حدثني زهير بن حرب ، ومحمد بن عبد الله بن نمير ، واللفظ لزهير، قالا: حدثنا القاسم بن مالك ، عن عاصم بن كليب ، عن ابي بردة ، قال: دخلت على ابي موسى وهو في بيت بنت الفضل بن عباس، فعطست فلم يشمتني، وعطست فشمتها، فرجعت إلى امي، فاخبرتها فلما جاءها، قالت: عطس عندك ابني فلم تشمته، وعطست فشمتها، فقال: إن ابنك عطس فلم يحمد الله فلم اشمته، وعطست فحمدت الله، فشمتها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا عطس احدكم فحمد الله، فشمتوه فإن لم يحمد الله فلا تشمتوه ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى وَهُوَ فِي بَيْتِ بِنْتِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَعَطَسْتُ فَلَمْ يُشَمِّتْنِي، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى أُمِّي، فَأَخْبَرْتُهَا فَلَمَّا جَاءَهَا، قَالَتْ: عَطَسَ عِنْدَكَ ابْنِي فَلَمْ تُشَمِّتْهُ، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَّهَا، فَقَالَ: إِنَّ ابْنَكِ عَطَسَ فَلَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ فَلَمْ أُشَمِّتْهُ، وَعَطَسَتْ فَحَمِدَتِ اللَّهَ، فَشَمَّتُّهَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَحَمِدَ اللَّهَ، فَشَمِّتُوهُ فَإِنْ لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ فَلَا تُشَمِّتُوهُ ".
ابو بردہ سے روایت ہے کہا: میں (اپنے والد) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا وہ اس وقت حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے گھر تھے۔مجھے چھینک آئی تو انھوں نے جواب میں دعانہیں دی اور اس (فضل رضی اللہ عنہ کی بیٹی) کو چھینک آئی تو اس کو انھوں نے جواب میں دعا دی میں اپنی والدہ کے پاس گیا اور انھیں بتا یا جب وہ (میرے والد) ان (میری والدہ) کے پاس آئے تو انھوں نے کہا: تمھارے پاس میرے بیٹے کو چھینک آئی تو تم نے جواب میں دعا نہیں دی۔اور ان (فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کی بیٹی) کو چھینک آئی تو تم نے جواب میں دعا دی۔ انھوں نے کہا: تمھارے بیٹے کو چھینک آئی تو اس نے الحمد اللہ نہیں کہا: اس لیےمیں نے جواب نہیں دیا اس (خاتون) کو چھینک آئی تو انھوں نے الحمد اللہ کہا: اس لیے میں نےان کو جواب میں دعا دی۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: آپ فرماتے تھے: "جب تم میں سےکسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد اللہ کہے تو اس کو جواب میں دعا دواور اگر وہ الحمد اللہ نہ کہے تو دعا نہ دو۔
حضرت ابوبردہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،میں (اپنے والد)حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا وہ اس وقت حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کے گھر تھے۔مجھے چھینک آئی تو انھوں نے جواب میں دعانہیں دی اور اس (فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی)کو چھینک آئی تو اس کو انھوں نے جواب میں دعا دی میں اپنی والدہ کے پاس گیا اور انھیں بتا یا جب وہ(میرے والد)ان (میری والدہ)کے پاس آئے تو انھوں نے کہا:تمھارے پاس میرے بیٹے کو چھینک آئی تو تم نے جواب میں دعا نہیں دی۔اور ان (فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی)کو چھینک آئی تو تم نے جواب میں دعا دی۔ انھوں نے کہا:تمھارے بیٹے کو چھینک آئی تو اس نے الحمد اللہ نہیں کہا:اس لیےمیں نے جواب نہیں دیا اس (خاتون)کو چھینک آئی تو انھوں نے الحمد اللہ کہا:اس لیے میں نےان کو جواب میں دعا دی۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا:آپ فرماتے تھے:"جب تم میں سےکسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد اللہ کہے تو اس کو جواب میں دعا دواور اگر وہ الحمد اللہ نہ کہے تو دعا نہ دو۔
ایاس بن سلمہ بن اکوع نے مجھے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے ان سے حدیث بیان کی، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: آپ کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ نے اسے دعا دی یَرْحَمُکَ اللَّہُ اللہ تم پر رحم فرمائے۔"اسے دوسری چھینک آئی تو آپ نے فرمایا "اس شخص کو زکام ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا:آپ کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ نے اسے دعا دی "يَرْحَمُكَ اللَّهُ" اللہ تم پر رحم فرمائے۔"اسے دوسری چھینک آئی تو آپ نے فرمایا "اس شخص کو زکام ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جما ئی شیطان کی طرف سے ہے لہٰذاتم میں سے جب کسی شخص کو جمائی آئے تو وہ جہاں تک اس کو روک سکے روکے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جمائی شیطانی چیزہے،تو جب تم میں سےکوئی کسی کو جمائی آئے،تو مقدور بھر(جہاں تک ہوسکے) اس کو روکے۔"
بشر بن مفضل نے کہا: ہمیں سہیل بن ابی صالح نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے بیٹے (عبدالرحمان) سے سنا وہ میرے والد کو اپنے والد سے حدیث بیان کر رہے تھے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی شخص کو جمائی آئے تو وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کو روکے کیونکہ (ایسا نہ کرنے سے) شیطان اندر داخل ہو تا ہے۔"
