حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "نیکی میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو، چاہے یہی ہو کہ تم اپنے (مسلمان) بھائی کو کھلتے ہوئے چہرے سے ملو۔"
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھے فرمایا:"کسی نیکی کو کم تر (حقیر)خیال نہ کرو،اگرچہ اپنے بھائی کو کشادہ چہرے سے ملنا ہی ہو۔"
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی ضرورت مند آتا تو آپ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: "تم (ابھی اس کی) شفاعت کرو، تمہیں بھی اجر دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبان سے وہی فیصلہ جاری کرائے گا جو اس کو پسند ہو گا۔"
حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی ضرورت مند آتا، آپ اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرماتے۔" سفارش کر کے،اجرکماؤ، اللہ اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے وہی فیصلہ کروائے گا، جو اسے پسند ہو گا۔"
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیک مصاحب اور بدمصاحب کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی، مشک والا یا تو تجھے یونہی دے گا (تحفہ کے طور پر سونگھنے کے لیے) یا تو اس سے خرید لے گا یا تو اس سے اچھی خوشبو پائے گا اور بھٹی پھونکنے والا یا تو تیرےکپڑے جلا دے گا یا بری بو تجھ کو سونگھنی پڑے گی۔“
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میرے پاس ایک عورت آئی اس کی دو بیٹیاں اس کے ساتھ تھیں اس نے مجھ سے سوال کیا میرے پاس کچھ نہ تھا ایک کھجور تھی وہی میں نے اس کو دے دی اس نے وہ کجھور لے کر دو ٹکڑےکیے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بیٹیوں کو دیا اور آپ کچھ نہ کھایا، پھر اٹھی اور چلی۔ بعد اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے اس عورت کا حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مبتلا ہو بیٹیوں میں (یعنی اس کی بیٹیاں ہوں)، پھر وہ ان کے ساتھ نیکی کرے (ان کو پالے دین کی تعلیم کرے نیک شخص سے نکا ح کر دے) تو وہ قیامت کے دن اس کی آڑ ہوں گی جہنم سے۔“
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا بكر يعني ابن مضر ، عن ابن الهاد ، ان زياد بن ابي زياد مولى ابن عياش حدثه، عن عراك بن مالك ، سمعته يحدث عمر بن عبد العزيز، عن عائشة ، انها قالت: " جاءتني مسكينة تحمل ابنتين لها، فاطعمتها ثلاث تمرات، فاعطت كل واحدة منهما تمرة، ورفعت إلى فيها تمرة لتاكلها، فاستطعمتها ابنتاها، فشقت التمرة التي كانت تريد ان تاكلها بينهما، فاعجبني شانها فذكرت الذي صنعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن الله قد اوجب لها بها الجنة، او اعتقها بها من النار ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَكْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ ، أَنَّ زِيَادَ بْنَ أَبِي زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ ، سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: " جَاءَتْنِي مِسْكِينَةٌ تَحْمِلُ ابْنَتَيْنِ لَهَا، فَأَطْعَمْتُهَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ، فَأَعْطَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا تَمْرَةً، وَرَفَعَتْ إِلَى فِيهَا تَمْرَةً لِتَأْكُلَهَا، فَاسْتَطْعَمَتْهَا ابْنَتَاهَا، فَشَقَّتِ التَّمْرَةَ الَّتِي كَانَتْ تُرِيدُ أَنْ تَأْكُلَهَا بَيْنَهُمَا، فَأَعْجَبَنِي شَأْنُهَا فَذَكَرْتُ الَّذِي صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَوْجَبَ لَهَا بِهَا الْجَنَّةَ، أَوْ أَعْتَقَهَا بِهَا مِنَ النَّارِ ".
عراک بن مالک نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بیٹیاں اٹھائی ہوئی تھیں، میں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس نے کہا ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دی، (بچی ہوئی) ایک کھجور کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف لے گئی، تو وہ بھی اس کی دو بیٹیوں نے کھانے کے لیے مانگ لی، اس نے وہ کھجور بھی جو وہ کھانا چاہتی تھی، دو حصے کر کے دونوں بیٹیوں کو دے دی۔ مجھے اس کا یہ کام بہت اچھا لگا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا: "اللہ نے اس (عمل) کی وجہ سے اس کے لیے جنت پکی کر دی ہے یا (فرمایا:) اس وجہ سے اسے آگ سے آزاد کر دیا ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بچیوں کو اٹھائے ہوئے آئی تو میں نے اس کو کھانے کے لیے تین کھجوریں دیں تو اس نے ان میں سے ہر ایک کو ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف اٹھائی تو دونوں بچیوں نے اس کے کھانے کی بھی خواہش کی، چنانچہ اس نے وہ کھجور جسے وہ کود کھانا چاہتی تھی ان دونوں کے درمیان بانٹ دی تو مجھے اس کی اس حالت سے بہت تعجب ہوا، چنانچہ میں نے اس کے اس کام کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اس عمل پر جنت واجب ٹھہرادی یا اس کے ذریعہ اس کو آگ سے آزاد فرمادیا۔"
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن وہ اور میں اس طرح آئیں گے۔" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملایا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے دو بچیوں کے بالغ ہونے تک خرچہ برداشت کیا، ان کی پرورش کی، قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح آئیں گے،"اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ملا لیا۔"
امام مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "جس کسی مسلمان کے تین بچے فوت ہو جائیں تو اسے آگ صرف قسم پورا کرنے کے لیے چھوئے گی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں۔"آپ نے فرمایا:"جس مسلمان کے تین بچے فوت ہوں گے، اسے آگ صرف قسم پورا کرنے کے لیے چھوئے گی۔"
سفیان اور معمر دونوں نے زہری سے مالک کی سند کے ساتھ انہی کے مفہوم میں حدیث بیان کی، مگر سفیان کی حدیث میں ہے: "تو وہ صرف قسم پوری کرنے کے لیے آگ میں داخل ہو گا۔"
امام صاحب یہی روایت اور اساتذہ سے بھی بیان کرتے ہیں۔لیکن سفیان کی روایت میں "فَتَمَسَهُ النَارُ"کی جگہ "فَيَلِجَ النار"ہے اور یہاں "ولُوج" سے مراد مرور(گزرنا) ہی ہے۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد ، عن سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لنسوة من الانصار: " لا يموت لإحداكن ثلاثة من الولد، فتحتسبه إلا دخلت الجنة "، فقالت امراة منهن: او اثنين يا رسول الله، قال: او اثنين.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِنِسْوَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ: " لَا يَمُوتُ لِإِحْدَاكُنَّ ثَلَاثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ، فَتَحْتَسِبَهُ إِلَّا دَخَلَتِ الْجَنَّةَ "، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ: أَوِ اثْنَيْنِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَوِ اثْنَيْنِ.
