(مرفوع) حدثنا جعفر بن مسافر، حدثنا عبد الله بن يحيى البرلسي، حدثنا حيوة بن شريح، عن ابن الهاد، ان نافعا حدثه، عن ابن عمر، قال:" اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغائط فلقيه رجل عند بئر جمل فسلم عليه، فلم يرد عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اقبل على الحائط فوضع يده على الحائط ثم مسح وجهه ويديه، ثم رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على الرجل السلام". (مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى الْبُرُلُّسِيُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَهُ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَائِطِ فَلَقِيَهُ رَجُلٌ عِنْدَ بِئْرِ جَمَلٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الْحَائِطِ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْحَائِطِ ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجُلِ السَّلَامَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاخانہ سے فارغ ہو کر آئے تو بئر جمل کے پاس ایک آدمی کی ملاقات آپ سے ہو گئی، اس نے آپ کو سلام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس آئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دیوار پر مارا پھر اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے سلام کا جواب دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 8533) (صحیح)»
Ibn Umar said: The Messenger of Allah ﷺ came from the privy. A man met him near Bir Jamal and saluted him. The Messenger of Allah ﷺ did not return the salutation until he came to a wall and placed his hands on the wall and wiped his face and hands; he then returned the man's salutation.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 331
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد الواسطي، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة. ح حدثنا مسدد، اخبرنا خالد يعني ابن عبد الله الواسطي، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن عمرو بن بجدان، عن ابي ذر، قال: اجتمعت غنيمة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا ابا ذر، ابد فيها، فبدوت إلى الربذة فكانت تصيبني الجنابة فامكث الخمس والست، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ابو ذر، فسكت، فقال: ثكلتك امك ابا ذر لامك الويل، فدعا لي بجارية سوداء فجاءت بعس فيه ماء فسترتني بثوب واستترت بالراحلة واغتسلت فكاني القيت عني جبلا، فقال:" الصعيد الطيب وضوء المسلم ولو إلى عشر سنين، فإذا وجدت الماء فامسه جلدك فإن ذلك خير"، وقال مسدد: غنيمة من الصدقة، قال ابو داود: وحديث عمرو اتم. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ. ح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيَّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: اجْتَمَعَتْ غُنَيْمَةٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، ابْدُ فِيهَا، فَبَدَوْتُ إِلَى الرَّبَذَةِ فَكَانَتْ تُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأَمْكُثُ الْخَمْسَ وَالسِّتَّ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَبُو ذَرٍّ، فَسَكَتُّ، فَقَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَبَا ذَرٍّ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ، فَدَعَا لِي بِجَارِيَةٍ سَوْدَاءَ فَجَاءَتْ بِعُسٍّ فِيهِ مَاءٌ فَسَتَرَتْنِي بِثَوْبٍ وَاسْتَتَرْتُ بِالرَّاحِلَةِ وَاغْتَسَلْتُ فَكَأَنِّي أَلْقَيْتُ عَنِّي جَبَلًا، فَقَالَ:" الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ وَلَوْ إِلَى عَشْرِ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ"، وَقَالَ مُسَدَّدٌ: غُنَيْمَةٌ مِنَ الصَّدَقَةِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَحَدِيثُ عَمْرٍو أَتَمُّ.
