عکرمہ بن عمار نے سالم سے اور انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا: "کفر کاسر ادھر سے ظاہر ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہوتاہے۔"آپ کی مراد مشرق (کی سمت) سے تھی۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر سے نکلے اور فرمایا:" کفر کی چوٹی،ادھر ہے جہاں سے شیطان نمودار ہوتا ہے۔"یعنی مشرق سے۔
حنظلہ نے کہا: میں نے سالم سے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرکے فرماتے ہوئے سنا: "یاد رکھو!فتنہ اس طرف سے ہے۔" یاد رکھو!فتنہ اسی طرف سے ہے۔تین بار (فرمایا) "جہاں سے شیطان کا سینگ طلو ع ہوتا ہے۔"آپ کی مراد مشرق (کی سمت) سے تھی۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،آپ اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر رہے تھے۔" خبردار!فتنہ ادھر ہے، خبردار!فتنہ ادھر ہے،"تین بار فرمایا:" جہاں سے شیطان کے دو سینگ نمو دار ہوتے ہیں۔"
حدثنا عبد الله بن عمر بن ابان ، وواصل بن عبد الاعلى ، واللفظ لابن ابان، واحمد بن عمر الوكيعي ، قالوا: حدثنا ابن فضيل ، عن ابيه ، قال: سمعت سالم بن عبد الله بن عمر ، يقول: يا اهل العراق ما اسالكم عن الصغيرة، واركبكم للكبيرة، سمعت ابي عبد الله بن عمر ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الفتنة تجيء من هاهنا، واوما بيده نحو المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، وانتم يضرب بعضكم رقاب بعض، وإنما قتل موسى الذي قتل من آل فرعون خطا، فقال الله عز وجل له وقتلت نفسا فنجيناك من الغم وفتناك فتونا سورة طه آية 40 "، قال احمد بن عمر في روايته: عن سالم، لم يقل سمعت.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ ، وَوَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبَانَ، وَأَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الْوَكِيعِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ مَا أَسْأَلَكُمْ عَنِ الصَّغِيرَةِ، وَأَرْكَبَكُمْ لِلْكَبِيرَةِ، سَمِعْتُ أَبِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْفِتْنَةَ تَجِيءُ مِنْ هَاهُنَا، وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ، وَأَنْتُمْ يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، وَإِنَّمَا قَتَلَ مُوسَى الَّذِي قَتَلَ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ خَطَأً، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا سورة طه آية 40 "، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ فِي رِوَايَتِهِ: عَنْ سَالِمٍ، لَمْ يَقُلْ سَمِعْتُ.
عبداللہ بن عمر بن ابان، واصل بن عبدالاعلیٰ اور احمد بن عمر وکیعی نے ہمیں حدیث بیان کی، الفاظ ابن ابان کے ہیں۔انھوں نے کہا: ہمیں ابن فضیل نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے سالم بن عبداللہ بن عمرسے سنا، کہہ رہے تھے: " اے عراق والو! میں تم سے چھوٹے گناہ نہیں پوچھتا نہ اس کو پوچھتا ہوں جو کبیرہ گناہ کرتا ہو میں نے اپنے والد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ فتنہ ادھر سے آئے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا، جہاں شیطان کے دونوں سینگ نکلتے ہیں۔ اور تم ایک دوسرے کی گردن مارتے ہو (حالانکہ مومن کی گردن مارنا کتنا بڑا گناہ ہے) اور موسیٰ علیہ السلام فرعون کی قوم کا ایک شخص غلطی سے مار بیٹھے تھے (نہ بہ نیت قتل کیونکہ گھونسے سے آدمی نہیں مرتا)، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”تو نے ایک خون کیا، پھر ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور تجھ کو آزمایا جیسا آزمایا تھا“۔
