قال الزهري، وحدثني حميد، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " دخلت امراة النار في هرة ربطتها، فلا هي اطعمتها ولا هي ارسلتها تاكل من خشاش الارض حتى ماتت هزلا "، قال الزهري: ذلك لئلا يتكل رجل ولا يياس رجل،قَالَ الزُّهْرِيُّ، وَحَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ هَزْلًا "، قَالَ الزُّهْرِيُّ: ذَلِكَ لِئَلَّا يَتَّكِلَ رَجُلٌ وَلَا يَيْأَسَ رَجُلٌ،
زہری نے کہا: اور حمید نے مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک عورت بلی کے معاملے میں جہنم میں ڈال دی گئی جسے اس نے باندھ رکھا تھا۔ اس نے نہ اس کو کھلایا، نہ اسے چھوڑا ہی کہ زمین کے چھوٹے چھوٹے جانور کھا لیتی، وہ لاغر ہو کر مر گئی۔" زہری نے کہا؛ یہ اس لیے (فرمایا کیا:) ہے کہ کوئی شخص نہ صرف (رحمت پر) بھروسہ کر لے اور نہ صرف مایوسی ہی کو اپنا لے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،" آپ نے فرمایا:"ایک عورت بلی کو باندھے رکھنے کے باعث آگ میں گئی، نہ تو اسے کھلایا اور نہ ہی اس نے اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی کہ وہ کمزوری سے مر گئی،"زہری نے کہا، میں نے یہ دو حدیثیں اس لیے سنائی ہیں تاکہ نہ تو کوئی انسان اللہ کی رحمت پر اعتماد کر کے گناہوں سے بے پرواہ ہو اور نہ ہی گناہوں کے سبب اللہ کی رحمت سے ناامید ہو۔
زبیدی نے مجھے حدیث سنائی کہ زہری نے کہا: مجھے حُمید بن عبدالرحمان بن عوف نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "ایک بندے نے اپنے آپ پر ہر طرح کی زیادتی کی۔" (آگے) معمر کی حدیث کی طرح ہے، اس قول تک: "پس اللہ نے اسے بخش دیا۔" اور انہوں نے بلی کے واقعے (کے بارے) میں عورت والی حدیث کا ذکر نہیں کیا۔ اور زُبیدی کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل نے ہر شے سے، جس نے اس (جلائے جانے والے شخص) کی کوئی بھی چیز لی تھی، فرمایا: اس کا جو حصہ تیرے پاس ہے پورا واپس کر۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں،"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:"ایک بندے نے اپنے نفس پر زیادتی کی،"آگے مذکورہ بالا پہلی حدیث ہے، بلی والا واقعہ بیان نہیں کیا اور زبیدی کی حدیث میں ہے، اللہ عزوجل نے ہر اس چیز کو جس نے اس کا کوئی ذرہ بھی لیا تھا، کہا اس سے جو کچھ تونے لیا ہے، اس کو ادا کر۔"
حدثني عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، سمع عقبة بن عبد الغافر ، يقول: سمعت ابا سعيد الخدري يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " ان رجلا فيمن كان قبلكم راشه الله مالا وولدا، فقال لولده: لتفعلن ما آمركم به او لاولين ميراثي غيركم إذا انا مت، فاحرقوني واكثر علمي، انه قال: ثم اسحقوني واذروني في الريح، فإني لم ابتهر عند الله خيرا، وإن الله يقدر علي ان يعذبني، قال: فاخذ منهم ميثاقا، ففعلوا ذلك به وربي، فقال الله: ما حملك على ما فعلت؟، فقال مخافتك، قال: فما تلافاه غيرها "،حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَبْدِ الْغَافِرِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ رَجُلًا فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَاشَهُ اللَّهُ مَالًا وَوَلَدًا، فَقَالَ لِوَلَدِهِ: لَتَفْعَلُنَّ مَا آمُرُكُمْ بِهِ أَوْ لَأُوَلِّيَنَّ مِيرَاثِي غَيْرَكُمْ إِذَا أَنَا مُتُّ، فَأَحْرِقُونِي وَأَكْثَرُ عِلْمِي، أَنَّهُ قَالَ: ثُمَّ اسْحَقُونِي وَاذْرُونِي فِي الرِّيحِ، فَإِنِّي لَمْ أَبْتَهِرْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا، وَإِنَّ اللَّهَ يَقْدِرُ عَلَيَّ أَنْ يُعَذِّبَنِي، قَالَ: فَأَخَذَ مِنْهُمْ مِيثَاقًا، فَفَعَلُوا ذَلِكَ بِهِ وَرَبِّي، فَقَالَ اللَّهُ: مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟، فَقَالَ مَخَافَتُكَ، قَالَ: فَمَا تَلَافَاهُ غَيْرُهَا "،