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ بکریاں جمع ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! تم ان بکریوں کو جنگل میں لے جاؤ“، چنانچہ میں انہیں ہانک کر مقام ربذہ کی طرف لے گیا، وہاں مجھے جنابت لاحق ہو جایا کرتی تھی اور میں پانچ پانچ چھ چھ روز یوں ہی رہا کرتا، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: ”ابوذر!“، میں خاموش رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری ماں تم پر روئے، ابوذر! تمہاری ماں کے لیے بربادی ہو ۱؎“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے ایک کالی لونڈی بلائی، وہ ایک بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی، اس نے میرے لیے ایک کپڑے کی آڑ کی اور (دوسری طرف سے) میں نے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا، (غسل کر کے مجھے ایسا لگا) گویا کہ میں نے اپنے اوپر سے کوئی پہاڑ ہٹا دیا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو (کے پانی کے حکم میں) ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے، جب تم پانی پا جاؤ تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو، اس لیے کہ یہ بہتر ہے“۔ مسدد کی روایت میں «غنيمة من الصدقة» کے الفاظ ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمرو کی روایت زیادہ کامل ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطھارة 92 (124)، سنن النسائی/الطھارة 205 (323)، (تحفة الأشراف: 12008)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/155، 180) (صحیح)» (بزار وغیرہ کی روایت کردہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے ایک راوی ”عمرو بن بجدان“ مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: اس طرح کے الفاظ زبان پر یوں ہی بطور تعجب جاری ہو جاتے ہیں ان سے بددعا مقصود نہیں ہوتی۔
Abu Dharr said: A few goats got collected with the Messenger of Allah ﷺ. He said: Abu Dharr, drive them to the wood. I drove them to Rabadhah (a place near Madina). I would have sexual defilement (during my stay there) and I would remain (in this condition) for five or six days. Then I came to the Messenger of Allah ﷺ. He said: O Abu Dharr. I kept silence. He then said: May your mother bereave you, Abu Dharr: woe be to your mother. He then called a black slave-girl for me. She brought a vessel which contained water. She then concealed me by drawing a curtain and I concealed myself behind a she-camel, and took a bath. I felt as if I had thrown away a mountain from me. He said: Clean earth is a means for ablution for a Muslim, even for ten years (he does not find water); but when you find water, you should make it touch your skin, for that is better. The version of Musaddad has: "the goats (were collected) from the alms, " and the tradition reported by Amr is complete.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 332
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (530) عمرو بن بجدان: وثقه العجلي المعتدل وابن خزيمة وابن حبان والحاكم والذھبي فحديثه لا ينزل عن درجة الحسن
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، اخبرنا حماد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن رجل من بني عامر، قال: دخلت في الإسلام فاهمني ديني، فاتيت ابا ذر، فقال ابو ذر:" إني اجتويت المدينة، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود وبغنم، فقال لي: اشرب من البانها، قال حماد: واشك في ابوالها، هذا قول حماد، فقال ابو ذر: فكنت اعزب عن الماء، ومعي اهلي فتصيبني الجنابة فاصلي بغير طهور، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بنصف النهار وهو في رهط من اصحابه وهو في ظل المسجد، فقال ابو ذر: فقلت: نعم هلكت يا رسول الله، قال: وما اهلكك؟ قلت: إني كنت اعزب عن الماء ومعي اهلي فتصيبني الجنابة فاصلي بغير طهور، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء فجاءت به جارية سوداء بعس يتخضخض ما هو بملآن فتسترت إلى بعيري فاغتسلت ثم جئت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ابا ذر إن الصعيد الطيب طهور، وإن لم تجد الماء إلى عشر سنين، فإذا وجدت الماء فامسه جلدك"، قال ابو داود: رواه حماد بن زيد، عن ايوب، لم يذكر ابوالها. قال ابو داود: هذا ليس بصحيح، وليس في ابوالها إلا حديث انس، تفرد به اهل البصرة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، قَالَ: دَخَلْتُ فِي الْإِسْلَامِ فَأَهَمَّنِي دِينِي، فَأَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ:" إِنِّي اجْتَوَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَبِغَنَمٍ، فَقَالَ لِي: اشْرَبْ مِنْ أَلْبَانِهَا، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَشُكُّ فِي أَبْوَالِهَا، هَذَا قَوْلُ حَمَّادٍ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَكُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ، وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأُصَلِّي بِغَيْرِ طَهُورٍ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ النَّهَارِ وَهُوَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِهِ وَهُوَ فِي ظِلِّ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَقُلْتُ: نَعَمْ هَلَكْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: وَمَا أَهْلَكَكَ؟ قُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأُصَلِّي بِغَيْرِ طُهُورٍ، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ فَجَاءَتْ بِهِ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ بِعُسٍّ يَتَخَضْخَضُ مَا هُوَ بِمَلْآنَ فَتَسَتَّرْتُ إِلَى بَعِيرِي فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورٌ، وَإِنْ لَمْ تَجِدِ الْمَاءَ إِلَى عَشْرِ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، لَمْ يَذْكُرْ أَبْوَالَهَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا لَيْسَ بِصَحِيحٍ، وَلَيْسَ فِي أَبْوَالِهَا إِلَّا حَدِيثُ أَنَسٍ، تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْبَصْرَةِ.
