(مرفوع) حدثنا موسى بن عبد الرحمن الانطاكي، حدثنا محمد بن سلمة، عن الزبير بن خريق، عن عطاء، عن جابر، قال: خرجنا في سفر فاصاب رجلا منا حجر فشجه في راسه ثم احتلم، فسال اصحابه، فقال: هل تجدون لي رخصة في التيمم؟ فقالوا: ما نجد لك رخصة وانت تقدر على الماء، فاغتسل فمات. فلما قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم اخبر بذلك، فقال:" قتلوه قتلهم الله، الا سالوا إذ لم يعلموا، فإنما شفاء العي السؤال، إنما كان يكفيه ان يتيمم ويعصر او يعصب شك موسى على جرحه خرقة ثم يمسح عليها ويغسل سائر جسده". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ خُرَيْقٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: خَرَجْنَا فِي سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّهُ فِي رَأْسِهِ ثُمَّ احْتَلَمَ، فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ: هَلْ تَجِدُونَ لِي رُخْصَةً فِي التَّيَمُّمِ؟ فَقَالُوا: مَا نَجِدُ لَكَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَى الْمَاءِ، فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ. فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُخْبِرَ بِذَلِكَ، فَقَالَ:" قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ، أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا، فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ أَوْ يَعْصِبَ شَكَّ مُوسَى عَلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهَا وَيَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے، تو ہم میں سے ایک شخص کو ایک پتھر لگا، جس سے اس کا سر پھٹ گیا، پھر اسے احتلام ہو گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا: کیا تم لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت پاتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم تمہارے لیے تیمم کی رخصت نہیں پاتے، اس لیے کہ تم پانی پر قادر ہو، چنانچہ اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا، پھر جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ ان کو مارے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کیوں نہیں پوچھ لیا؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے، اسے بس اتنا کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا (یہ شک موسیٰ کو ہوا ہے)، پھر اس پر مسح کر لیتا اور اپنے باقی جسم کو دھو ڈالتا“۔
وضاحت: بغیر علم کے فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ چاہیے کہ اصحاب علم سے مراجعہ کیا جائے۔ زخم پر پٹی باندھ کر مسح کیا جائے اور اس مسح کے لیے موزوں والی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے وضو کیا ہو یا وقت متعین ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 2413) (حسن)» ( «إنما كان يكفيه» یہ جملہ ثابت نہیں ہے)
Jabir said: We set out on a journey. One of our people was hurt by a stone, that injured his head. The then had a sexual dream. He asked his fellow travelers: Do you find a concession for me to perform tayammum? They said: We do not find any concession for you while you can use water. He took a bath and died. When we came to the Prophet ﷺ, the incident was reported to him. He said: They killed him, may Allah kill them! Could they not ask when they did not know ? The fire of ignorance is inquiry. It was enough for him to perform tayammum and to our some drops of water or bind a bandage over the wound (the narrator Musa was doubtful); then he should have wiped over it and washed the rest of his body.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 336
قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله إنما كان يكفيه
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (572) الزبير بن خريق: وثقه ابن حبان وحده،وضعفه الدارقطني فحديثه ضعيف،وقال أبو داود في حديثه: ”ليس بالقوي‘‘ وقال ابن حجر: ’’لين الحديث‘‘ (تقريب: 1994) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 26
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 336