سہیل کے والد (ابوصالح) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا: "تم میں سے جس عورت کے بھی تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ ان (پر صبر کرتے ہوئے ان) کا ثواب اللہ سے طلب کرے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہو گی۔" ان میں سے ایک عورت نے کہا: یا دو (بچے فوت ہو جائیں؟) اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: "یا دو بچے (فوت ہو جائیں۔) "
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا:"تم میں سے جس عورت کے تین بچے فوت ہوئے اور اس نے ثواب حاصل کرنے کی نیت کی تووہ جنت میں داخل ہو گی۔"تو ان میں سے ایک عورت نے کہا:یا دو؟ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا:"یا دو۔"
حدثنا ابو كامل الجحدري فضيل بن حسين ، حدثنا ابو عوانة ، عن عبد الرحمن بن الاصبهاني ، عن ابي صالح ذكوان ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، ذهب الرجال بحديثك، فاجعل لنا من نفسك يوما ناتيك فيه تعلمنا مما علمك الله، قال: اجتمعن يوم كذا وكذا، فاجتمعن فاتاهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعلمهن مما علمه الله، ثم قال: " ما منكن من امراة تقدم بين يديها من ولدها ثلاثة إلا كانوا لها حجابا من النار "، فقالت امراة: واثنين، واثنين، واثنين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " واثنين، واثنين، واثنين.حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ذَكْوَانَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ، فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ، قَالَ: اجْتَمِعْنَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، فَاجْتَمَعْنَ فَأَتَاهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَلَّمَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: " مَا مِنْكُنَّ مِنَ امْرَأَةٍ تُقَدِّمُ بَيْنَ يَدَيْهَا مِنْ وَلَدِهَا ثَلَاثَةً إِلَّا كَانُوا لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ "، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ: وَاثْنَيْنِ، وَاثْنَيْنِ، وَاثْنَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَاثْنَيْنِ، وَاثْنَيْنِ، وَاثْنَيْنِ.
ابوعوانہ نے عبدالرحمٰن بن اصبہانی سے، انہوں نے ابوصالح ذکوان سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور عرض کی: آپ کی گفتگو (کا بڑا حصہ) مرد لے گئے، لہذا آپ ہمارے لیے بھی اپنی طرف سے ایک دن مقرر فرما دیں کہ ہم آپ کے پاس آیا کریں اور اللہ نے آپ کو جو سکھایا ہے اس میں سے آپ ہمیں بھی سکھا دیں۔ آپ نے فرمایا: "تم عورتیں فلاں فلاں دن اکٹھی ہو جانا۔" خواتین اکٹھی ہو گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور اللہ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا تھا اس میں سے ان کو بھی سکھایا، پھر آپ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی عورت نہیں جو اپنے بچوں میں سے تین بچوں کو اپنے آگے (اللہ کے پاس) روانہ کر دے، مگر وہ اس کے لیے آگ سے بچانے والا پردہ بن جائیں گے۔" ایک عورت نے کہا: اور دو بچے بھی اور دو بچے بھی اور دو بچے بھی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور دو بچے بھی اور دو بچے بھی اور دو بچے بھی۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی باتیں تو مرد لے گئے تو آپ ہمیں بھی اپنی طرف سے ایک دن عنایت فرمائیں اس میں ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو سکیں، اللہ نے جو کچھ آپ کو سکھایا ہے۔آپ ہمیں بھی سکھائیں آپ نے فرمایا:"فلا ں فلاں دن جمع ہو جانا۔"تو عورتیں جمع ہو گئیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور اللہ نے جو تعلیم آپ کو دی ہے انہیں بھی سکھائی پھر فرمایا:"تم میں سے جو عورت بھی اپنے تین بچے آگے بھیجتی ہے وہ اس کے لیے آگ سے آڑ بنیں گے۔" تو ایک عورت نے کہا اور دو اور دواور دو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اور دو اور دواور دو۔"