قبیلہ بنی عامر کے ایک آدمی کہتے ہیں کہ میں اسلام میں داخل ہوا تو مجھے اپنا دین سیکھنے کی فکر لاحق ہوئی لہٰذا میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے کہا: مجھے مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ اونٹ اور بکریاں دینے کا حکم دیا اور مجھ سے فرمایا: ”تم ان کا دودھ پیو“، (حماد کا بیان ہے کہ مجھے شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیشاب بھی پینے کے لیے کہا یا نہیں، یہ حماد کا قول ہے)، پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پانی سے (اکثر) دور رہا کرتا تھا اور میرے ساتھ میری بیوی بھی تھی، مجھے جنابت لاحق ہوتی تو میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لیتا تھا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوپہر کے وقت آیا، آپ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد کے سائے میں (بیٹھے) تھے، آپ نے فرمایا: ”ابوذر؟“، میں نے کہا: جی، اللہ کے رسول! میں تو ہلاک و برباد ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کس چیز نے تمہیں ہلاک و برباد کیا؟“، میں نے کہا: میں پانی سے دور رہا کرتا تھا اور میرے ساتھ میری بیوی تھی، مجھے جنابت لاحق ہوتی تو میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لیتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے پانی لانے کا حکم دیا، چنانچہ ایک کالی لونڈی بڑے برتن میں پانی لے کر آئی جو برتن میں ہل رہا تھا، برتن بھرا ہوا نہیں تھا، پھر میں نے اپنے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا، پھر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! پاک مٹی پاک کرنے والی ہے، اگرچہ تم دس سال تک پانی نہ پاؤ، لیکن جب تمہیں پانی مل جائے تو اسے اپنی کھال پر بہاؤ (غسل کرو)“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن زید نے ایوب سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے پیشاب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ صحیح نہیں ہے اور پیشاب کا ذکر صرف انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، جس میں اہل بصرہ منفرد ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12008) (صحیح)» (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک راوی ”رجل من بنی عامر“ مبہم راوی ہیں اور یہ وہی ”عمرو بن بجدان“ ہیں)
A man from Banu Amir said: I embraced Islam and my (ignorance of the) religion made me anxious (to learn the essentials). I came to Abu Dharr. Abu Dharr said: The climate of Madina did not suit me. The Messenger of Allah ﷺ ordered me to have a few camels and goats. He said to me: Drink their milk. (The narrator Hammad said): I doubt whether he (the Prophet) said: "their urine. " Abu Dharr said: I was away from the watering place and I had my family with me. I would have sexual defilement and pray without purification. I came to the Messenger of Allah ﷺ at noon. He was resting in the shade of the mosque along with a group of Companions. He (the Prophet) said: Abu Dharr. I said: Yes, I am ruined, Messenger of Allah. He said: What ruined you ? I said: I was away from the watering place and I had family with me. I used to be sexually defiled and pray without purification. He commanded (to bring) water for me. Then a black slave-girl brought a vessel of water that was shaking as the vessel was not full. I concealed myself behind a camel and took bath and them came (to the Prophet). The Messenger of Allah ﷺ said: Abu Dharr, clean earth is a means of ablution, even if you do not find water for ten years. When you find water, you should make it touch your skin. Abu Dawud said: This is transmitted by Hammad bin Zaid from Ayyub. This version does not mention the words "their urine. " This is not correct. The words "their urine" occur only in the version reported by Anas and transmitted only by the people of Basrah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 333
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن رجل من بني عامر ھو عمرو بن بجدان (التقريب: 8522) وھو صحيح الحديث وثقه العجلي المعتدل وابن خزيمة وابن حبان والحاكم والذھبي فحديثه لا ينزل عن درجة الحسن
(مرفوع) حدثنا ابن المثنى، اخبرنا وهب بن جرير، اخبرنا ابي، قال: سمعت يحيى بن ايوب يحدث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن عمران بن ابي انس، عن عبد الرحمن بن جبير المصري، عن عمرو بن العاص، قال:" احتلمت في ليلة باردة في غزوة ذات السلاسل فاشفقت إن اغتسلت ان اهلك، فتيممت ثم صليت باصحابي الصبح، فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا عمرو، صليت باصحابك وانت جنب؟ فاخبرته بالذي منعني من الاغتسال، وقلت: إني سمعت الله، يقول: ولا تقتلوا انفسكم إن الله كان بكم رحيما سورة النساء آية 29، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يقل شيئا"، قال ابو داود: عبد الرحمن بن جبير مصري مولى خارجة بن حذافة، وليس هو ابن جبير بن نفير. (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، أَخْبَرَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ الْمِصْرِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاص، قَالَ:" احْتَلَمْتُ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَأَشْفَقْتُ إِنِ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلِكَ، فَتَيَمَّمْتُ ثُمَّ صَلَّيْتُ بِأَصْحَابِي الصُّبْحَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا عَمْرُو، صَلَّيْتَ بِأَصْحَابِكَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي مَنَعَنِي مِنَ الِاغْتِسَالِ، وَقُلْتُ: إِنِّي سَمِعْتُ اللَّهَ، يَقُولُ: وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا سورة النساء آية 29، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ مِصْرِيٌّ مَوْلَى خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ، وَلَيْسَ هُوَ ابْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ.