فائدہ: الزبیر بن خریق کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس مفہوم کی صحیح حدیث کے لیے دیکھئے حدیث مشکوۃ المصابیح [532] لیکن اس میں یہ اضافہ نہیں ہے کہ ”اس کے لیے یہی کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا، پھر اس پر مسح کرتا اور (باقی) سارے جسم کو دھو لیتا۔“ ان الفاظ کے علاوہ باقی حدیث ثابت ہے۔ جس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں: ➊ بغیر علم کے فتویٰ دینا جائز نہیں ہے۔ ➋ بغیر علم کے دیئے گئے فتویٰ کا وبال مفتی پر ہے۔ ➌ اگر کسی مسئلے کا علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لینا چاہئیے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ»[16-النحل:43] ”اگر تم نہیں جانتے تو ذکر والوں (اہل علم) سے پوچھ لو۔“ ➍ جہالت کے اندھیرے علم کے نور ہی سے چھٹتے ہیں۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 336
336۔ اردو حاشیہ: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک اس کا آخری حصہ ”اس شخص کے لیے۔۔۔۔۔ سے تا آخر“ ضعیف ہے، باقی روایت حسن ہے۔ اگلی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 336
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 116
´زخمی کا تیمم کرنا` «. . . وعن جابر رضي الله عنه في الرجل الذي شج فاغتسل فمات: إنما كان يكفيه ان يتيمم ويعصب على جرحه خرقة ثم يمسح عليها ويغسل سائر جسده . . .» ”. . . سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس شخص کے بارے میں جس کے سر پر زخم آیا تھا اور اسی حالت میں اس نے غسل کر لیا اور وفات پا گیا، کہ اسے تو تیمم کر لینا ہی کافی تھا۔ اپنے زخم پر پٹی باندھ کر مسح کرتا اور باقی بدن کو دھو لیتا . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 116]
لغوی تشریح: «شُجَّ» «اَلشَّجَ» سے ماخوذ ہے اور یہ صیغہ مجہول ہے۔ سر میں جو زخم آئے اسے «شج» کہتے ہیں۔ امام ابوداود رحمہ اللہ نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے اس واقعے کو بیان کیا ہے کہ ہم ایک سفر میں نکلے۔ ہم سے ایک آدمی کے سر پر پتھر لگا اور وہ زخمی ہو گیا۔ اسی حالت میں اسے احتلام ہو گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ آیا وہ میرے لیے تیمّم کی گنجائش و رخصت رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جب تمہیں پانی کے استعمال کی طاقت ہے تو ہم تیرے لیے کوئی رخصت نہیں پاتے۔ اپنے ساتھیوں کے کہنے پر اس نے غسل کر لیا اور فوت ہو گیا۔ جب ہم واپس آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے فوت ہونے کی اطلاع دی۔ (اور سارا واقعہ بیان کیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا۔ اللہ کی مار ہو ان پر۔ جب انہیں مسئلے کی نوعیت کا علم نہیں تھا تو انہوں نے دریافت کیوں نہیں کیا۔ بےخبری اور عدم واقفیت کا علاج، سوال کرنا اور دریافت کرنا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ بالا ارشاد فرمایا: ”اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ تیمّم کر لیتا اور اپنے۔۔۔ الخ۔“ «يُعَصِّبُ» «تعصيب» سے ماخوذ ہے۔ یعنی پٹی کو مضبوطی سے باندھنا۔ زخمی جگہ پر پٹی وغیرہ باندھنے سے پہلے تیمّم کرنا جنابت کا اثر زائل کرنے کے لیے ہے جیسا کہ موزے پہننے سے پہلے پاؤں دھونا طہارت کے لیے ہوتا ہے تاکہ حالت طہارت میں موزے پہنے جائیں اور پھر ان پر مسح کیا جا سکے۔ «وَفِيهِ اخْتِلَافٌ عَلٰي رَاوِيهِ» اس کے راوی، یعنی عطاء میں اختلاف ہے کہ وہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔ ایک نسخے میں «عَلٰي رُوَاتِهِ» بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عطاء جو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ان کے نیچے، یعنی عطاء سے نقل کرنے میں ان کے اصحاب و تلامذہ کے متعلق ان کے شاگردوں میں یہ اختلاف ہے۔
فائدہ: ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ مکمل روایت کو ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے حدیث کے آخری حصے «إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ . . . إلخ» کو ضعیف قرار دیا ہے، باقی روایت کو حسن کہا ہے۔ اس کی تائید سنن ابوداود کی روایت [337] سے ہوتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 116