حدثني حرملة بن يحيي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، ان ابن شهاب اخبره، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " بينا انا نائم إذ رايتني في الجنة، فإذا امراة توضا إلى جانب قصر، فقلت: لمن هذا؟ فقالوا: لعمر بن الخطاب، فذكرت غيرة عمر فوليت مدبرا، قال ابو هريرة: فبكى عمر، ونحن جميعا في ذلك المجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال عمر: بابي انت يا رسول الله، اعليك اغار؟.حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ رَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ، فَإِذَا امْرَأَةٌ تَوَضَّأُ إِلَى جَانِبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَكَرْتُ غَيْرَةَ عُمَرَ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَبَكَى عُمَرُ، وَنَحْنُ جَمِيعًا فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعَلَيْكَ أَغَارُ؟.
یونس نے کہا: ابن شہاب نے انھیں سعید بن مسیب سے خبر دی، انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خود کو جنت میں دیکھا تو وہاں ایک عورت، ایک محل کے جانبی حصے میں وضو کر رہی تھی۔میں نے پو چھا: یہ کس کا (محل) ہے؟انھوں نے بتا یا یہ عمر خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے۔مجھے عمر کی غیر ت یاد آئی تو میں پیٹھ پھیر کر واپس آگیا۔"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس پر عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے جبکہ ہم اس مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان!کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خود کو جنت میں دیکھا تو وہاں ایک عورت،ایک محل کے جانبی حصے میں وضو کر رہی تھی۔میں نے پو چھا:یہ کس کا (محل) ہے؟انھوں نے بتا یا یہ عمر خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔مجھے عمر کی غیرت یاد آئی تو میں پیٹھ پھیر کر واپس آگیا۔"ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس پر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے جبکہ ہم اس مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان!کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟
حدثنا منصور بن ابي مزاحم ، حدثنا إبراهيم يعني ابن سعد . ح وحدثنا حسن الحلواني ، وعبد بن حميد ، قال: اخبرني، وقال حسن: حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، اخبرني عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد ، ان محمد بن سعد بن ابي وقاص اخبره، ان اباه سعدا ، قال: " استاذن عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعنده نساء من قريش، يكلمنه، ويستكثرنه عالية اصواتهن، فلما استاذن عمر، قمن يبتدرن الحجاب، فاذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك، فقال عمر: اضحك الله سنك يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي، فلما سمعن صوتك ابتدرن الحجاب، قال عمر: فانت يا رسول الله احق ان يهبن، ثم قال عمر: اي عدوات انفسهن اتهبنني، ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلن: نعم، انت اغلظ وافظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده، ما لقيك الشيطان قط سالكا، فجا إلا سلك فجا غير فجك ".حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي، وقَالَ حَسَنٌ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ سَعْدًا ، قَالَ: " اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ، يُكَلِّمْنَهُ، وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ، قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يَهَبْنَ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي، وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَ: نَعَمْ، أَنْتَ أَغْلَظُ وَأَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا، فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ ".
ابرا ہیم بن سعد نے صالح سے، انھوں نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے عبد الحمید بن عبد الرحمٰن بن زید نے بتا یا کہ انھیں محمد بن سعد بن ابی وقاص نے خبر دی، ان کے والد سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کی اجازت طلب کی، اس وقت قریش کی کچھ خواتین آپ کے پاس (بیٹھی) آپ سے گفتگو کر رہی تھیں، بہت بول رہی تھیں، ان کی آوازیں بھی اونچی تھیں، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ کھڑی ہو کر جلدی سے پردے میں جا نے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کو اجازت دی، آپ اس وقت ہنس رہے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعا لیٰ آپ کے دندان مبارک کو مسکراتا رکھے!اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں ان عورتوں پر حیران ہوں جو میرے پاس بیٹھی ہو ئی تھیں تمھا ری آواز سنی تو فوراً پردے میں چلی گئیں۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کا زیادہ حق ہے کہ یہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر کہنے لگے۔اپنی جان کی دشمنو!مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ان عورتوں نے کہا: ہاں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سخت اور درشت مزاج ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے!جب کبھی شیطان تمھیں کسی راستے میں چلتے ہو ئے ملتا ہے تو تمھا را راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کی اجازت طلب کی، اس وقت قریش کی کچھ خواتین آپ کے پاس (بیٹھی)آپ سے گفتگو کر رہی تھیں،بہت بول رہی تھیں،ان کی آوازیں بھی اونچی تھیں،جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ کھڑی ہو کر جلدی سے پردے میں جا نے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کو اجازت دی،آپ اس وقت ہنس رہے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعا لیٰ آپ کے دندان مبارک کو مسکراتا رکھے!اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"میں ان عورتوں پر حیران ہوں جو میرے پاس بیٹھی ہو ئی تھیں تمھا ری آواز سنی تو فوراً پردے میں چلی گئیں۔"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کا زیادہ حق ہے کہ یہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر کہنے لگے۔اپنی جان کی دشمنو!مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ان عورتوں نے کہا: ہاں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سخت اور درشت مزاج ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے!جب کبھی شیطان تمھیں کسی راستے میں چلتے ہو ئے ملتا ہے تو تمھا را راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا به عبد العزيز بن محمد ، اخبرني سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة : ان عمر بن الخطاب، جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نسوة قد رفعن اصواتهن على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما استاذن عمر ابتدرن الحجاب، فذكر نحو حديث الزهري.حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا بِهِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنِي سُهَيْلٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ قَدْ رَفَعْنَ أَصْوَاتَهُنَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ.