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ ذات السلاسل کی ایک ٹھنڈی رات میں مجھے احتلام ہو گیا اور مجھے یہ ڈر لگا کہ اگر میں نے غسل کر لیا تو مر جاؤں گا، چنانچہ میں نے تیمم کر کے اپنے ساتھیوں کو فجر پڑھائی، تو لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”عمرو! تم نے جنابت کی حالت میں اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی؟“، چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل نہ کرنے کا سبب بتایا اور کہا: میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا کہ «ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما»(سورۃ النساء: ۲۹)”تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے“ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور آپ نے کچھ نہیں کہا۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 10750)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/203) (صحیح)»
Narrated Amr ibn al-As: I had a sexual dream on a cold night in the battle of Dhat as-Salasil. I was afraid, if I washed I would die. I, therefore, performed tayammum and led my companions in the dawn prayer. They mentioned that to the Messenger of Allah ﷺ. He said: Amr, you led your companions is prayer while you were sexually defiled? I informed him of the cause which impeded me from washing. And I said: I heard Allah say: "Do not kill yourself, verily Allah is merciful to you. " The Messenger of Allah ﷺ laughed and did not say anything. Abu Dawud said: Abdur-Rahman bin Jubair is an Egyptian and a freed slave of Kharijah bin Hudhafah. He is not Jubair bin Nufair
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 334
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح صححه ابن حبان (202) والحاكم علٰي شرط الشيخين (1/177) ووافقه الذھبي وسنده حسن
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے غلام ابو قیس سے روایت ہے کہ عمرو بن العاص ایک سریہ کے سردار تھے، پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی، اس میں ہے: تو انہوں نے اپنی شرمگاہ کے آس پاس کا حصہ دھویا، پھر وضو کیا جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہیں پھر لوگوں کو نماز پڑھائی، آگے راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی مگر اس میں تیمم کا ذکر نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ واقعہ اوزاعی نے حسان بن عطیہ سے روایت کیا ہے، اس میں «فتيمم» کے الفاظ ہیں (یعنی انہوں نے تیمم کیا)۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 10750) (صحیح)»
Abu Qais, the freed slave of Amr bin al-As, said Amr bin al-As was in a battle. He then narrated the rest of the tradition. He then said: He washed his armpits and other joints where dirt was found, and he performed ablution like that for prayer. Then he led them in prayer. He then narrated the tradition in a similar way but did not mention of tayammum. Abu Dawud said: This incident has also been narrated by al-'Awzai on the authority of Hassan bin Atiyyah. This version has the words: Then he performed tayammum.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 335
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (334)
(مرفوع) حدثنا موسى بن عبد الرحمن الانطاكي، حدثنا محمد بن سلمة، عن الزبير بن خريق، عن عطاء، عن جابر، قال: خرجنا في سفر فاصاب رجلا منا حجر فشجه في راسه ثم احتلم، فسال اصحابه، فقال: هل تجدون لي رخصة في التيمم؟ فقالوا: ما نجد لك رخصة وانت تقدر على الماء، فاغتسل فمات. فلما قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم اخبر بذلك، فقال:" قتلوه قتلهم الله، الا سالوا إذ لم يعلموا، فإنما شفاء العي السؤال، إنما كان يكفيه ان يتيمم ويعصر او يعصب شك موسى على جرحه خرقة ثم يمسح عليها ويغسل سائر جسده". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ خُرَيْقٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: خَرَجْنَا فِي سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّهُ فِي رَأْسِهِ ثُمَّ احْتَلَمَ، فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ: هَلْ تَجِدُونَ لِي رُخْصَةً فِي التَّيَمُّمِ؟ فَقَالُوا: مَا نَجِدُ لَكَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَى الْمَاءِ، فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ. فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُخْبِرَ بِذَلِكَ، فَقَالَ:" قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ، أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا، فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ أَوْ يَعْصِبَ شَكَّ مُوسَى عَلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهَا وَيَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے، تو ہم میں سے ایک شخص کو ایک پتھر لگا، جس سے اس کا سر پھٹ گیا، پھر اسے احتلام ہو گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا: کیا تم لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت پاتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم تمہارے لیے تیمم کی رخصت نہیں پاتے، اس لیے کہ تم پانی پر قادر ہو، چنانچہ اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا، پھر جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ ان کو مارے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کیوں نہیں پوچھ لیا؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے، اسے بس اتنا کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا (یہ شک موسیٰ کو ہوا ہے)، پھر اس پر مسح کر لیتا اور اپنے باقی جسم کو دھو ڈالتا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 2413) (حسن)» ( «إنما كان يكفيه» یہ جملہ ثابت نہیں ہے)
وضاحت: بغیر علم کے فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ چاہیے کہ اصحاب علم سے مراجعہ کیا جائے۔ زخم پر پٹی باندھ کر مسح کیا جائے اور اس مسح کے لیے موزوں والی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے وضو کیا ہو یا وقت متعین ہو۔
Jabir said: We set out on a journey. One of our people was hurt by a stone, that injured his head. The then had a sexual dream. He asked his fellow travelers: Do you find a concession for me to perform tayammum? They said: We do not find any concession for you while you can use water. He took a bath and died. When we came to the Prophet ﷺ, the incident was reported to him. He said: They killed him, may Allah kill them! Could they not ask when they did not know ? The fire of ignorance is inquiry. It was enough for him to perform tayammum and to our some drops of water or bind a bandage over the wound (the narrator Musa was doubtful); then he should have wiped over it and washed the rest of his body.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 336
قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله إنما كان يكفيه
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (572) الزبير بن خريق: وثقه ابن حبان وحده،وضعفه الدارقطني فحديثه ضعيف،وقال أبو داود في حديثه: ”ليس بالقوي‘‘ وقال ابن حجر: ’’لين الحديث‘‘ (تقريب: 1994) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 26
(مرفوع) حدثنا نصر بن عاصم الانطاكي، حدثنا محمد بن شعيب، اخبرني الاوزاعي، انه بلغه، عن عطاء بن ابي رباح، انه سمع عبد الله بن عباس، قال:" اصاب رجلا جرح في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم احتلم، فامر بالاغتسال فاغتسل فمات، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: قتلوه قتلهم الله، الم يكن شفاء العي السؤال". (مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، أَخْبَرَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَصَابَ رَجُلًا جُرْحٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ احْتَلَمَ، فَأُمِرَ بِالِاغْتِسَالِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ، أَلَمْ يَكُنْ شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالَ".
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی کو زخم لگا، پھر اسے احتلام ہو گیا، تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا گیا، اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں مارے، کیا لاعلمی کا علاج مسئلہ پوچھ لینا نہیں تھا؟“۔
تخریج الحدیث: «أخرجہ ابن ماجہ موصولاً برقم (572)، (تحفة الأشراف: 5972)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطھارة 69 (779) (حسن)»
وضاحت: بغیر علم کے فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ چاہیے کہ اصحاب علم سے مراجعہ کیا جائے۔ زخم پر پٹی باندھ کر مسح کیا جائے اور اس مسح کے لیے موزوں والی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے وضو کیا ہو یا وقت متعین ہو۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: A man was injured during the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ; he then had a sexual dream, and he was advised to wash and he washed himself. Consequently he died. When this was reported to the Messenger of Allah ﷺ he said: They killed him; may Allah kill them! Is not inquiry the cure of ignorance?