فضیل رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر کو یہ فرماتے ہوئےسنا:"اے اہل عراق (تم کسی قدرزیرہ چھانتے ہو اور اونٹ نگلتے ہو) تم چھوٹے گناہوں کو کریدتے ہو اور بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہو میں نے اپنے باپ عبد اللہ بن عمر کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"فتنہ ادھر سےآئےگا۔"آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔" جہاں سے شیطان کے دو سینگ نمو دار ہوتے ہیں۔" اور تم ایک دوسرے کی گردنیں اڑاتے ہو اور موسیٰ ؑ نے تو بس ایک فرعونی کو چوک کر قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا:"اور تونے ایک نفس کو قتل کیا تو ہم نے تجھے اس غم سے نجات دی اور ہم نے تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا۔"(طہ آیت نمبر40۔)احمد بن عمر کی روایت میں سالم نے سمعت نہیں کہا۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ دوس کی عورتوں کے سرین، ذوالخلصہ کے ارد گرد (دوران طواف) منکیں گے۔" وہ (ذوالخلصہ) تبالہ میں ایک بت تھا، جاہلی دور میں قبیلہ دوس اس کی پوجا کیاکرتا تھا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تک دوس قبیلہ کی عورتوں کے سیرین ذوالخلصہ کے گرد (طواف کرنے میں)حرکت کرنے نہیں لگیں گی۔ قیامت قائم نہیں ہو گی۔"ذوالخلصہ تبالہ مقام میں بت تھا، جس کی جاہلیت کے دورمیں اس بندگی کرتے تھے۔
حدثنا ابو كامل الجحدري ، وابو معن زيد بن يزيد واللفظ لابي معن قالا: حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا عبد الحميد بن جعفر ، عن الاسود بن العلاء ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يذهب الليل والنهار حتى تعبد اللات والعزى "، فقلت: يا رسول الله، إن كنت لاظن حين انزل الله هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون سورة التوبة آية 33، ان ذلك تاما، قال: " إنه سيكون من ذلك ما شاء الله، ثم يبعث الله ريحا طيبة فتوفى كل من في قلبه مثقال حبة خردل من إيمان، فيبقى من لا خير فيه فيرجعون إلى دين آبائهم "،حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، وَأَبُو مَعْنٍ زَيْدُ بْنُ يَزِيدَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي مَعْنٍ قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَذْهَبُ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى تُعْبَدَ اللَّاتُ وَالْعُزَّى "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ سورة التوبة آية 33، أَنَّ ذَلِكَ تَامًّا، قَالَ: " إِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَوَفَّى كُلَّ مَنْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَيَبْقَى مَنْ لَا خَيْرَ فِيهِ فَيَرْجِعُونَ إِلَى دِينِ آبَائِهِمْ "،
خالد بن حارث نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبدالحمید بن جعفر نے اسود بن علاء سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن اس وقت تک ختم نہ ہوں گے جب تک لات اور عزیٰ (جاہلیت کے بت) پھر نہ پوجے جائیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں تو سمجھتی تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو سب دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرک لوگ برا مانیں“کہ یہ وعدہ پورا ہونے والا ہے (اور اسلام کے سوا اور کوئی دین غالب نہ رہے گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا، ایسا ہی ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا کہ جس سے ہر مومن مر جائے گا، یہاں تک کہ ہر وہ شخص بھی جس کے دل میں دانے کے برابر بھی ایمان ہے اور وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں بھلائی نہیں ہو گی۔ پھر وہ لوگ اپنے (مشرک) باپ دادا کے دین پر لوٹ جائیں گے۔
