حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جما ئی شیطان کی طرف سے ہے لہٰذاتم میں سے جب کسی شخص کو جمائی آئے تو وہ جہاں تک اس کو روک سکے روکے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جمائی شیطانی چیزہے،تو جب تم میں سےکوئی کسی کو جمائی آئے،تو مقدور بھر(جہاں تک ہوسکے) اس کو روکے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7490
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: فليكظم: اس کو روکے، كظم روکنے کو کہتے ہیں۔ فوائد ومسائل: جمائی بسیار خوری یا پر خوری اور کاہلی و سستی کی علامت ہے، اگر اس کو روکا نہ جائے، تو انسان کے منہ کی ہیئت و شکل بدنما نظر آتی ہے اور منہ کھلنے سے اس میں مکھی وغیرہ داخل ہوجاتی ہے، اس لیے اس کو ناپسندیدہ قرار دیاگیا ہے اوراسے روکنے کی تاکید کی گئی ہے، اس لیے شیطان کو خوش ہونے اور ہنسنےکا موقع نہیں دینا چاہیے، منہ کو بند کرلینا چاہیے، یا اس پر ہاتھ رکھ لینا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7490
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 194
´جمائی کا آنا شیطانی حرکت ہے` «. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: التثاؤب من الشيطان، فإذا تثاءب احدكم فليكظم ما استطاع . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جمائی کا آنا شیطانی حرکت ہے۔ تم سے اگر کسی کو جمائی آ جائے تو حتیٰ الوسع اسے روکنے کی کوشش کرے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 194]
� لغوی تشریح: «اَلتَّثَاؤُبُ» ہمزہ کے ساتھ ہے۔ «التثاؤب» کے معنی ہیں: دل کے عضلات میں جو بخارات اور گیسیں جمع ہو جاتی ہیں ان کو خارج کرنے کے لیے منہ کا کھولنا تاکہ وہ خارج ہو جائیں۔ «مِنَ الشَّيْطَانِ» جمائی شیطان کی طرف سے ہے کیونکہ جمائی، معدے کے خوب پر ہونے، بدن کے بوجھل اور بھاری ہونے اور حواس کے مکدر ہونے، جو سوئے فہم، سستی اور نیند کا موجب ہوتا ہے، کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ سب چیزیں شیطان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں، اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جمائی شیطانی حرکت ہے۔ «فَلْيَكْظِمْ» یائے مضارع پر فتحہ اور ”خا“ کے نیچے کسرہ ہے یعنی اس کو روکے، باز رکھے، اسے روکنے کے لئے دونوں ہونٹوں کو بند رکھے یا منہ پر ہاتھ رکھ لے۔
فوائد و مسائل: ➊ جمائی سستی، کاہلی اور معدہ کو خوب پر کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں بندے کو دیکھ کر شیطان خوش ہوتا ہے۔ ➋ صحیح بخاری میں ہے کہ ”ھا“ نہ کہے، یعنی آوز نہ نکالے، اس سے شیطان خوش ہوتا ہے۔ [صحيح البخاري، الادب، باب ما يستحب من العطاس، وما يكره من التثاؤب، حديث: 6223]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 194
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث968
´نماز میں کون سی چیز مکروہ ہے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے اور آواز نہ کرے، اس لیے کہ شیطان اس سے ہنستا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 968]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1)(لایعوی) کا مطلب ہے کہ جانور (کتے یا بھڑیے وغیرہ) کی طرح آواز نہ نکالے۔ یہ لفظ بھی صحیح سند سے مروی نہیں لیکن بحیثیت مجموعی حدیث کامفہوم صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
(2) جمائی کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ نامناسب آواز نہ نکلے ارشاد نبوی ہے۔ ”جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ اسے جہاں تک ہوسکے ر وک دے کیونکہ جب وہ (جمائی لینے والا) ”ہا“ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔“(صحیح البخاري، الأدب باب إذا تثاءب فلیضع یدہ علی فیه، حدیث: 6226)
(3) شیطان کے ہنسنے کی وجہ یا تو انسان کا مذاق اڑانا ہے۔ یا وہ خوشی سے ہنستا ہے۔ کیونکہ جمائی سستی اور کاہلی کی علامت ہے جو شیطان کو پسند ہے۔ اس لئے کہ کاہلی کی وجہ سے انسان بہت سی نیکیوں سے محروم رہ جاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 968
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 370
´نماز میں جمائی لینے کی کراہت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں جمائی آنا شیطان کی طرف سے ہے، جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 370]
اردو حاشہ: 1؎: اور اگر روکنا ممکن نہ ہو تو منہ پر ہاتھ رکھے، کہتے ہیں: ہاتھ رکھنا بھی اسے روکنے کی کوشش ہے، جس کا حکم حدیث میں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 370
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3289
3289. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جمائی لینا، شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کوئی شخص جمائی لے تو جس قدر ممکن ہو اسے روکے کیونکہ جب کوئی (جمائی کے وقت) ہا، ہا کرتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3289]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ جمائی لیتے وقت حتی الامکان اپنے منه کو بند کرکے آواز نہ نکلنے دے کیوں کہ یہ سستی کی علامت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3289
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3289
3289. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جمائی لینا، شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کوئی شخص جمائی لے تو جس قدر ممکن ہو اسے روکے کیونکہ جب کوئی (جمائی کے وقت) ہا، ہا کرتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3289]
حدیث حاشیہ: جمائی کی حقیقت سانس ہے جس سے منہ زور سے کھلنے لگتا ہے تاکہ وہ جبڑوں کے درمیان رُکے ہوئے بخارات کو نکالے جو معدے کے زیادہ بھر جانے اور بدن کے بھاری ہونے سے پیدا ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سبب سے نفرت دلائی جو اس کے پیدا ہونے کاذریعہ ہے۔ یاد رہے کہ کھانے پینے میں وسعت کی وجہ سے انسان کاجسم بوجھل، پھر وہ سستی کاشکار ہوجاتاہے۔ اس کے بعد اللہ کی عبادت بارگراں محسوس ہوتی ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے شیطان کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ وہ نفس کی خواہشات وشہوت کی طرف مائل کرتا ہے۔ جب انسان اس قسم کی حالت سے دوچار ہوتواسے حتی المقدور روکے، اگرنہ رکے تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے، منہ کھلا چھوڑ کر جمائی لینا اور ہا، ہا کی آوازیں نکالنا انسانی وقار کے منافی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3289