Note: Copy Text and to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
125. باب التَّيَمُّمِ فِي الْحَضَرِ
باب: حضر (اقامت) میں تیمم کا بیان۔
حدیث نمبر: 331
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى الْبُرُلُّسِيُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَهُ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَائِطِ فَلَقِيَهُ رَجُلٌ عِنْدَ بِئْرِ جَمَلٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الْحَائِطِ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْحَائِطِ ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجُلِ السَّلَامَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاخانہ سے فارغ ہو کر آئے تو بئر جمل کے پاس ایک آدمی کی ملاقات آپ سے ہو گئی، اس نے آپ کو سلام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس آئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دیوار پر مارا پھر اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے سلام کا جواب دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 8533) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
وحسنه المنذري
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 331 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 331  
331۔ اردو حاشیہ:
مذکورہ دو روایات میں سے بھی دو مرتبہ ہاتھ مارنے والی روایت منکر اور ضعیف ہے اور ایک مرتبہ ہاتھ مارنے والی صحیح، اس لیے قابل عمل حدیث یہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 331   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 37  
´پیشاب کرنے والے کو سلام کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے، تو اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 37]
37۔ اردو حاشیہ:
➊ نجاست والی حالت میں اللہ کا ذکرمناسب نہیں، اس لیے پیشاب اور پاخانہ کرتے ہوئے سلام کا جواب دینا اور ذکر و اذکار کرنا درست نہیں۔ جب وہ جواب نہیں دے سکتا تو اسے سلام بھی نہیں کہنا چاہیے، گویا جس حالت میں سلام کا جواب دینا منع ہے اس حالت میں اسے سلام کہنا بھی درست نہیں، سوائے حالت نماز کے کہ اس میں ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دینا مسنون ہے۔
➋ اہل علم فرماتے ہیں: جس طرح قضائے حاجت کے وقت سلام کا جواب دینا درست نہیں اسی طرح اس حالت میں چھینک مارنے والے کا جواب دینا یا خود الحمد للہ کہنا اور اذان کا جواب دینا بھی درست نہیں۔ ایسے ہی حالت جماع میں ان باتوں سے رکے رہنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 37   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 90  
´بغیر وضو سلام کا جواب دینے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 90]
اردو حاشہ:
1؎:
اور یہی راجح ہے کہ آپ ﷺ پیشاب کی حالت میں ہونے کی وجہ سے جواب نہیں دیا،
نہ کہ وضو کے بغیر سلام کا جواب جائز نہیں،
اور جن حدیثوں میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فراغت کے بعد وضو کیا اور پھر آپ نے جواب دیا تو یہ استحباب پر محمول ہے،
نیز یہ بات آپ کو خاص طور پر پسند تھی کہ آپ اللہ کا نام بغیر طہارت کے نہیں لیتے تھے،
اس حدیث سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پائخانہ پیشاب کرنے والے پر سلام ہی نہیں کرنا چاہئے،
یہ حکم وجوبی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 90   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 823  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص گزرا، جبکہ رسول اللہ ﷺ پیشاب کر رہے تھے تو اس نے سلام کہا، آپﷺ نے اسے سلام کا جواب نہ دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:823]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے پیشاب سے فراغت کے بعد سلام کہا تھا لیکن آپﷺ نے عدم طہارت کی بنا پر جواب نہیں دیا،
بول و براز کی حالت میں سلام کہنا اور اس کا جواب دینا آداب واخلاق کے منافی ہے،
امام ابو حنیفہ کے نزدیک موذن،
نمازی،
قاری اور خطیب سلام کے جواب دینے کا پابند نہیں دل میں جواب دے لے۔
امام محمد کے نزدیک فراغت کے بعد جواب دے۔
اور امام ابو یوسف کے نزدیک جواب نہیں دے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 823