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"شب و روز اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے جب تک لات اور عزیٰ کی بندگی شروع نہیں ہو جائے گی۔"تو میں نے عرض کیا اےاللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر دی،"اللہ ہی وہ ذات ہے، جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو یہ چیز ناگوار گزرے۔"تو میں نے خیال کر لیا ہے یہ وعدہ مکمل ہے (اسلام کے سوا اب کوئی دین غالب نہیں ہو گا۔"آپ نے فرمایا:"جب تک اللہ کو منظور ہوگا یہ غالب ہی رہے گا پھر اللہ ایک پاکیزہ عمدہ ہوا بھیجے گا تو ہر انسان کی روح قبض ہو جائے گی۔جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا صرف وہی لوگ رہ جائیں گے جو ایمان سے خالی ہوں گے چنانچہ وہ آبائی دین کی طرف لوٹ جائیں گے۔"
اعرج نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا: کاش!اس کی جگہ میں ہوتا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت قائم نہیں ہو گی،حتی کہ ایک شخص دوسرے شخص کی قبر سے گزرے گا۔ تو کہے گا، اے کاش، اس کی جگہ میں ہوتا۔
ابو حازم نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!دنیا اس وقت تک رخصت نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ایک شخص (کسی کی) قبر کے پاس سے گزرے تواس پر لوٹ پوٹ ہوگا اور کہے گا: کاش!اس قبر و الے کی جگہ میں ہوتا اور اس کے پاس دین نہیں ہوگا، بس آزمائش ہوگی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے،دنیا ختم نہیں ہوگی، حتی کہ ایک آدمی قبر سے گزرے گا تو اس پر لوٹ پوٹ ہو گا اور کہے گا۔اے کاش اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا اور یہ دین کی خاطر نہیں محض مصیبت کی بنا پر ہوگا۔"
ابن ابی عمر مکی نے ہمیں یہ حدیث بیان کی، کہا: ہمیں مروان نے یزید سے۔اور وہ ابن کیسان ہے۔حدیث بیان کی، انھوں نے ابو حازم سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!لوگوں پر ایک ایسا زمانے آئے گا کہ قاتل کو پتہ نہیں ہوگا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور نہ مقتول کو پتہ ہوگا کہ اسے کس بات پر قتل کیا گیا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس ذات کی قسم! جس کےہاتھ میں میری جان ہے لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا،قاتل کو پتہ نہیں ہوگا، اس نے قتل کیوں،کس سبب کی بنا پر کیا ہے اور نہ مقتول کو پتہ ہوگا، اسے اس وجہ سے قتل کیا گیا ہے۔
عبداللہ بن عمر بن ابان اور واصل بن عبدالاعلیٰ نے ہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں محمد بن فضیل نے ابو اسماعیل اسلمی سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو حازم سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگوں پر ایسا دن آجائے جس میں قاتل کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو یہ پتہ نہ ہو کہ اسے کیوں قتل کیا گیا۔"عرض کی گئی یہ کیسے ہوگا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"اندھا دھند خونریزی ہوگی، قاتل اور مقتول دونوں (جہنم کی) آگ میں جائیں گے۔" ابن ابان کی روایت میں (اس طرح) ہے: کہا: وہ یزید بن کیسان ہے (جس کے بارے میں کہا گیا ہے) ابو اسماعیل سے روایت ہے (اس کا پورا نام ابو اسماعیل یزید بن کیسان ہے) انھوں نے (اس کی نسبت) "اسلمی" کا ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب عبد اللہ بن عمر بن ابان اور واصل بن عبدالاعلیٰ سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہےاس کی قسم! دنیا فنا نہیں ہو گی،حتی کہ لوگوں پر ایسا وقت آئے گا،قاتل کو پتہ نہیں ہوگا، اس نے قتل کیوں کیا ہے اور نہ مقتول کوعلم ہوگا،اسے کیوں قتل کیا گیا ہے:" تو پوچھا گیا، یہ کیوں کر ہو گا؟آپ نے فرمایا:"قتل وغارت عام ہوگی، قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہوں گے۔"(کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے قتل کے درپے تھے) ابن ابان کی روایت میں ہے، ابو اسماعیل سے مراد یزید بن کیسان ہے اور اس نے ابو اسماعیل کے بعد اسلمی نہیں کہا۔