۔لہذا کسان اپنی فصل کو ان بیماریوں سے بچانے کےلئے (بہت زیادہ اخراجات کا بار اُٹھاتا ہے۔نتیجتاً وہ اکثر مقروض ہوجاتا ہے۔ اور بعض اوقات فصل کی تباہی اس پیمانے پر ہوتی ہے کہ اس کے بنیادی اخراجات اس کے زمے بطور قرض واجب ہوجاتے ہیں۔غالباًاسی لئے محدث العصر حافظ عبد للہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے تمام اخراجات نکال کر بقیہ مال کی زکواۃ دینے کافتویٰ دیا ہے۔(فتاویٰ اہلحدیث حافظ محمد عبد اللہ روپڑی جلد دوم باب زکواۃ)صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کےدور میں اس بات پر کوئی اختلاف مروی نہیں کہ اگر صاحب مال پر کوئی قرض ہے۔تو اسے نکال کر باقی مال پرزکواۃ ہوگی۔بعد کے دور میں ربعیہ۔حماد بن ابی سلیمان۔اورشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے نئے قول کے مطابق یہ رائے دی کہ قرض ہونے یا نہ ہونے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ ساری موجودہ پیداوار پر زکواۃ ہوگی۔ لیکن اس دور کی بھی اکثریت مثلا عطا۔سلیمان بن یسار۔میمون بن مہران۔حسن نخعی لیث ثوری اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ یہ ہے۔کہ اموال ظاہرہ ہون یا باطنہ قرض نکال کر باقی مالہ اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکواۃ دینی ہوگی۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ابوثور اور فقہائے عراق رحمۃ اللہ علیہ اموال باطنہ میں قرض نکال کر باقی مال کی زکواۃ کے قائل ہیں لیکن اموال ظاہر میں نہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اموال ظاہر ہ خصوصا کھیتی پر جو بھی خرچ ہوتا تھا اس کا تعلق پانی سے تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے خر چ کا اعتبار کرتے ہوئے عشر کی مقدار آدھی کردی۔اب رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ جوں کاتوں قائم رہے گا۔(ابن قدامہ المغنی کتاب الذکواۃ مسئلہ الدین یمنع زکواۃ الاموال الباطنہ بشرطہ)خلفائے راشدین اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں ایسے کسی اختلاف کا ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ اس پراتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ زکواۃ کی ادایئگی قرض کی مالیت علیحدہ کرنے کے بعد باقی مال پر ہوگی۔(المغنی باب الزکواۃ الدین والصدقہ)اس سلسلے میں ابن قدامہ نے تو اصحاب مالک کے حوالے سے خود رسول اللہ ﷺ کایہ فرمان نقل کیا ہے۔کہ (اذا كان لرجل الف درهم وعليه الف درهم فلا زكواة عليه) جب کسی آدمی کے پاس ہزار درہم ہوں اور اس پرہزار درہم ہی قرض ہو تو اس پر زکواۃ نہیں۔ انہوں نے اس کونص قرار دیا ہے۔لیکن انھوں نے اس حدیث کی باقاعدہ سند نقل نہیں کی۔البتہ امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ترین سند سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےحوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت سائب بن یزید کہتے ہیںانہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہﷺ کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ فرمارہے تھے۔یہ تمہارازکواۃ کا مہینہ ہے۔تم میں سے جس پر کوئی قرض ہے۔وہ ادا کردے تاکہ تمہارے مال خالص (قرض سے پاک)ہوجایئں اور ان سے زکواۃ ادا کرو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی سند سے یہ روایت رسول اللہ ﷺکے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا تک اپنی صحیح میں بیان کی ہے۔ (صحیح البخاری مع فتح الباری الاعتصام بالسنۃ باب ما زکر النبی ﷺ وحض علی اتفاق اھل العلم نیز السنن الکبریٰ للبہیقی الزکواۃ باب الدین مع الصدقہ)یہ خلیفہ راشید حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے۔جو برسر منبر رسول اللہ ﷺ دیا گیا۔ اور کسی ایک صحابی نے بھی ان سے اختلاف نہ کیا۔ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ اس کو بجا طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق ر ائے قرار دیتے ہیں۔یہ ہر طرح کے قرض کو نکال کر باقی خالص مال سے زکواۃ کے وجوب پر قطعی دلیل ہے۔بالخصوص اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی اور اپنے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کی سنت کو لازم قراردیا ہے۔بعدکے عہد کے فقہاء اور علماء کے فتاویٰ اگر اس سے مختلف ہوں تو وہ قابل التفات نہیں رہتے۔جبکہ ان کی اکثریت بھی اس کی قائل ہے۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین میں اگر کوئی اختلاف پایا جاتا ہے۔ تو محض یہ کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ کوئی انسان اگرقرض لے کر اہل وعیال پر خرچ کرے اور کھیتی پربھی توسارا قرض نکال کر باقی مال پر زکواہ ہوگی۔جبکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتہاد یہ ہے کہ زکواۃ سے پہلے صرف اتنا قرض نکالا جائے گا۔جو اس نے کھیتی پر صرف کیا ہے۔(المغنی الدین یمنع زکواۃ الاموال)یہ دونوں اس پر متفق ہیں۔ کہ جو قرض کھیتی پرصرف ہو وہ زکواۃ سے مستثنیٰ ہوگا۔کسی اورصحابی سے بھی اس سلسلے میں کوئی اختلاف منقول نہیں۔ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ر سول اللہ ﷺ سے براہ راست دین حاصل کیا اور احکام شریعت کے عموم سے اچھی طرح واقف تھے۔ان کے اجتہاد کے مقابلے میں کسی دوسرے کے اجتہاد کی کوئی حیثیت نہیں خصوصا ایسے اجتہاد کی جس سے کھیتی باڑی کرنے والے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔بعض علماء نے قرض کی چھوٹ کے حوالے سے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ زکواۃ لی ہی اغنیاء سے جاتی ہے۔اور پھر فقراء کو دیا جاتی ہے۔تو ایک ایسا آدمی جو قرض کے بوجھ تلے دبہ ہو صرف اسی بنیاد پر کہ اس کی پیداوار ہوئی ہے چاہے وہ اس کے قرض سے کم ہواس سے زکواۃ لے لی جائے۔مصلحت پر زکواۃ کو الٹ دینے کے مترادف ہے۔(مفصل بحث المغنی لابن قدامہ باب زکواۃ الدین والصدقۃ میں دیکھی جاسکتی ہے۔]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1619