سہیل نے اپنے والد صالح سے، انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ خواتین تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند آواز سے باتیں کر رہی تھیں۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (اندر آنےکی) اجازت مانگی تو وہ جلدی سے پردے میں چلی گئیں۔پھر انھوں نے زہری کی حدیث کے مانند بیان کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ خواتین تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند آواز سے باتیں کر رہی تھیں۔جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (اندر آنےکی) اجازت مانگی تو وہ جلدی سے پردے میں چلی گئیں۔آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
ابرا ہیم سعد نے اپنے والد سعد بن ابرا ہیم سے، انھوں نے ابو سلمہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، کہ آپ نے فرمایا کرتے تھے۔"تم سے پہلے کی امتوں میں ایسے لوگ تھے جن سے بات کی جا تی تھیں اگر ان میں سے کوئی میری امت میں ہے تو عمر خطاب انھی میں سے ہے۔"ابن وہب نے کہا: مُحَدَّثُونَکا مطلب ہے جن پر الہام کیا جا تا ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔"تم سے پہلی امتوں سے محدث ہوتے تھے،سوگرمیری امت میں ان میں سے کوئی ہوگا تو عمر بن خطاب ان میں داخل ہے۔"ابن وہب کہتے ہیں،"مُحَدَّثُونَ" کی تفسیر "مُلْهَمُونَ"ہے،(جن کی طرف الہام کیاجاتاہے)
نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی، مقام ابرا ہیم (کو نماز کی جگہ بنا نے) میں حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں (کہ ان کو قتل کر دیا جا ئے۔)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا:میں نے تین باتیں اپنے رب کی منشا کے مطابق کیں،مقام ابراہیم کے بارے میں،پردہ کے بارے میں اور بدر کے قیدیوں کے بارے میں۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: " لما توفي عبد الله بن ابي ابن سلول، جاء ابنه عبد الله بن عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله ان يعطيه، قميصه ان يكفن فيه اباه، فاعطاه، ثم ساله ان يصلي عليه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه، فقام عمر، فاخذ بثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اتصلي عليه وقد نهاك الله ان تصلي عليه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما خيرني الله، فقال: استغفر لهم، او لا تستغفر لهم، إن تستغفر لهم سبعين مرة، وسازيد على سبعين، قال: إنه منافق فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانزل الله عز وجل: ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره سورة التوبة آية 84 ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ، قَمِيصَهُ أَنْ يُكَفِّنَ فِيهِ أَبَاهُ، فَأَعْطَاهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ عُمَرُ، فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي عَلَيْهِ وَقَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ، أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً، وَسَأَزِيدُ عَلَى سَبْعِينَ، قَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84 ".
ابو اسامہ نے کہا: ہمیں عبید اللہ نے نافع سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب (رئیس المنافقین) عبد اللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو اس کا بیٹا عبد اللہ بن عبد اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اپنی قمیص عنایت فر ما ئیں جس میں وہ اپنے باپ کو کفن دے، آپ نے اسے عنایت کر دی، پھر اس نے یہ درخواست کی کہ آپ اس کا نماز جنازہ پڑھا ئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہو ئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو ئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا پکڑااور عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ اس شخص کی نماز جنازہ پڑھیں گے جبکہ اللہ تعا لیٰ نے آپ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے: " آپ ان کے لیے بخشش کی دعا کریں یا نہ کریں۔آپ ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کریں گے (تو بھی اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا۔) تو میں ستر سے زیادہ بار بخشش مانگ لوں گا۔انھوں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: وہ منا فق ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔اس پر اللہ تعا لیٰ نے یہ آیت نازل فر مائی: "ان میں سے کسی کی بھی، جب وہ مرجائے کبھی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر کھڑےہوں۔"
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جب عبد اللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو اس کا بیٹا عبد اللہ بن عبد اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اپنی قمیص عنایت فر ئیں جس میں وہ اپنے باپ کو کفن دے،آپ نے اسے عنایت کر دی،پھر اس نے یہ درخواست کی کہ آپ اس کا نماز جنازہ پڑھا ئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہو ئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو ئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا پکڑااور عرض کی:اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ اس شخص کی نماز جنازہ پڑھیں گے جبکہ اللہ تعا لیٰ نے آپ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فر یا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:" اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے اور فر یا ہے:" آپ ان کے لیے بخشش کی دعا کریں یا نہ کریں۔آپ ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کریں گے(تو بھی اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا۔)تو میں ستر سے زیادہ بار بخشش مانگ لوں گا۔انھوں (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: وہ منا فق ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔اس پر اللہ تعا لیٰ نے یہ آیت نازل فر مائی:"ان میں سے کسی کی بھی،جب وہ مرجائے کبھی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر کھڑےہوں۔"(توبہ،آیت نمبر۔84)
یحییٰ قطان نے عبید اللہ سے اسی سند کے ساتھ ابو اسامہ کی حدیث کے ہم معنی روایت کی اور مزید بیان کیا: کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔
یہی روایت امام صاحب دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنا چھوڑدیا۔