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے،تو وہ اپنے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دے،کیونکہ کھلے منہ میں شیطان داخل ہوجاتاہے۔"
عبد العزیز نے سہیل سے انھوں نے عبد الرحمان بن ابی سعید سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کوجمائی آئے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے کیونکہ شیطان اندر داخل ہوتا ہے۔"
حضرت ابوسعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے،تو وہ اپنے ہاتھ سے اس کوروکے،کیونکہ شیطان داخل ہوجاتاہے۔"
سفیان نے سہیل بن ابی صالح سے انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی شخص کو نماز میں جمائی آئے تو وہ جتنا اس کے بس میں ہواس کو روکے کیونکہ شیطان اندر داخل ہوتا ہے۔"
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے،تو مقدور بھر اس کو روکے،کیونکہ(منہ میں)شیطان داخل ہوجاتا ہے۔"
جریر نے سہیل سے، انھوں نے اپنے والد اور حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے، انھوں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (آگے) بشراور عبدالعزیز کی حدیث کے مانند۔
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو آگ کے شعلے سے اورآدم علیہ السلام کو اس (مادے) سے پیدا کیا گیا ہے جس کو تمہارے لئے جان کیا گیا ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"فرشتوں کو نور سے پیدا کیاگیا،جنوں کو آگ کے شعلہ سے اور آدم کو اس چیز سے پیداکیا گیا جو تمہیں بتادی گئی ہے،یعنی مٹی سے۔"
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن المثنى العنزي ، ومحمد بن عبد الله الرزي جميعا، عن الثقفي واللفظ لابن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا خالد ، عن محمد بن سيرين ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فقدت امة من بني إسرائيل لا يدرى ما فعلت، ولا اراها إلا الفار الا ترونها إذا وضع لها البان الإبل لم تشربه، وإذا وضع لها البان الشاء شربته "، قال ابو هريرة: فحدثت هذا الحديث كعبا، فقال: آنت سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قلت: نعم، قال: ذلك مرارا، قلت: ااقرا التوراة، وقال إسحاق في روايته: لا ندري ما فعلت.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، ومحمد بن عبد الله الرزي جميعا، عَنْ الثَّقَفِيِّ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا يُدْرَى مَا فَعَلَتْ، وَلَا أُرَاهَا إِلَّا الْفَأْرَ أَلَا تَرَوْنَهَا إِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الْإِبِلِ لَمْ تَشْرَبْهُ، وَإِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الشَّاءِ شَرِبَتْهُ "، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ كَعْبًا، فَقَالَ: آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ذَلِكَ مِرَارًا، قُلْتُ: أَأَقْرَأُ التَّوْرَاةَ، وقَالَ إِسْحَاقُ فِي رِوَايَتِهِ: لَا نَدْرِي مَا فَعَلَتْ.
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن مثنیٰ عنزی اور محمد بن عبداللہ رزی نے ہمیں ثقفی سے حدیث بیان کی، الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں۔کہا: ہمیں عبدالوہاب نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں خالد نے محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بنی اسرائیل کی ایک امت گم ہوگئی تھی، معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے اور مجھے اس کے سوا اور کوئی بات نظر نہیں آئی کہ وہ لوگ (یہی) چوہے ہیں۔ (انھوں نے مسخ ہوکریہ شکل اختیار کرلی ہے) تم دیکھتے نہیں کہ جب ان کے سامنے اونٹنی کا دودھ رکھا جائے تو (بنی اسرائیل کی طرح) وہ اس کو نہیں پیتے۔اگر ان کے لئے بکری کا دودھ رکھا جائے تو وہ اسے پی لیتے ہیں۔" حضرت ابو ہریرۃ نے کہا: میں نے یہ حدیث کعب (احبار) کو سنائی تو انھوں نے کہا: کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا؟میں نے کہا: انھوں نے باربار یہی کہا تو میں نے کہا: (نہیں تو) کیا میں تورات پڑھتا ہوں (کہ وہاں سے بیان کروں گا؟) اسحاق نے اپنی روایت میں کہا: "ہم نہیں جانتے ان کا کیابنا؟"
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بنی اسرائیل کی ایک امت گم ہوگئی تھی،معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے اور مجھے اس کے سوا اور کوئی بات نظر نہیں آئی کہ وہ لوگ(یہی) چوہے ہیں۔تم دیکھتے نہیں کہ جب ان کے سامنے اونٹنی کا دودھ رکھا جائے تووہ اس کو نہیں پیتے۔اگر ان کے لئے بکری کا دودھ رکھا جائے تو وہ اسے پی لیتے ہیں۔"حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:میں نے یہ حدیث کعب(احبار) کو سنائی تو انھوں نے کہا:کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا؟میں نے کہا:انھوں نے باربار یہی کہا تو میں نے کہا:(نہیں تو) کیا میں تورات پڑھتا ہوں۔اسحاق کی روایت میں "لايُدرٰي"کی جگہ"لاندري" ہے،ہم نہیں جانتے۔