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 337
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (532) الأوزاعي سمعه من عطاء وسمعه من رجل عنه وللحديث طرق أخريٰ عند البيھقي (1/226، 227، فيه بشر بن بكر وھو ثقه)
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسحاق المسيبي، اخبرنا عبد الله بن نافع، عن الليث بن سعد، عن بكر بن سوادة، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، قال:" خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيدا طيبا فصليا، ثم وجدا الماء في الوقت فاعاد احدهما الصلاة والوضوء ولم يعد الآخر، ثم اتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرا ذلك له، فقال للذي لم يعد: اصبت السنة واجزاتك صلاتك، وقال للذي توضا واعاد: لك الاجر مرتين"، قال ابو داود وغير ابن نافع: يرويه عن الليث، عن عميرة بن ابي ناجية، عن بكر بن سوادة، عن عطاء بن يسار عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو داود: وذكر ابى سعيد الخدري في هذا الحديث: ليس بمحفوظ وهو مرسل. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْمَسَيَّبِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" خَرَجَ رَجُلَانِ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَلَيْسَ مَعَهُمَا مَاءٌ فَتَيَمَّمَا صَعِيدًا طَيِّبًا فَصَلَّيَا، ثُمَّ وَجَدَا الْمَاءَ فِي الْوَقْتِ فَأَعَادَ أَحَدُهُمَا الصَّلَاةَ وَالْوُضُوءَ وَلَمْ يُعِدِ الْآخَرُ، ثُمَّ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لِلَّذِي لَمْ يُعِدْ: أَصَبْتَ السُّنَّةَ وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ، وَقَالَ لِلَّذِي تَوَضَّأَ وَأَعَادَ: لَكَ الْأَجْرُ مَرَّتَيْنِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد وَغَيْرُ ابْنِ نَافِعٍ: يَرْوِيهِ عَنْ اللَّيْثِ، عَنْ عُمَيْرَةَ بْنِ أَبِي نَاجِيَةَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَذِكْرُ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: لَيْسَ بِمَحْفُوظٍ وَهُوَ مُرْسَلٌ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص ایک سفر میں نکلے تو نماز کا وقت آ گیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر وقت کے اندر ہی انہیں پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے نماز اور وضو دونوں کو دوہرایا، اور دوسرے نے نہیں دوہرایا، پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی: ”تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہیں کافی ہو گئی“، اور جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی تھی اس سے فرمایا: ”تمہارے لیے دوگنا ثواب ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن نافع کے علاوہ دوسرے لوگ اس حدیث کو لیث سے، وہ عمیر بن ابی ناجیہ سے، وہ بکر بن سوادہ سے، وہ عطاء بن یسار سے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (مرسلاً) روایت کرتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ذکر محفوظ نہیں ہے، یہ مرسل ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الغسل والتیمم 27 (433) (تحفة الأشراف: 4176، 19089، 16599)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطھارة 64 (771) (صحیح)» (اس کا مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے کیونکہ عبداللہ بن نافع کے حفظ میں تھوڑی سی کمزوری ہے اور دیگر لوگوں نے اس کو مرسلاً ہی روایت کیا ہے)
Abu Saeed al-Khudri said: Two persons set out on a journey. Meanwhile the time of prayer came and they had no water. They performed tayammum with clean earth and prayed. Later on they found water within the time of the prayer. One of them repeated the prayer and ablution but the other did not repeat. Then they came to the Messenger of Allah ﷺ and related the matter to him. Addressing himself to the one who did not repeat, he said: You followed the sunnah (model behavior of the Prophet) and your (first) prayer was enough for you. He said to the one who performed ablution and repeated: For you there is the double reward. Abu Dawud said: Besides Ibn Nafi this is transmitted by al-Laith from Umairah bin Abi Najiyyah from Bakr bin Sawadah on the authority of Ata bin Yasar from the Prophet ﷺ. Abu Dawud said: The mention of (the name of the Companion) Abu Saeed in this tradition is not guarded. This is a mural tradition (i. e. the Successor Ata bin Yasar directly narrates it from the Prophet, leaving the name of the Companion in the chain. )
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 338
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (533)
(مرفوع) حدثنا ابو توبة الربيع بن نافع، اخبرنا معاوية، عن يحيى، اخبرنا ابو سلمة بن عبد الرحمن، ان ابا هريرة اخبره، ان عمر بن الخطاب بينا هو يخطب يوم الجمعة، إذ دخل رجل، فقال عمر: اتحتبسون عن الصلاة؟ فقال الرجل: ما هو إلا ان سمعت النداء فتوضات، فقال عمر: والوضوء ايضا، او لم تسمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا اتى احدكم الجمعة فليغتسل". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ، عَنْ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ، فَقَالَ عُمَرُ: أَتَحْتَبِسُونِ عَنِ الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ فَتَوَضَّأْتُ، فَقَالَ عُمَرُ: وَالْوُضُوءُ أَيْضًا، أَوَ لَمْ تَسْمَعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی ۱؎ داخل ہوا تو آپ نے کہا: کیا تم لوگ نماز (میں اول وقت آنے) سے رکے رہتے ہو؟ اس شخص نے کہا: جوں ہی میں نے اذان سنی ہے وضو کر کے آ گیا ہوں، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اچھا صرف وضو ہی؟ کیا تم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے نہیں سنا ہے: ”جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیئے کہ غسل کرے“۔
Abu Hurairah said: While Umar bin al-Khattab was making a speech on Friday (in the mosque), a man came in. Umar said: Are you detained from prayer ? The man said: As soon as I heard the call for prayer, I perfumed ablution. Then Umar said: Only ablution ? Did you not hear the Messenger of Allah ﷺ say: When any one of you comes for Friday (prayer) he should take a bath.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 340
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (882) صحيح مسلم (845)