شعبہ نے ہمیں قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے عقبہ بن عبدالغافر کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کر رہے تھے: "تم سے پہلے کے لوگوں میں سے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد سے نوازا تھا۔ اس نے اپنے بچوں سے کہا: ہر صورت وہی کچھ کرو گے جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں، یا میں اپنا ورثہ دوسروں کے سپرد کر دوں گا، جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دو۔۔ اور مجھے زیادہ یہ لگتا ہے کہ قتادہ نے کہا۔۔ پھر مجھے کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دو، پھر مجھے ہوا میں اڑا دو کیونکہ میں نے اللہ کے ہاں کوئی اچھائی ذخیرہ نہیں کی۔ اللہ مجھ پر پوری قدرت رکھتا ہے کہ مجھے عذاب دے۔ کہا: اس نے ان (اپنی اولاد) سے پختہ عہد و پیمان لیا، تو میرے رب کی قسم! انہوں نے اس کے ساتھ وہی کیا (جو اس نے کہا تھا۔) اللہ تعالیٰ نے پوچھا: تم نے جو کچھ کیا اس پر تمہیں کس نے اکسایا؟ اس نے کہا: تیرے خوف نے۔ فرمایا: پھر اسے اس کے سوا (جو وہ بھگت چکا تھا، یعنی لاش کا جلنا اور اللہ کے سامنے پیشی وغیرہ) اور کوئی عذاب نہ ہوا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ" تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کو اللہ نے مال اور اولاد سے نوازا تھا چنانچہ اس نے اپنی اولاد سے کہا، جو میں تمھیں حکم دینے والا ہوں، لازماً تم اس پر تم عمل پیرا ہو گے یا میں اپنی وراثت تمھارے سواکسی اورکو دے دوں گا، جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا راوی کہتا ہے میرا ظن غالب یہی ہے کہ اس نے کہا، پھر مجھے پیس ڈالنا اور مجھے ہوامیں اڑادینا کیونکہ میں نے اللہ کے ہاں کوئی نیکی نہیں بھیجی، ذخیرہ نہیں کی، کیونکہ اللہ مجھے عذاب دینے کی قدرت رکھتا ہے۔(اگر مجھے اسی حالت میں دفن کر دیا گیا) چنانچہ اس نے ان سے پختہ عہد لیا۔ سو انھوں نے اس کے ساتھ یہی سلوک کیا میرے رب کی قسم! تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا،جو کام تونے کیا ہے، اس پر تجھے کسی چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا،تیرے خوف نے تو اسے اس خوف کے سوا کسی اور چیز نہیں بچایا یعنی اس کے برے عملوں کا تدارک وازالہ خوف الٰہی نے کہا:"
سلیمان، شیبان بن عبدالرحمٰن اور ابوعوانہ سب نے قتادہ سے شعبہ کی سند کے ساتھ اسی کی حدیث کے مانند بیان کیا۔ شیبان اور ابوعوانہ کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں: "لوگوں میں سے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے بہت مال اور اولاد سے نوازا۔" اور تمیمی کی حدیث میں ہے: "اس نے اللہ کے پاس کوئی اچھائی جمع نہ کرائی" کہا کہ قتادہ نے اس کی یہ تشریح کی: اس نے اللہ کے پاس کوئی اچھائی ذخیرہ نہ کی۔ اور شیبان کی حدیث میں ہے: "بےشک اس نے، اللہ کی قسم! اللہ کے ہاں کوئی نیکی محفوظ نہ کرائی۔" اور ابوعوانہ کی حدیث میں ہے: "اس نے کچھ جمع نہ کیا" امتار میم کے ساتھ (یہ سب بولنے میں بھی ملتے جلتے الفاظ ہیں اور معنی میں بھی۔)
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں، شیبان اور ابو عوانہ کی روایت ہے، "لوگوں میں سے ایک آدمی کو اللہ نے بہت مال اور اولاد دی۔"اور تیمی کی حدیث ہے۔" کیونکہ اس نے اللہ کے ہاں کوئی نیکی ذخیرہ نہیں کی۔"قتادہ نے "لم يبتثر" کی تفسیر"لَم يَدَخِر" کی ہے یعنی جمع نہیں کیا اور شیبان کی حدیث ہے۔" کیونکہ اس نے اللہ کی قسم! اللہ کے ہاں کوئی نیکی جمع نہیں کی۔"اور ابو عوانہ کی روایت میں "ماابتَارَ"کی جگہ ہے۔" "وماامتَاَرَ" یعنی باقی جگہ میم ہے معنی ہر صورت میں ایک ہی ہے۔
عبدالاعلیٰ بن حماد نے مجھے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں حماد بن سلمہ نے اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے حدیث سنائی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: "ایک بندے نے گناہ کیا، اس نے کہا: اے اللہ! میرا گناہ بخش دے، تو (اللہ) تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا ہے، اس کو پتہ ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے، اس بندے نے پھر گناہ کیا تو کہا: میرے رب! میرا گناہ بخش دے، تو (اللہ) تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرا بندہ ہے، اس نے گناہ کیا ہے تو اسے معلوم ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ بخش دیتا ہے اور (چاہے تو) گناہ پر پکڑتا ہے۔ اس بندے نے پھر سے وہی کیا، گناہ کیا اور کہا: میرے رب! میرے لیے میرا گناہ بخش دے، تو (اللہ) تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا تو اسے معلوم ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور (چاہے تو) گناہ پر پکڑ لیتا ہے، (میرے بندے! اب تو) جو چاہے کر، میں نے تجھے بخش دیا ہے۔" عبدالاعلیٰ نے کہا: مجھے (پوری طرح) معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار فرمایا یا چوتھی بار: "جو چاہے کر۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل سے نقل کرتے ہوئے فرمایا:"ایک بندے نے گناہ کیا، پھر کہا، اے اللہ! میرا گناہ بخش دے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا، میرے بندے نے ایک گناہ کیا ہے اور اسے پتہ ہے، اس کا رب ہے جو گناہ بخش دیتا ہے اور گناہ پر پکڑ کرتا ہے، پھر اس نے دوبارہ گناہ کیا، چنانچہ کہا اے میرے رب!مجھے میرا گناہ بخش دے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے ایک گناہ کیا ہے اور اسے علم ہے، اس کا رب ہے جو گناہ بخش دیتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے،پھر اس نے سہ بارہ گناہ کیا اور عرض کیا، اے میرے رب! مجھے میرا گناہ بخش دے سو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے ایک گناہ کیا ہے اور اس نے جان لیا ہے، اس کا رب ہے جو گناہ بخش دیتا ہے، اس پر گرفت بھی کر سکتا ہے، جو چاہے عمل کر،(معافی مانگ)میں نے تجھے معافی دے دی۔"عبدالاعلیٰ کہتے ہیں،مجھے یاد نہیں ہے، آپ نے تیسری دفعہ کہا، یا چوتھی دفعہ " جو چاہے عمل کر۔"
ہمام نے کہا: ہمیں اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مدینہ میں ایک واعظ تھا جسے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کہا جاتا تھا، میں نے اسے کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "یقینا ایک بندے نے گناہ کیا" (آگے) حماد بن سلمہ کی حدیث کے مطابق بیان کیا اور اس نے "گناہ کیا" (کے الفاظ) تین بار کہے اور تیسری دفعہ کے بعد کہا: "میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، لہذا جو چاہے کرے۔"
ایک واعظ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتا ہے کہ انھوں نے بتایا،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا،"ایک بندے نے ایک گناہ کیا مذکورہ بالا حدیث بیان کی تین دفعہ ذکر کیا، اس نے ایک گناہ کیا اور تیسری بار کہا، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا جو چاہے عمل کرے۔(بخش طلب کرتا رہے)
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے عمرہ بن مرہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے ابوعبید کو حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "اللہ عزوجل رات کو اپنا دست (رحمت بندوں کی طرف) پھیلا دیتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن کو اپنا دست (رحمت) پھیلا دیتا ہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرے (اور وہ اس وقت تک یہی کرتا رہے گا) یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔"
حضرت ابو موسیٰ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:"اللہ عزوجل،رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ دن کو گناہ کرنے والا لوٹ آئےاور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ رات گناہ کرنے والا رجوع کر لے حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔"
جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابووائل (شقیق) سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں جسے مدح (اس کی رحمت و عنایت کا اقرار اور اس پر اس کی تعریف) پسند ہو، اسی لیے اس نے خود اپنی مدح فرمائی ہے اور کوئی نہیں جو اللہ سے بڑھ کر غیرت مند ہو، اسی لیے اس نے بے حیائی کے تمام کام، ان میں سے جو ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں، حرام کر دیے ہیں۔"
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو تعریف پسندیدہ نہیں ہے، اسی وجہ سے اس نے خود اپنی تعریف کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی باغیرت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اس نے بے حیائیوں سے روکا ہے، ان کو حرام قراردیا ہے۔